... loading ...
رفیق پٹیل
پاکستان کے موجودہ انتخابات کے بارے میںعالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ دھاندلی کے ذریعے متروک ،مسترد شدہ ، نیم مردہ سیاسی قوتوں کو ملک پر انتہائی ڈھٹائی اور بے ہودہ انداز سے ملک پر مسلط کرنے سے پوری دنیا چیخ اٹھی ہے ۔اس کا چرچا دنیا بھر کے ٹی وی خبرناموں ، تجزیوں اوراخبارات کی رپوٹس میں جاری ہے۔ پاکستان میںبیشتر مقامات پر احتجا ج ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے انتخابات کو محض ایک ڈھونگ بنا دیا گیا تو دنیا ہمیں کس نظر سے دیکھے گی؟ کیا ہمارا نظام انصاف بھی ڈھونگ بن جائے گا؟ کیا میڈیا کی بچی کھچی آزادیا ں ختم کردی جائیں گی؟ انسانی حقوق کا زوال جاری رہے گا؟ اجتماع کی آزادی ختم کردی جائے گی؟ قانون کی کوئی پاسداری نہ ہوگی؟ پاکستان اس راہ پر چلتا رہا تو ہم ایک زوال پزیر معاشرے پر گامزن رہیں گے ۔
عالمی سطح پر صرف وہ ممالک عزت اور مقام حاصل کرتے ہیں جو اپنے شہریوں کا احترام کرتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ملک کے کرتا دھرتا اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے ۔حکومت کے تمام ادارے بدنام ہورہے ہیں ۔اس وقت دنیا میںصرف ایک بات کی پزیرائی ہوئی کہ جو کردارپاکستان کے عوام نے تمام تر دبائو کے باوجود انتخابی عمل میں حصہ لے کر اداکیا ۔حالا نکہ حالات ایسے پیدا کیے گئے تھے کہ وہ اس عمل سے دور رہیں اور ان کی شرکت کم سے کم ہو۔ پاکستان کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 2024کے الیکشن میں عوام نے عموماً او ر پاکستان تحریک انصاف نے خصوصاً جس انداز سے شرکت کی اس نے دنیا بھر کو حیرت زدہ کردیا ۔پاکستان کے عوام اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ہمت اور عوام کے اس طرح سے متحرک ہونے پر ہر جگہ ان کی تعریف ہورہی ہے بلکہ ان کو دادو تحسین سے نوازا جارہا ہے ۔ان کی واہ واہ ہر جگہ ہورہی ہے۔ ان انتخابات کے عمل سے پی ٹی آئی کو باہر کرنے کے لیے سرکاری سطح پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ 9اپریل 2022کو پاکستان میں عمران خا ن کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک ہر گزرتے دن میں پی ٹی آئی اور اس کے کارکن حکومت اور ریاست کے جبر کا شکار ہیں اور انہیں ہر طرح سے سیاسی عمل سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ پہلے مرحلے میں انہوںعمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد 25 مئی 2022کی ریلی اور اس کی تیاریوں کے دوران گرفتاریوں اور تشدد کے واقعات کا سامنا کیا جس میں کئی کارکن جاں بحق اور زخمی ہوگئے ۔ریلی والے رو ز لاٹھی چارج اسی موقع پر زائدالمیعاد زہریلی آنسو گیس کا استعمال بعد ازاں عمران خان کے قافلے پر نومبر 2022 میں فائرنگ سے قاتلانہ حملے میں عمران خان کو زخمی کرنا ایک بڑا سانحہ تھا۔ اس کے بعد 9مئی2023 کو عمران خان کی رینجرز کے اہلکاروں کے ذریعے گرفتاری کے رد عمل میں ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کو کچلنے کے لیے شد ت سے آپریشن شروع کیا گیا ۔تقریبا ً دس ہزار کارکن گرفتار ہوئے جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ پاکستان تحریک انصاف پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی اس کے اہم رہنمائوںپر مقدمات قائم کرکے پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ جہانگیر ترین کی سربراہی میں استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنوائی گئی جبکہ ایک اور سیاسی جماعت پی ٹی آئی پارلیمینٹرین کے نام سے پرویزخٹک کی سربراہی میں بنائی گئی۔ اس کی اول دوئم اور سوئم درجے کی قیادت کو گرفتا ر کرلیا گیا۔ کچھ وکلاء میدان میں رہ گئے۔ بے شمار کارکن زیر زمین چلے گئے۔ کئی حامیوں کے گھر توڑ دیے۔ تحریک انصاف نے اپنے اندرونی پارٹی انتخابات کا جو نتیجہ الیکشن آفس میں جمع کرایا تھا، اس پر اعتراض لگاکر اس کے فیصلے کو روک لیاگیا ۔جب تحریک انصاف نے عدالت سے رجوع کیا تو 71 روز بعد عین انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کو اس کے پرانے آئین کے مطابق دوبارہ انتخابات کرانے کو کہا گیا۔ ایسے موقع پر جب پارٹی کے بے شمار رہنما روپوش تھے پی ٹی آئی کا جھنڈا لے کر چلنے والوں کو گرفتا ر کیا جاتاتھا ۔پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے تمام ہوٹلوں اور دیگر ایسے مقامات جہاں پی ٹی آئی نے انتخابات کا انعقاد کرنا چاہاتھا ۔ ان مقامات کی انتظامیہ نے سرکاری دبائو کی وجہ سے اجازت نہیںدی جس کے بعد پشاور میں بھی انہیں بہتر مقام میسّر نہیں آیا۔ مجبور اً پی ٹی آئی نے اپنے انتخابات پشاور کے ایک قریبی مقام پر انتخابات کا انعقاد کرکے نتائج کا سرٹیفکٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرادیا ۔اس کے باوجود چند لوگوں کے اعتراض کی وجہ سے پی ٹی آئی کے اندرونی انتخابات مستر دکرکے پا رٹی کا نشان بلّا چھین لیا گیا ۔اس طرح تحریک انصاف کو تحلیل کردیا گیا اور اسے اس طرح تقسیم کردیا گیا کہ اس کے امیدواروں کو علیحدہ علیحدہ نشانات پر انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح پارٹی انتخابی عمل سے باہر ہوگئی۔ اس کے باوجود پارٹی آزاد امیدواروں کے ذریعے انتخابی عمل میں آگئی اور حیرت انگیز کامیابی حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئی۔ رات دس بجے تک وہ ملک بھر کے تمام علاقوں سوائے اندرون سندھ کے ہر جگہ سے کامیابی حاصل کر رہی تھی لیکن اچانک انتخابی نتائج روک دیے گئے۔ اس کے بعد دو روز تک انتخابات کے نتائج کی رفتار انتہائی سست روی کا شکار ہوگئی۔ تحریک انصاف نے اعلان کیا کہ وہ 180 قومی اسمبلی اور تقریباً اتنی ہی نشستیں پنجاب اسمبلی میں جیت چکے ہیں لیکن ان کا مینڈیٹ چوری کرلیا گیا اور انہیں اس کی نصف نشستوں تک محدود کردیا گیا۔
تحریک انصاف نے خیبر پختون خواہ میں اپنے ووٹوں کی موثر طریقے سے حفاظت کی ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انتظامیہ دبائو کے باوجود کافی حدتک غیر جانبدار رہی لیکن بعض نشستوں پر اس کے باوجود دھاندلی کو نہ روکا جاسکا۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کا کہنا یہ ہے کہ ان کے پاس پریزائیڈنگ افسران کے دستخط شدہ فارم 45موجود ہیں جو ان نشستوں پر تحریک انصاف کے حامی کامیاب امیدواروں کاٹھوس ثبوت ہے۔ تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ یہ تما م نشستیں انہیں واپس کی جائیں۔اس وقت پورے ملک میں دھاندلی کا شور ہے۔ جماعت اسلامی ،جی ڈی اے،جے یو آئی ،بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں سمیت ہر سیاسی جماعت ان انتخابات کو دھاندلی زدہ انتخابات قرار دے رہی ہیں۔ کئی جگہ پر امن احتجاج کے لیے جمع ہونے والوں پر پولیس نے پرتشدّد کارروائیاں کی ہیں۔ لوگوں کو گرفتا ر کیا گیا ہے۔ میڈیا کے نمائندوں کو اس کی رپورٹ تیار کرنے اور نشر کرنے پر پابند ی عائد کر دی ہے۔ ٹیلی ویژن چینل کو ہدایات جاری کی گئی ہیں وہ اسے رپورٹ نہ کریں۔ اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو آمادہ کیا جارہا ہے کہ وہ مل کر حکومت بنائیں ۔وہ حکومت جسے عوام کی امنگوں کے خلاف مسلط کیا جا ئے گا،ملک کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرے گی حالانکہ منصفانہ انتخابات کی صورت میں مسلم لیگ کا تقریباً صفایا ہوسکتا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی نشستیں کم ہوسکتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے بعد جو طوفان اٹھ کھڑا ہو اہے وہ ٹل نہیں سکے گا۔ اس کا حل صرف منصفانہ نتائج کا اعلان ہے۔