... loading ...
ماجرا/ محمدطاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکارِ دو عالمۖ کا ارشاد ہے کہ ”بے حیا جو جی چاہے کرے”۔ بے حیا نظام کا بندوبست بھی ہر حد عبور کر چکا ۔ یہ ڈھٹائی الیکشن کمیشن ہی دکھا سکتا ہے کہ انتخابات کو شفاف کہے۔اعلامیہ جاری ہوا جس میںفرمایا گیا کہ ”انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں، اکا دکا واقعات کے تدارک کے لیے شکایات پر فوری فیصلے بھی کئے جا رہے ہیں”۔ یہ وہ الیکشن کمیشن ہے جن پر ووٹوں کی گنتی کا بوجھ تھا جو 70 سے 80 حلقوں کے نتائج کی پھیر بدل کو ”اکا دکا” واقعات قرار دے رہا ہے۔ یہی وہ انتخابات ہے جسے نواز شریف کی ”بزمِ بے حیا” نے 8فروری کے صاف وشفاف اُفق سے انتخابات کے ایسے سورج کے طلوع ہونے کی صورت میں دیکھا ہے، جس پر کسی 2018 کے آسیب نے سایہ نہ کر رکھا تھا۔ نواز شریف کی ”بزم بے حیا” سے ایک آواز نے چھ برس قبل کے ”جری سپوتوں” کو یاد کرتے ہوئے اُن پر ”حیا باختہ” کی پھبتی بھی کسی ہے۔ مہرباں ساعتوں میںجن کو اب ”حیا باختہ ” کردار کہا جار ہا ہے، یہ وہی تھے جو 2018 ء میں این اے 71سیالکوٹ میں عثمان ڈار کے خلاف خواجہ آصف کے کام آئے تھے۔یہ وہی تھے جن کے بار ے میں اب راز کھلا ہے کہ وہ تب عمران خان کی نشستوں کو بڑھا نہیں گھٹا رہے تھے، یہ وہی ہیں جنہوں نے سندھ زرداری کے حوالے کردیا تھا۔ یہ وہی تھے جنہوں نے کراچی میںتحریک انصاف کی 16 نشستوں کو تب بھی 14 پر محدود کیا تھا۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے تب بھی جماعت اسلامی کے مینڈیٹ کو چھینا تھا۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے تب بھی اپنے فرماں بردار ”جی ڈی اے” کو آصف علی زرداری کے رحم و کرم پر چھوڑد یا تھا۔یہ وہی ہیں جن کی سرپرستی کے بغیر تحریک عدم اعتمادپیش نہ کرنے کا اعلانیہ اظہار ”پروفیسر” احسن اقبال نے جگمگاتی ٹی وی اسکرین پر کیا تھا، یہ وہی ہیں جنہوں نے 8مارچ 2022ء کووزیراعظم عمران خان کے خلا ف تحریک عدم اعتماد کی سرپرستی کی تھی۔ یہ وہی ہیں جن سے” چھوٹے شریف” نے چھپ چھپ کر ملاقاتیں کی تھیں۔یہ وہی ہیں جن کے سسرالی رشتہ دار لندن کے پرفضامقامات اور اُن فلیٹوں میں (جس کی رسیدیں کبھی شریف خاندان دکھا نہیں سکا) ملاقاتیں کرتے رہے، ان ہی ملاقاتوں میں وہ منصوبے بنائے گئے،جس نے پاکستان کی سیاست میںمایوسی کو بودیا، مجرمانہ روش کی سرپرستی کے خدوخال طے ہوئے، پارلیمنٹ میں اُٹھا پٹخ سے وفاداریوں کی خریدوفروخت کے دھندے شروع ہوئے اوراسلام آباد کے سندھ ہاؤس کی میزوں پر نوٹوں کو سجا کر ارکان سے سودے پٹائے گئے۔ یہ وہی ہیں جنہوںنے تحریک عدم اعتماد کامیاب کرائی۔ اجلاس میں تاخیر پر جیل کی گاڑیاں اسمبلی کے باہر کھڑی کروائیں۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف مختلف خانہ ساز کہانیوں کو پھیلا کر شریف خاندان کے لیے راستے ہموار کیے۔ نوازشریف کی ”بزمِ بے حیا” نے اب انہیں طنز سے بھری ”جری سپوتوں” کی ترکیب سے یاد کیا ہے اور تسلی نہ ہونے پر ”حیا باختہ” کی پھبتی بھی اُچھالی ہے۔ اگر یہ تمام احسانات بھی اُنہیں آج تحقیر آمیز الفاظ سے یاد کرنے کے سزاوار بناتے ہیں جو مناصب پر نہیں رہے، تو یہ شریف خاندان کے کردار کے عین مطابق ہے ۔کوئی اس بات کو پہچانتا ہو یا نہ ہو، مگر راجہ ریاض اسے خوب جانتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت گرانے میں اپنا کندھا فراہم کرنے کے بعد جب بھلا دیے گئے تو راجہ ریاض نے اس کردار کی وضاحت میں وہ شہرہ آفاق فقرہ کہا تھا جس میںلہجے کی گھلاوٹ کے ساتھ کسبی کی حیا کا سایہ بھی تھا کہ ”مطلب نکل گیا تو’ پشانتے’ بھی نہیں”۔ آج مناصب سے سرفراز بھی کل اسی طرح نشانہ ہوں گے، کہ ابھی بھی تمام فوائد سمیٹنے کے بعد یہ پورا طبقہ ان کی حمایت میں ایک لفظ بولنے کو تیا رنہیں۔ زیادہ دن نہیں گزرے، عین انتخابات سے چند روز پیشتر شہباز شریف نے کہا تھا کہ ”اگر میں اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہوتا تو جیل کبھی نہ جاتا”۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد سولہ ماہ کی حکومت میں سب سے اعلیٰ منصب کی ”مہربانی” کے باوجود اور حالیہ انتخابات میں تمام مہربانیوں کو سمیٹنے والے اگر اتنی حیا بھی نہیں رکھتے کہ اپنے سرپرستوں سے تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے اُن قوتوں کو کچھ سیاسی حمایت فراہم کریں جوخود ان کو حکومت میںلانے کے لیے ملک بھر میں رسوا ہوئے تو کل جب یہ اپنے مناصب پر نہ ہوں گے تو کن الفاظ سے یاد کیے جائیںگے ؟ راجہ ریاض کے الفاظ میں یہ ”پشانیں ”(پہچانیں) گے بھی نہیں۔
ابھی تو ان موٹے پیٹوں کے لشکر اور نوازشریف کی ”بزم بے حیا ”کا ہدف حکومت بنانا ہے۔ جس کے لیے انتخابات کے عمل کو الیکشن کمیشن کی طرح ٹھیک باور کرانا مجبوری ہے۔ چنانچہ تمام دسترخوانی قبیلے کو حرکت میںلایا گیا ہے جو نون لیگ کو دھاندلی سے پڑنے والوں ووٹوں کا شمار باقی اتحادی جماعتوں کی گنتی میںشامل کرکے یہ باور کرانے پر تُلے ہیں کہ تحریک انصاف کے خلاف کتنا ووٹ پڑا ہے۔ دستر خوانی قبیلے کی خدمت میں عرض ہے کہ تحریک انصاف کو ووٹ 8 فروری کو پڑا ہے اور باقی جماعتوں نے ووٹ 9 فروری کو لیے ہیں۔ باقی جماعتیں تو فارم 47 کی حدتک تو ابھی بھی مسلسل ووٹ حاصل کر رہی ہیں۔ دستر خوانی قبیلے کے حساب کتاب کی بات دوسری ہے جو ووٹوں کی گنتی نوالوں کی تعداد سے کرنے کی عادی ہے۔
دسترخوانی قبیلے کو کون احساس دلائے گا کہ پاکستان کی تاریخ کے بارہویںانتخابات ماضی کے رجحانات کے غماز نہیں، نئے رجحانات کی تخلیق کے آئینہ دار ہیں۔ جس میں عمران خان کی کامیابی کا جائزہ روایتی پیمانوں سے نہیں لیا جا سکتا۔ عمران خان کی کامیابی کو انتخابی نشستوں کے اُس ہندسے سے بھی نہیں لگایا جاسکتا جو 70 سے 80نشستوں کے نتائج کی ہیر پھیر کے باوجود اب بھی سب سے زیادہ ہیں۔ جس کے ووٹوں کی تعداد حقیقی ووٹوں کی گنتی میں تمام جماعتوں کے مجموعی ووٹوں سے بھی بہت زیادہ ہے۔ جس کے آزاد امیدواروں کے چہرے نہ پہچانے جانے کے باوجود فتح یاب ہوئے۔ درحقیقت یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ عمران خان کے خلاف ایسے اقدامات اُٹھائے گئے جو ماضی میں کبھی کسی جماعت کے خلاف نہیں اُٹھائے گئے۔ مسلم لیگ نو ن کے ساتھ 2018 ء میں جو کچھ ہوا، اس کا موازنہ 2024ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ روا سلوک سے نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کب ہوا کہ پورے کے پورے انتخابی عمل کو انتخابات سے پہلے ہی یرغمال بنا لیا گیا ہو، ایسا کب ہوا کہ انتخابات سے قبل سب سے مقبول جماعت کا شیرازہ ہی بکھیر دیا گیا ہو۔ ایسا کب ہوا کہ ایک جماعت کو اس کے انتخابی نشان سے ایسے محروم کر دیا گیا ہو کہ اُس کے امیدواروں کے پاس کوئی دوسرا اجتماعی نشان بھی نہ رہا ہو۔ ایسا کب ہوا کہ امیدواروں کو اپنے انتخابی فارم لینے سے روکا جاتا رہا ہو، ایسا کب ہوا کہ امیدواروں سے انتخابی فارم ہی وصول نہ کیے جاتے ہوں، ایسا کب ہوا کہ امیدوار انتخابی مہم تک نہ چلاسکتے ہوں۔ ایسا کب ہوا کہ انتخابات لڑنے والے امیدوار روپوش رہنے پر مجبور ہوں،ایسا کب ہوا کہ انتخابات کے روز پورے کے پورے انتخابی عمل کو دھاندلی کے لیے یرغمال بنالیا گیا ہو۔ ایسا کب ہوا کہ رات گئے فارم 45 سے ہٹ کر فارم 47 الگ بنا لیے گئے ہو۔ ایسا کب ہوا کہ پاکستان میںہارنے والوں کے متعلق جیتنے والے کہہ رہے ہوں کہ ہم نہیں وہ جیتے ہیں۔ ایسا کب ہوا کہ الیکشن کمیشن ہارنے والے امیدواروں کو تحریک انصاف کے خلاف جیت دلانے کے لیے اُنہیں تیار کر رہا ہو کہ وہ جیتے ہیںاور امیدوار کہہ رہے ہوں کہ وہ ہارے ہیں ۔ مگر یہ الیکشن کمیشن ہے اور ایک بزم بے حیا جو ان انتخابات پر شفافیت کی مہر لگانے پر تُلے ہیں۔ سرکارِ دو عالمۖ نے نکتہ واضح کردیا ”بے حیا جو جی چاہے کرے”۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔