... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
عوامی نمائندوں کے عوام سے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل کا وقت قریب آن پہنچا کیونکہ ن لیگ ، پیپلز پارٹی ، ایم ایم کیو ، (ق) لیگ ، آئی پی پی اور بی این پی کا وفاق میں اتحادی حکومت بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ اگر کسی کو یاد ہو کہ الیکشن سے پہلے بلاول نے عام لوگوں کے لیے 300 یونٹ بجلی مفت ،مریم نواز نے 200 یونٹ بجلی مفت اور علیم خان موٹر سائیکل والوں کے لیے سستا پیٹرول اور 300 یونٹ بجلی مفت کرنے کا اعلان ببانگ دہل کیا تھا، خیر سے الیکشن ہوگئے جسے کسی ایک جماعت نے بھی صاف شفاف نہیں کہا، اب حکومت سازی کا عمل جاری ہے جس کے بعد وہ سب پارٹیا ں حکومت میں شامل ہو جائینگی جنہوں نے اپنے جلسوں میں عوام کو ریلیف دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اگر ان سب کے وعدوں کو اکٹھا کرلیا جائے تو پاکستان میں غریب آدمی کو تقریبا 8سو یونٹ بجلی مفت ملے گی لیکن ان باتوں کو چھوڑیں۔ یہ سب پارٹیاں مل کر صرف 2سو یونٹ تک بجلی مفت کردیں تو میں سمجھوں گا کہ یہ پارٹیاں اور ان کے لیڈر ملک وقوم سے مخلص ہیں لیکن ان کی حکومت آتے ہی اگر بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت پیٹرول کی قیمت بھی بڑھ جائے تو پھر سمجھ لیں کہ سیاست عبادت نہیں بلکہ منافقت کا دوسرا نام ہے جو پارٹی لیڈر الیکشن سے پہلے ایک دوسرے کی خامیاں گنوا تے گنواتے نہیں تھکتے تھے۔ اب وہ اپنے اپنے مفادات کی خاطر بغل گیر ہو رہے ہیںتو سمجھ جائیں کہ انہیں ملک و قوم سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ انہیں اپنی اور اپنے خاندان کی سیاست عزیز ہے۔
میاں نواز شریف خاندان کی اگر بات کریں تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ ساتویں بار اور وزارت اعظمیٰ پانچویں بار شریف خاندان کے ہی گھرجارہی ہے اور مریم نواز کی نامزدگی کے بعد شریف خاندان کے گھر کا چوتھا فرد وزیراعلیٰ پنجاب بنے گالیکن سوال یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے قرضے اور غربت کے باعث لوگوں کا معاشی نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ پی ڈی ایم کے دور حکومت کے اثرات ابھی تک عوام کے ذہنوں سے نہیں نکل رہے جس کی وجہ سے پاکستان غربت میں خطرناک حد تک اضافے سے دوچار ہے جبکہ وبائی امراض اور 2022کے تباہ کن سیلاب کے پیچیدہ اثرات کی وجہ سے ابھی تک حالات غیر معمولی ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق 45.5 فیصد آبادی جو کہ 110 ملین افراد کے برابر ہے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ ووٹ ڈالے وہ بھی اس امید پر کہ شاید ان حکمرانوں کا کوئی ایک وعدہ ہی وفا ہوجائے اور وہ غربت کی دلدل سے باہر نکل آئیں مگر انہیں شایدیہ معلوم نہیں ہے کہ آنے والے یہ حکمران پروٹوکول کے اتنے شیدائی ہیں کہ گھر سے باہر نکلیں تو سڑکیں بند کروادیتے ہیں دفتر پہنچیں تو لوگوں کا داخلہ بند ہوجاتا ہے۔ اسمبلی میں موجود ہوں تو ممبران اسمبلی کا ان سے ملنا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر جیسے ہی یہ لوگ حکمران بنتے ہیں تو پھر غریب ووٹروں کا جینا مشکل ہوجاتا ہے۔ سرکاری خزانے کو مال مفت سمجھ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ ملازمین کی فوج آگے پیچھے رہتی ہے کہنے کو تو یہ اپنے آپ کو خادم اور خادم اعلی کہتے ہیں لیکن انداز بادشاہوں جیسا اپنا لیتے ہیں۔ مفادات سامنے ہوں تو نواز زرداری بھائی بھائی بن جاتے ہیں۔ انتقام سامنے ہو تو پھر ایک دوسرے کی مخالفت میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ پیٹ پھاڑنے ،سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹھ میں چھری گھونپنے جیسے الفاظ ان کی تقریروں میں آجاتے ہیں اور پھر جیسے ہی اقتدار نظر آتا ہے تو مغل گیر ہوجاتے ہیں۔ ان حالیہ الیکشن میں کوئی بھی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے اور خریدوفروخت کے ماہراور چھانگا مانگا سیاست کے بانیوں نے اپنا اپنا کام شروع کردیا۔کسی کو وزارت ملے گی تو کسی کو صدارت ملے گی، کسی کو اسپیکر شپ مل جائیگی تو کسی کو گورنری پلیٹ میں رکھ کر دیدی جائیگی ۔کسی کو سرکاری فنڈز کا ریلا ملے گا تو کسی کو نوکریوں کا سیلاب دیا جائیگا اور پھر ایک مخلوط حکومت بنے گی جس کے لئے معاشی اصلاحات اور ملک کو بچانے کے لئے مشکل فیصلے کرناناگزیر ہونگے ۔سیاسی شہرت کی خاطراور اپنے حامیوں کی خوشی کے لیے سخت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے معاشی زوال اور قرضے لینے کا عمل تیز ہو جائے گا جس کا نتیجہ اقتصادی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا ۔ہمارے سیاستدانوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ماضی سے کوئی سبق سیکھیں اور الیکشن مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں یا آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر نیا معاہدہ کر سکیں۔ اس لئے ان سے کوئی امید نہ رکھی جائے کیونکہ نئی حکومت کی ساری توجہ جوڑ توڑ، خرید و فروخت، وسائل کے بے دریغ استعمال اور اپوزیشن سے انتقام لینے پر مرکوزہو گی اور وہ عوام کے لئے کچھ بھی نہیں کرپائیگی ۔ان حالات میں ملکی استحکام سمیت عام آدمی کی معاشی صورتحال درست کیسے ہوسکے گی ،رہی بات عمران خان کی ایم ڈبلیو ایم سے سیاسی الحاق کی میںسمجھتا ہوں کہ راجہ ناصر عباس پہلے بھی کھل کر عمران خان کا ساتھ دیتے آئے ہیں اور اس بار تو انہوں نے اپنی وفاداری کی انتہا کرتے ہوئے بغیر کسی شرط کے اپنی پارٹی عمران خان کے حوالے کردی ہے کہ وہ جیسے چاہیں اسے استعمال کرسکتے ہیں۔ علامہ راجہ ناصر عباس اس وقت بھی عمران خان کے ساتھ ثابت قدم رہے جب انہیں ان کے اپنے نوازے ہوئے افراد چھوڑ چھوڑ کر نہ صرف جارہے تھے بلکہ ان احسان فراموشوں نے اپنے محسن کے خلاف کھل کر ہرزہ سرائی بھی شروع کردی اور پھر ان مفاد پرستوں کو اس الیکشن میں عوام نے ان کی اصلیت بھی بتا دی، جس کے بعد کچھ سیاست سے ہی فارغ ہوگئے اور کچھ سیاسی منظر نامے سے ہی غائب ہوگئے ۔
رہی بات علی امین گنڈا پور کی وہ خیبر پختون خواہ کے سیاسی میدان میں ایسا کام کرجائیں گے جو آج تک کسی نے نہیں کیا ہوگا ۔ہمارے پنجاب کے حکمران تو الیکشن جیتنے سے پہلے ہی پروٹوکول لگوالیتے ہیں جبکہ علی امین ایسا مرد قلندر ہے جو وزیر اعلیٰ نامزد ہونے کے بعد بھی پروٹوکول کے لیے آنے والے پولیس ملازمین کو واپس بھجوا دیتا ہے کہ مجھے ضرورت نہیں آپ اپنا کام کریں اور میںاپنا کام۔ علی امین گنڈا پور جیسا وفادار شخص کپتان کا سرمایہ ہے اور ایسے شخص کو وزیر اعلی بنانا خیبر پختون خواہ کے عوام کے لیے بھی خو ش قسمتی ہوگا۔امید ہے جماعت اسلامی ، تحریک لبیک اور مجلس وحدت مسلمین کا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ملک کی درست سمت کا تعین بھی کریگا اور عوام کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں کی لوٹا سیاست سے نجات بھی دلائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔