... loading ...
جاوید محمود
۔۔۔۔۔
دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اسرائیل کا سب سے اچھا دوست ہے۔ امریکہ اسرائیل کو سالانہ اربوں ڈالرز کی امداد دیتا ہے اور مستقل طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اسرائیل کی مذمت کرنے کی قرارداد کو روکتا ہے اور عوامی سطح پر اس کی فوجی کارروائیوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ لیکن کیوں بیگرا اسرائیل کے آگے بڑھ جانے کے پیچھے کیا سوچ رہا ہے ؟امریکہ کی طویل مدت مشرق وسطی کی حکمت عملی امریکی رائے عامہ انتخابی سیاست اور اسرائیل کی حامی لابنگ مہم کا ایک مضبوط عمل ہے جو موثر ہے جبکہ اس کے برعکس عرب ممالک جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ اسرائیل کے سامنے انتہائی بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور اسرائیل عرب ممالک کے بیچ میں بیٹھ کر 1948سے اپنی من مانی کر رہا ہے اور آہستہ آہستہ عرب ممالک کی زمین حکمت ،سیاست اور طاقت کے زور پر حاصل کر کے گریٹر اسرائیل کی منصوبہ بندی پر کام کر رہا ہے۔ عرب ممالک کی بے بسی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ آپس میں متحد نہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے لڑنے سے گریز بھی نہیں کرتے جس کا بھرپور فائدہ اسرائیل کو پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنے مقاصد میں کامیاب رہا اور عرب ممالک تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے اور دیگر مسلم ممالک تماشا دیکھتے رہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو پہنچا اور آج تک پہنچ رہا ہے۔ امریکہ کی اول ترجیح اسرائیل کی خواہشات، حدود اور سب سے بڑھ کر اس کی حفاظت رہی ہے۔
مسلمانوں کو اب سمجھنا ہوگا کہ ان کی پستی کی سب سے بڑی وجہ ان کے آپس کا اتحاد نہ ہونا ہے۔ اسلام دشمن، مسلمانوں کو کبھی متحد ہوتے نہیں دیکھناچاہتے لیکن اب مسلمانوں کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ مسلم اتحاد قائم نہ ہوا ،اور اب بھی صرف اقوام متحدہ کی ہی جانب دیکھا گیا تو بیت المقدس کے ساتھ ساتھ ہمیں حرم کے خلاف سازشیں ہوتی نظر آئیںگی۔ غیرت اسلامی کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک کو آپس میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا اور دفاعی رویہ کے بجائے اب جا رحانہ طرزِ عمل کا اظہار کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر روزِ قیامت شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا اور مسلم اتحاد جو اس وقت ہر زاویے سے اہم ترین ضرورت ہے مسلمان ایک طرف آپس میں اتحاد نہیں کرتے اوراس بات کا اعتراف نہیں کرتے کہ یہودی انتہائی ذہین ہوتے ہیں یہودیوں نے دنیا پر کس حد تک کنٹرول حاصل کیا ہوا ہے اس کا ہم احساس نہیں کرتے۔ ہمیں اپنے ارد گرد غور سے دیکھنا ہوگا ہمیں اعتراف کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہیے کہ یہودی ذہین ہوتے ہیں۔ امریکہ میں یہودی صرف دو فیصد ہیں لیکن سیاست سمیت سارا نظام ان کے گرد چکر کاٹ رہا ہے۔ انشورنس کو متعارف کرانے میں ان کا ہاتھ ہے۔ آج پوری دنیا میں انشورنس کے نظام کے پیچھے ان کا دماغ کام کر رہا ہے اور یہ نظام ان کی مرضی کے بغیر آگے پیچھے نہیں ہوتا۔ پوری دنیا کو سود میں جکڑنے میں ان کی ذہانت کا ہی کمال ہے۔ بینک جب مالی بحران کا شکار ہوتے ہیں تو انشورنس کمپنیوں سے قرض لیتے ہیں یعنی بینک بھی یہودیوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی نے سب سے زیادہ جس کام کے لیے منع فرمایا ہے وہ سود کا لین دین ہے ۔اللہ کا فرمان ہے کہ جو جانتے ہوئے بھی سود کا کام کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔ آج پوری دنیا کا کاروبار اور دنیا سود میں جکڑی ہوئی ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا یہودیوں کے اشارے کا محتاج ہے ۔نیوز جاری کرنے والے ادارے تمام بڑی ٹی وی چینلز کے مالکان آپ کو یہودی ملیں گے۔ ہالی وڈ اور بالی وڈ ان کی منصوبے میں بندھے ہوئے ہیں۔ گن لابی، سگریٹ لابی دیگر لابیاں ان کی منصوبہ بندی میں قید ہیں۔ یہودیوں کی اکثریت کا آپ جائزہ لیں وہ جسمانی کام سے زیادہ ذہنی کام کرتے ہیں ۔اچھی منصوبہ بندی کرتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہوتی ہے اور پھر اس منصوبہ بندی کی روشنی میں معاہدے کرتے ہیں اور معاہدے ایسے جو ہر زاویے سے ان کے حق میں ہوتے ہیں ۔حال ہی میں ان کی ذہانت کے حوالے سے کچھ پڑھا وہ یہ ہے کہ ایندھن دکھانے والی سوئی نیچے سے نیچے جاتی گئی اس وقت وہ مصر کے اوپر تھے۔ ایندھن نہ ڈلوایا جاتا تو جہاز گر سکتا تھا پائلٹ ایک خفیہ مشن پر تھا اس کے جہاز میں 150 یہودی سوار تھے اور اسرائیل لے جائے جا رہے تھے۔ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان سخت کشیدگی تھی جن میں کئی ہلاکتیں ہو چکی تھیں اس لیے جہاز اترنے کے بعد لوگوں کو پتہ چلتا تو کچھ بھی ہو سکتا تھا لیکن پھر بھی پائلٹ نے اترنے کا فیصلہ کیا۔ انتظامیہ سے رابطہ ہو چکا تھا کہ صرف ایندھن لینا ہے جیسے ہی جہاز اترا ایئرپورٹ حکام جہاز کی چیکنگ کے لیے آئے تو پائلٹ نے کہا مسافروں کو ہسپتال پہنچاؤ کیوں کہ جواب میں کہا کہ یہ سارے چیچک کے مریض ہیں اور علاج کے لیے لے جائے جا رہے ہیں۔ان دنوں یہ مرض ایک عفریت کی مانند پھیلا ہوا تھا۔ لوگ اس سے خوفزدہ تھے اس لیے انتظامیہ نے مسافروں سے دور رہنے میں ہی عافیت جانی اور جلدی سے ایندھن دے کر روانہ کر دیا کہ کہیں جراثیم نہ پھیل جائیں ۔یہ تھا آپریشن میجک کارپیٹ کے بے شمار سنسنی خیز واقعات میں سے ایک واقعہ اور پائلٹ تھے امریکہ کے رابرٹ ایف ایگور جو آپریشن کے چیف تھے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت تقریبا ً10 لاکھ یہودی مشرقی وسطیٰ افریقی اور عرب ممالک میں مختلف مقامات پر موجود تھے جن کو کافی مشکلات کا سامنا تھا ،اس سے قبل 1947 ء میں اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کو یہودی اور عرب ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو دیگر مقامات پر موجود یہودی غیر محفوظ ہو گئے۔ چند ماہ بعد صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب یمن میں دو مسلمان لڑکیوں کو قتل کیا گیا اور الزام یہودیوں پر لگا پھر فسادات شروع ہو گئے اور یہودیوں پر حملے ہونے لگے جس پر امریکی اور اسرائیلی حکومتوں نے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے لیے مالی تعاون امریکن جیوش جوائنٹ ڈسٹرکٹ کمیٹی نے فراہم کیا۔منصوبے کوحتمی شکل دینے کے بعد امریکی و اسرائیلی حکام نے یمن کے شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس شرط پر یہودی لے جانے کی اجازت دی کہ ان کو لے جانے والے جہاز یمن کی سرزمین پر نہیں اتریں گے بلکہ شہر عدن سے ملحق گیولا نامی ٹرانزٹ کیمپ سے یہودیوں کو اٹھائیں گے جو اس وقت انگریز حکومت کے پاس تھا اور یمن سے تقریبا 300 کلومیٹر دور تھا۔اس کے بعد اس خفیہ آپریشن کی تیاری شروع ہوئی جس کا نام آپریشن میجک کارپیٹ تجویز کیا گیا اور اس کا ہدف یمن سے تمام یہودیوں کو نکال کر بحفاظت اسرائیل پہنچانا تھا کیونکہ یہ خفیہ آپریشن تھا اس لیے اعلان نہیں کیا جا سکتا تھا کہ تمام یہودی ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں جہاں سے ان کو لے جایا جائے گا ۔
یمنی حکومت کی رضامندی سے ہی کچھ لوگوں کی ڈیوٹی لگائی گئی جن کا کام یہودیوں کو ڈھونڈنا اور ان کو اسرائیل جانے کے لیے تیار کرنا تھا۔ ساتھ ہی انہیں یہ تاکید بھی کرنا تھی کہ کسی کو نہ بتائیں ۔یوں کئی ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور اندازے کے مطابق تقریبا تمام ہی یہودیوں کو پیغام مل گیا تھا اور وہ تیار ہو چکے تھے۔ اس کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے ٹولیوں کی شکل میں لوگ ٹرانزٹ کیمپ کی طرف چلنا شروع ہوئے جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی چونکہ سواریوں کا انتظام نہیں تھا اور دوسرا چھپ کر بھی جانا تھا اس لیے وہاں پہنچنے والوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مصائب اور کئی روز کے سفر کے بعد قافلے ٹرانزٹ کیمپ کے پاس پہنچے تو امریکہ اور اسرائیل کی حکومت نے پہلے سے رائج صحت کی سہولتوں خوراک وغیرہ کا انتظام کر رکھا تھا۔ رضاکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی کیونکہ ان میں اکثریت انتہائی غریبوں کی تھی اس لیے بیت الخلا اور دوسری سہولتیں ان کے لیے حیران کن تھی۔ 1949 کے جون کے آغاز میں جب پہلا جہاز پہنچا تو غریب لوگ اسے دیکھ کر ڈر گئے اور سوار ہونے سے انکار کیا جنہیں رضاکاروں نے کافی سمجھا بجا کر سوار کروایااور یوں پہلا جہاز تقریبا 100 یہودیوں کو لے کر تل ابیب پہنچا ۔ لوگ اتارے اور پھر واپس عدن پہنچا ۔یہ سلسلہ ستمبر 1950 تک جاری رہااور یہودیوں کو یمن سے اسرائیل پہنچایا جاتا رہا۔ یہ انتہائی خفیہ اور خطرناک آپریشن تھا لیکن اس مہارت سے پورا کیا گیا کہ اس میں ایک انسانی جان تک ضائع نہیں ہوئی۔ اس کے لیے الاسکا ایئر لائنز کے 28 طیارے مسلسل اڑتے اور اترتے رہے اور 50 ہزار افراد کو لے جایا گیاجہازوں کو ایک مہینے میں تقریبا 300 گھنٹے تک اڑایا گیا ۔حالانکہ امریکہ میں اس کی حد 90 گھنٹے تک مقرر ہے۔ ڈگلس ڈیز تھی46 نامی جہازوں کی استطاعت اتنی نہیں تھی کہ اس قدر بڑا آپریشن کر سکیں۔ اس لیے جہازوں کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئیں ان میں اضافی ایندھن کی ٹیکنالوجی لگائی گئی جبکہ سیٹوں کو تنگ کر کے چوڑا کیا اور اضافی بینچ بھی لگائے گئے جس کے بعد زیادہ سے زیادہ 50 مسافر لے جانے والا طیارہ 120 سے زیادہ مسافر لے جا سکتا تھا اور اضافی وزن کے باوجود بھی ایندھن زائد گھنٹوں کے لیے کام کرتا ۔آپریشن میجک کارپٹ کو آپریشن نگز اف ایگل بھی کہا جاتا ہے۔ آپریشن مکمل ہونے کے کئی ماہ بعد دنیا کو اس کا علم ہوا۔ منزل پر پہنچ جانے کے بعد بھی مسائل نے پیچھا نہیں چھوڑا کیونکہ اسرائیل کو آزاد ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا اور اسے بے تحاشا مسائل کا سامنا تھا جن میں سب سے بڑا مسئلہ مالی مسائل کا تھا۔ ایسے میں بڑی تعداد کے ملک میں پہنچنے سے صورتحال مزید گمبھیر ہو گئی ۔ سب سے پہلے آنے والوں کو بڑے شہروں کے میں قائم کیے گئے ٹرانزٹ کیمپوں میں لے جایا گیاجہاں وہ چند ماہ تک قیام پزیر رہے۔ ان کی خوراک کا انتظام حکومت کی جانب سے کیا جا رہا تھا۔ صورتحال میں کچھ بہتری آنے پر ان کو زرعی علاقوں میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں کچھ نے کھیتی باڑی شروع کی، معاشی صورتحال بہتر ہوتی گئی اور ان میں سے کئی دوسرے اور بڑے شہروں کی طرف منتقل ہو گئے جہاں دیگر نسلوں کے یہودیوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کو مواقع دیے گئے۔ پڑھائی لکھائی اور آگے بڑھنے کے بھرپور مواقع دیے گئے اور ووٹ کا حق بھی اس طرح وہ جلد ہی گھل مل گئے اور شادی بیاہ کے رشتوں میں بندھ گئے ۔
آپریشن میجک کارپٹ کی کامیابی کے بعد اسرائیلی حکومت نے دنیا کے دیگر حصوں میں بھی یہودیوں کو اسرائیل لانے کا منصوبہ بنایا اور بعد ازاں کئی آپریشن ہوئے۔ عراق سے ایک لاکھ 20 ہزار یہودیوں کو ایئر لفٹ کیا گیا یعنی جہازوں کے ذریعے اسرائیل لے جایا گیا۔ اسی طرح 1984میں سوڈان کے مہاجر کیمپ میں موجود آٹھ ہزار ایتھوپین یہودیوں کو اسرائیل لے جایا گیا۔1991میں اسرائیلی جہازوں نے صرف 36 گھنٹوں کے اندر 15 ہزار ایتھوپین یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا۔ اسی طرح چند سال کے عرصے میں تقریبا 10 لاکھ یہودی اسرائیل پہنچے۔ چند سال قبل تک ایسی خبریں آتی رہی ہیں جن میں خفیہ طور پر یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا جاتا رہا ہے۔ اسرائیل کا ایک ادارہ رضاکارانہ طور پر اس حوالے سے اب بھی کام کر رہا ہے۔
آخر اسرائیلی لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی علاقوں میں کیوں رہتے ہیں یاد رہے کہ اسرائیل نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے پر 2500 مکانات پر مشتمل مزید یہودی بستیاں تعمیر کرے گا۔ مشرقی یورشلم میں قبضے کے بعد سے یہاں تعمیر ہونے والی 140 بستیوں میں تقریبا چھ لاکھ یہودی آباد ہیں حالانکہ امریکہ بھی کہہ چکا ہے کہ مزید یہودی بستیاں امن کے لیے مددگار نہیں ہوں گی۔ اسرائیلی بستیوں کا مطالبہ کرنے والی تنظیم پیشواؤں کے مطابق مغربی کنارے میں 132 بستیاں اور 113 آؤٹ پوسٹ ہیں جو بغیر اجازت کے بنائی گئی ہے۔ چار لاکھ 13 ہزار لوگ رہتے ہیں مشرقی اور یروشلم میں 13 بستیاں ہیں جہاںدو لاکھ 15 ہزار افراد مقیم ہیں اسرائیل بڑی ہوشیاری کے ساتھ دبے پاؤں فلسطین میں یہودی بستیاں بنا رہا ہے جو اقوام متحدہ غیر قانونی قرار دے چکا ہے جبکہ دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر آباد کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اسرائیل جس منفی طریقے سے فلسطین کی زمین پر ہی یہودیوں کو آباد کر کے فلسطین کی زمین ہتھیار رہا ہے ،یہ عمل مشرق ِوسطیٰ میں جنگ کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ افسوس مسلمان آپس میں متحد نہیں جبکہ قدرت نے مسلمانوں کو دولت طاقت اور دیگر نعمتوں میں دوسری قوموں کے مقابلے میں زیادہ نوازا ہے۔ آج مسلمان جن بحرانوں کی لپیٹ میں ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ سودی کاروبار میں برابر کے شراکت دار ہیں۔ اگر مسلمان اس مکروہ سودی نظام سے نجات حاصل کر لیں اور متحد ہو کر ایک دوسرے سے تعاون کریں تو بڑی طاقتیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ماہرین کہتے ہیں امریکہ اور یورپین ممالک میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی دولت گردش کر رہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے کیونکہ وہ سودی نظام کے بانی ہیں اور اسی وجہ سے دو فیصد یہودی دنیا پر راج کر رہے ہیں اور پوری دنیا کو سودی نظام میں جکڑ رکھا ہے۔ آخر مسلمان اس بات کو کب سمجھیں گے کہ کیا مسلمان اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ لڑ سکتے ہیں؟ اب بھی وقت ہے مسلمان سودی نظام کے چنگل سے نجات حاصل کر لیں اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اسرائیل کو تسلیم کرنا تمام مسلمانوں کی مجبوری بن جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔