... loading ...
حمید اللہ بھٹی
انتخابی نتائج سے یہ تو اب واضح ہو گیا ہے کہ کسی بھی جماعت کوپارلیمان میں سادہ اکثریت نہیں ملی اور کوئی ایک بھی جماعت اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے بلکہ ایک اتحادی حکومت تشکیل پانا یقینی ہے۔ آٹھ فروری کے نتائج سامنے آنے کے بعد بڑی جماعتوں نے اتحادی حکومت تشکیل دینے کے لیے جوڑ توڑ شروع کر دیا ہے۔ حکومت سازی کی سرگرمیوں میں اِس حدتک تیزی آچکی ہے کہ ملکی مسائل کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے ہر پل دائو کے لیے سیاسی قیادت گھات لگائے بیٹھی ہے۔ امکان ہے کہ نومنتخب ممبران ِ قومی اسمبلی کی حلف برداری کے لیے اجلاس رواں ماہ 29فروری تک طلب کر لیاجائے جس میں ابھی پندرہ دن ہونے کے باوجود جنونیت کی فضا ہے۔ سیاسی قیادت کے اطوار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقتدار کے لیے اِس حدتک بے چین ہیں کہ ہر انتہا تک جانے کوبھی تیار ہے ۔چھوٹی تو ایک طرف بڑی جماعتیں بھی اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی تگ و دو میں ہیں۔ حالانکہ حکومت سازی کے لیے اخلاقیات قربان کردینا قابلِ تعریف یا قابلِ رشک رویہ نہیں کہہ سکتے مگرسیاسی جوڑ توڑ سے مترشح ہے کہ اخلاق ،اصول یاجمہوری رویوں کی پاسداری کی بجائے سب کی نظر اقتدار کی منزل پر ہے۔
مسلم لیگ ن کاموقف ہے کہ نواز شریف کو عدالتوں کی طرف سے نااہل کرنے اور دیگر سنائی گئی سزائیں غلط اور بلاجواز تھیں اوراب ازالے کے لیے اُنھیںچوتھی بار وزیرِ اعظم بناناضروری ہے۔ اِس کے لیے نہ صرف بڑے طمطراق سے برطانیہ سے پاکستان لایا گیا بلکہ ایک تاریخ ساز استقبال کی بھی بساط بھر کوشش کی گئی مگر موجودہ انتخابی نتائج کی روشنی میں نہ صرف ایک بااختیار حکومت تشکیل پانے کا امکان معدوم ہوچکا ہے بلکہ نواز شریف کے لیے بھی سیاسی فضا ناہموار سی ہوچکی ہے اور متوقع حکومت میں ایسے کئی نظریاتی حریف شامل ہو سکتے ہیں جن کے ساتھ قائد لیگ شایدہی زیادہ عرصہ گزارہ کر سکیں۔ اِس لیے متبادل کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ شاید اسی سوچ کے تحت ن لیگ اور پی پی میں شراکتِ اقتدار کے ایک ایسے فارمولے پر کام جاری ہے جس میں دو اور تین سال کے لیے وزارتِ عظمیٰ کا منصب دونوں جماعتوں کے پاس رہ سکے ۔انتخابی نتائج کے بعد اگر سیاسی منظرنامے کی سب سے بڑی پیش رفت کاتذکرہ کیا جائے تو وہ پی پی اور ن لیگ میں تعاون کی بات ہے مگر نواز شریف کے چوتھی باروزیرِ اعظم بننے کا امکان پھر بھی زیادہ نہیں لگتا بلکہ قوی امکان ہے کہ شہبازشریف کوہی دوبارہ یہ منصب مل جائے اگر ایسا ہوتا ہے تو پنجاب میں نواز شریف خاندان کی چشم و چراغ وزیرِ اعلیٰ پنجاب منتخب ہو سکتی ہیں اور یہ پنجاب کی تاریخ میں پہلا موقع ہوگا کہ کوئی خاتون وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئی ہو۔
انتخابی مُہم کے اختتامی مراحل کے قریب بانی پی ٹی آئی عمران خان کو یکے بعد دیگر سنائی جانے والی سزائوں پر ن لیگ نے قدرے اطمینان کا سانس لیا کہ چلیں ایک مقبول ترین سیاسی رہنما انتخابی اکھاڑے سے باہر ہوگیا ہے اور وہ اب دوتہائی اکثریت لیکرباآسانی بلاشرکت غیرے حکومت بنا لے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔بلکہ شدید عوامی ردِ عمل نے توقعات کو غلط ثابت کردیاہے۔ دراصل پی ڈی ایم کے اقتدار میں مہنگائی میں اِس قدر اضافہ ہواکہ ملک کا ہرشہری مالی پریشانی ومشکلات کے گھیرے میں آگیالیکن اقتدار ملنے کی خوشی میں کسی نے عوامی مشکلات کا احساس تک نہ کیا۔یوں مقبول ن لیگ غیر مقبول ہوتی گئی جس کا کوئی بھی حکومتی عہدیدار ادراک نہ کرپایابلکہ حکومت سے رُخصت ہونے کے بعد ایسی کوششیں شروع کردیں کہ عمران خان کو آٹھ فرروی سے قبل کسی طرح سزا مل جائے تاکہ وہ انتخابی عمل میں حصہ نہ لے سکے اور ایسا ہوبھی گیا لیکن سچ یہ ہے بانی پی ٹی آئی کو سزائوں سے پی ٹی آئی کو ہمدردی کا اِ تناووٹ پڑاکہ کئی غیر معروف اور غیر مقبول چہروں نے پی ٹی آئی کی حمایت سے بڑے بڑے نامی گرامی رہنمائوں کو پچھاڑ دیا۔ اب بھی موقع ہے کہ سیاسی قیادت اختلافِ رائے کو دشمنی کے قالب میں ڈھالنے سے گریز کرے تاکہ کارکنوں کی حدتک سرایت کرجانے عدم برداشت اور تلخی میں کمی آسکے ۔رواداری اور برداشت کا نام ہی جمہوریت ہے مگر یہ تبھی ممکن ہے جب سیاسی قیادت بلوغت کا مظاہرہ کرے۔ بظاہر تو اب بھی سبھی روایتی سیاسی چالیں چلنے میں مصروف ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو خریدنے کا عمل ثابت کرتا ہے کہ قیادت سیکھنے کی بجائے اقتدار حاصل کرنے کی روایتی روش پر گامزن ہے جس کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں کبھی غلام بکتے تھے مگرپاکستان میں اکیسویں صدی میں بھی آزادبِک رہے ہیں ۔
سندھ اور بلوچستان میں پی پی اپنی ہم خیال جماعتوں کے ساتھ حکومت بنا سکتی ہے۔ مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری اِس حوالے سے متحرک ہیں لیکن اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو کو وزیرِ اعظم بنانے کے لیے اب بھی مشکلات بدستورموجودہیں ۔ملک کا اہم ترین منصب حاصل کرنے کے لیے اُنھیں بھی سیاسی اخلاقیات کے منافی ہارس ٹریڈنگ کا سہارہ لینا پڑے گا۔ ابھی تک تو کچھ آزاد منتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کی طرف جا چکے ہیں۔اِس کے باوجوداکیلے حکومت بناناخواب سا ہے ۔آزاد امیدواروں کی اکثریت منتخب ہونے سے ایسی صورتحال بن گئی ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل رہنے والی جماعتوں کواب بھی ساتھ ملائے بغیر حکومت بناناسہل نہیں، کیونکہ آزاد امیدواروں کی اکثریت پی ٹی آئی کی حمایت سے منتخب ہوئی ہے ۔کے پی کے میںتو پی ٹی آئی کے حامی امیدواروں نے کلین سویپ کرلیا ہے مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ بطور امیدوار جو دعوے کیے جاتے ہیں انھیں منتخب ہوتے ہی بھلا دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے اکثر انتخابات کے بعد حکومت بنانے کے لیے سودے بازی اور سیاسی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے لیکن حالیہ انتخابات نے ملک پر باری باری حکومت کرنے والی جماعتوں ن لیگ اور پی پی کو ایسے نازک مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ آئندہ بھی بظاہر حریف ہونے کی دعویدار جماعتوں کے لیے باہمی تعاون کے سواکوئی راستہ ہی نہیں بچا پھر بھی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے لازم ہے کہ عوامی رائے کا احترام کیا جائے اگر عوامی رائے کا احترام نہیں ہوگا تو سیاسی بے یقینی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا جس کا ملک اب مزید متحمل نہیں ہو سکتا ملک کی سالمیت اور مضبوطی کے لیے عوامی رائے کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔