وجود

... loading ...

وجود

خوفناک عدم استحکام کا آغاز

هفته 17 فروری 2024 خوفناک عدم استحکام کا آغاز

رفیق پٹیل
موجودہ انتخابی عمل اور اس کے نتائج کے بعد کی صورتحال پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا مظہر ہے۔ کسی بھی سابقہ انتخابات کے ساتھ اس کی مماثلت نہیںہے ۔کسی بھی سابقہ انتخابات سے اس کاموازنہ کرنا دانشمندی نہیں ہے۔ حالت یہ ہوچکی ہے کہ دنیا کی دو انتہائی معروف یونیورسٹیوں ہاروردڈ اور مشی گن میں اس پر نصابی تحقیق(CASE STUDY)کا آ غاز کیا جارہا ہے جس میں ممکنہ طور پر اس تمام عمل اور بعد کی صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے گا۔ اس کا مرکزی نکتہ یہ بھی ہے کہ جب عمران خان جیل میں تھے ۔انہیں 31سال کی سزا بھی ہوچکی تھی ،دیگر قیادت بھی جیل میں تھی۔ ہزاروں کارکن بھی جیلوں میں تھے ۔میڈیا پر بھی عمران خان کے نام لینے پر پابندی تھی۔ انتخابی مہم کی اجازت بھی نہیں تھی ۔اس کے بعد یہ کیسے ممکن ہوا کہ تحریک انصاف نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کرلی؟ اس کے علاوہ دنیا بھر کا میڈیا ان انتخابات میں دھاندلی کے بارے میںجو ہولناک تصویر پیش کررہا ہے اس کی مثال بھی نہیں ملتی۔ تحریک انصاف کے انتخابی نشان کو چھیننے کا بھی ان رپورٹس میں خصوصی ذکر ہے۔ اس طرح الیکشن کمیشن اور عدالتی عمل کی بھی منفی تصویر سامنے آرہی ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کی اس تصویر کشی کے بعد دھاندلی زدہ حکومت کو عالمی سطح پر ذرہ برابر بھی پزیرائی نہیں ملے گی۔ عمومی طور پر الیکشن کی چوری کو اہم جمہوری ممالک خصوصاً مغرب اور امریکا میں جرم تصور کیا جاتا ہے ۔پاکستان کے آنے والے حکمرانوں کو الیکشن چوراور الیکشن فراڈ کا تاج سرپر سجانا خود ان کی اپنی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہو سکتا ہے دنیا بھر کے میڈیا کے اثرات سے چشم پوشی سے وہ خو د کو وقتی طور پر تسلّی دے رہے ہوں لیکن جس درجے کا طوفان عالمی میڈیا پر جاری ہے ۔شاید ہی دنیا کے کسی بھی ملک کا اس طرح سے باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہو گا، جس طرح پاکستان کے انتخابی عمل کا لیا جارہا ہے۔ اب پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر بھی مزید دبائو بڑھ جا ئے گا۔ ہارس ٹریڈنگ کے ذمہ داربھی عالمی میڈیا کے ہاتھوں ایسی رسوائی کا سامنا کریں گے جس کا انہیں تصور بھی نہ ہوگا۔ ایسا لگتا ہے جیسے پوری دنیا نے پاکستان کا خوردبین سے جائزہ لینا شروع کردیا ہے ۔امریکہ میں بعض پاکستانیوں نے اپنی گاڑیوں پر LOVE 804 کی نمبر پلیٹ لگانا شروع کردی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ سلسلہ مزید پھیل سکتا ہے۔
13فروری2024 برطانوی اخبار دی گارڈین نے جو رپورٹ شائع کی ہے وہ پاکستان کے حکمرانوں کی رہی سہی ساکھ کو خاک میں ملا رہی ہے۔ اس رپورٹ کامکمل ترجمہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی صورت حال کی وجہ سے شائع نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے چند چیدہ حصے اس طرح ہیں اس کا عنوان ہے ( موجودہ انتخابی ہنگامہ پاکستان پر ایک کمزور اور غیرمقبول حکومت کا باعث بناہے ) اس کی ذیلی سرخی ہے (حکومت نواز شریف کی جماعت بنائے گی لیکن جیل میں بند عمران خان کی مقبولیت کے پیش نظر یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گی )۔رپورٹ میں کہا گیا ہے ” انتخابات کے روز سہ پہرکو بعض اہم ذرائع سے یہ رپورٹ مقتدر حلقوں کو موصول ہونا شروع ہو چکی تھی کہ زمینی صورتحال منصوبے کے مطابق نہیں جا رہی ہے۔ ان اطلاعات کے بعد ووٹ ڈالنے کے عمل کو سست کیا گیا۔ موبائل سروس سیکوریٹی کے نام پر معطّل کی گئی۔ لیکن اس کا اصل مقصد ووٹ دینے والوں خصوصاً عمران خان کے حامیوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے دور رکھنا تھا۔ یہ حکمت عملی ناکام ہوگئی۔ عمران خان کے حامیوں نے تمام حربوںکو ناکا م بناکر اکثر نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی۔ پی ٹی آئی کے ووٹرز گھروں سے نکلے لیکن مسلم لیگ ن کے ووٹرز نہیں آئے۔ ابتدائی نتائج میں پی ٹی آئی بڑے پیمانے پر جیت رہی تھی۔ اس وقت اندازہ ہوا کہ معاملات ہاتھ سے نکل رہے ہیں ۔اس کے بعد طویل تعطل پیدا ہوا۔ اس موقع پر برطانوی وزارت خارجہ نے نتائج کی تاخیر اور دھاندلی کی رپورٹوں پر تشویش ظاہر کی ”۔رپورٹ میں اہم ادارے کو بعض معاملات میں ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے ۔ رپورٹ کے آخری حصے میں پاکستانی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کاتبصرہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ نئی حکومت کے پاس نہ ہی کوئی معاشی منصوبہ ہے نہ ہی یہ منتخب حکومت کہلائے گی، نہ ہی یہ زیادہ عرصے قائم رہے گی۔
ایک بھارتی چینل نے پاکستانی معیشت کو انتہائی شدید بحران میں مبتلا قرار دیتے ہوئے پاکستان ایک اہم انگریزی اخبار کی رپورٹ کا ذکر کیا ہے جس کے مطابق پاکستان کے بڑے سرمایہ دار اور تاجر اپنا کاروبار اور سرمایہ بیرون ملک منتقل کررہے ہیں ۔ایک اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں بتایا گیا ہے کہ ” کس طرح پاکستا نی نوجوانوں کی اکثریت نے انٹرنیٹ کے استعمال سے اس انتخابی مہم میں شامل ہوکر روایتی سیاست کو شکست دے دی نوجوانوں میںمعیشت کی تباہ حالی سے بھی مایوسی پھیلی ہوئی ہے جبکہ وہ ملک میں دو خاندانوں کی حاکمیت کو بھی تسلیم کرنے کو تیا ر نہیں ہیں”۔ ان رپورٹوں کے علاوہ ملک بھر کے عوام میں دھاندلی کی وجہ سے شدید بے چینی اور غم و غصہ ہے اس کیفیت کا اندازہ کرتے ہوئے ملک کی مختلف چھوٹی بڑی سیاسی جما عتیں اور گروپ احتجاج کے لیے میدان مین آگئے ہیں جس میں جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین ، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس،اور بلوچستان کے مختلف گروپوں اور دیگر جماعتوںکے ہمراہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا احتجاج جاری ہے۔ بلوچستان میں اس کی شدّت بہت زیادہ ہے ۔یہ سلسلہ آسانی سے ٹل نہیں سکے گا ،نہ ہی تشدّد سے اسے روکا جا سکے گا۔ یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ملک کے دیگر تمام سیاسی گروپوں سے تعاون حاصل کرنے کے لیے کوشش شروع کردی ہے۔ کراچی میں حافظ نعیم الرحمان نے اپنی جیتی ہوئی سیٹ واپس کردی ہے جس کی وجہ سے انہیں پی ٹی آئی کے حلقوں میں کافی پزیرائی ملی ہے۔ سرکاری نتائج کے مطا بق پی ٹی آئی حکومت کی تشکیل میں تنہا کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایک اور مسئلہ مخصوص نشستوں کا ہے جس سے وہ اس لئے محروم ہیں کہ ان کا انتخابی نشان ان سے لے لیا گیا ہے اور جونام انہوں نے جمع کرائے تھے۔ اسے الیکشن کمیشن تسلیم کرنے کو تیا ر نہیں ہے ۔پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ انہیں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے وہ اپنی نشستیں واپس چاہتے ہیں۔اس سلسلے میں تحریک انصاف نے قانونی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ جمعیت علماء اسلام(ف) کے سر براہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہونا چاہتے ہیں۔انہوں نے نواز شریف کو بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھیں۔ بظاہر اس صورت حال پر قابو بھی پالیا جائے اورجبری طریقہ کار سے جوڑ توڑ کی حکومت قائم بھی کرلی جائے، بد ترین طاقت کے استعمال سے سیاست کا انتظام کرلیا جائے، پی ٹی آئی کے تمام کرتا دھرتا لوگوں کو گرفتا کر لیا جائے، اس صورت میں بھی بد ترین تباہی ہوگی ۔موجودہ بحران کے حل کے لیے سپریم کورٹ،الیکشن کمیشن اور نگران حکومت نے کردار ادا نہ کیا تو تاریخ کیا فیصلہ کرے گی سب جانتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر