... loading ...
معصوم مرادآبادی
بنارس کی جامع مسجد گیان واپی کے خلاف جو سازش رچی جارہی تھی، اس میں شرپسندوں کو بڑی کامیابی ملی ہے ۔معاملے کی سماعت کررہے جج نے اپنی سبکدوشی کے آخری دن مسجد کے تہہ خانے میں پوجا پاٹ کی اجازت دے کر بابری مسجدکیس کی یاد تازہ کردی ہے ۔ بابری مسجد کو متنازع بنانے کے لیے بھی یہی سب کچھ ہوا تھا۔حالانکہ ابھی جامع مسجد گیان واپی میں نماز پر کوئی پابندی نہیں ہے ، البتہ عدلیہ اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے وہاں جو کچھ ہورہا ہے ، اس کے پیش نظر کچھ بعید بھی نہیں ہے ۔گزشتہ جمعہ کو وہاں دوہزار سے زیادہ فرزندان توحید نے نماز جمعہ اداکی ہے اور مسجد کے تہہ خانے میں پوجا پاٹ کی اجازت دینے کے خلاف اپنا کاروبار بند رکھ کے پرامن احتجاج کیا ہے ۔تمام مسجدوں میں نماز جمعہ کے دوران خصوصی دعاؤں کا اہتمام بھی کیا گیا۔
یہ بات عیاں ہے کہ بابری مسجد کھونے کے بعد مسلمانوں میں جو مایوسی پیدا ہوئی تھی، اسے جامع مسجد گیان واپی کے واقعہ نے اشتعال میں بدل دیا ہے اور مسلمان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں۔وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ مجریہ 1991 کی وجہ سے اب ان کی وہ تمام مسجدیں محفوظ ہیں، جن پر شرپسندوں کی بری نظریں تھیں اور جن کے بارے میں وہ یہ سراسر جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ انھیں مندروں کو مسمار کرکے تعمیر کیا گیا ہے ۔یہ بات سب پر واضح ہے کہ نومبر 2019میں جب سپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے بابری مسجد کی اراضی ہندوفریق کے سپردکرنے کا حکم سنایا تھا تو یہ بات بہت واضح طور پر کہی گئی تھی کہعدالت کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑکر بنائی گئی تھی۔لیکن عدالت کے اس فیصلے کے باوجود شرپسندوں کا جھوٹاپروپیگنڈہ آج بھی جاری ہے اور اس پر کوئی روک نہیں ہے ۔
جامع مسجد گیان واپی انتظامیہ کمیٹی نے مسجد کے تہہ خانے میں جاری پوجا کو روکنے کے لیے انتظامیہ کمیٹی نے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے کوئی راحت دینے کی بجائے مسلم فریق کو ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا حکم دیا۔ جب اس معاملے میں ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تو اس نے بھی تکنیکی بنیاد پر پوجا کے خلاف عبوری حکم جاری کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ ان دونوں ہی بڑی عدالتوں کے پاس اس پوجا کوروکنے کا جواز موجود تھا اوروہ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ کا حوالہ دے کر ایسا کرسکتی تھیں، لیکن بنارس کے ضلع جج کی طرف سے مسجد کی بے حرمتی کی بنیاد ڈالنے کا سدباب نہیں کرنے کی بجائے تکنیکی بنیادوں پر مسلم فریق کی بات نہیں سنی گئی۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ مسلمان شروع سے ہی عدالتوں پر اعتبار کرتے چلے آئے ہیں۔حالانکہ فریق مخالف نے عدلیہ کے مقابلے میں ہمیشہ آستھا کو ترجیح دی ہے ۔ایودھیا تنازعہ میں بھیمسلمانوں نے عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنے کی بات کہی تھی، اس لیے اس پرفیصلے پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ عدالتیں قانون اور انصاف کے خلاف فیصلے صادر کریں اور مسلمان خاموش تماشائی بنے رہیں۔مسلمانوں کو اس ملک کے دستور نے مکمل مذہبی آزادی فراہم کی ہے ۔ اگرکوئی اس پر شب خون مارتا ہے توپہلی ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جنھوں نے دستور کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے ۔ جامع مسجد گیان واپی کے معاملے میں ضلع جج اجے کرشن وشویش نے انصاف کی روح کے خلاف شروع سے جو رویہ اختیار کیا، وہ یقیناناقابل فہم ہے ۔ پہلے مسجد کی حوض میں موجود فوارے کو نام نہاد ‘شیولنگ’ قرار دینے کی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ اس کے بعد مسجد کے تہہ خانے میں پوجا پاٹ کی اجازت دے دی گئی اور یہ کام دوسرے فریق کو سنے بغیر بہت عجلت میں انجام دیا گیا، جبکہ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ کوئی بھی فیصلہ ایک فریق کو سن کر صادر نہیں کیا جاسکتا۔ظاہر ہے اس سے عدالتوں پر مسلمانوں کا اعتماد کمزور ہوا ہے ، جس کا اظہارمسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں نے بھی اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا ہے ۔انھوں نے اس معاملے میں صدرجمہوریہ اور چیف جسٹس آف انڈیا سے رجوع ہونے کا بھی فیصلہ کیاہے ۔
اس معاملے میں بنارس ضلع انتظامیہ کے رویہ کو دیکھ کر بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سب کچھ ایک طے شدہ سازش کے تحت ہورہا ہے ۔کیونکہ عدالت نے ضلع انتظامیہ کو مسجد کے تہہ خانے میں پوجا پاٹ کے انتظامات کرنے کے لیے ایک ہفتہ کی مہلت دی تھی، لیکن انتظامیہ اس معاملہ میں اتنا سرگرم تھا، کہ اس نے فیصلہ سنائے جانے کی رات کو ہی وہاں پوجا کے سارے انتظامات کردئیے اور لوہے کی ریلنگ توڑ کر پوجا شروع کرادی گئی۔واضح رہے کہ جس عدالت نے مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دی تھی، اسی نے اے ایس آئی سے مسجد کا سروے بھی کرایا تھا۔ تین مہینے کے سروے کے بعد جو رپورٹ عدالت کو سیل بند لفافہ میں سونپی گئی تھی، اسے طشت ازبام کرنے کا حکم بھی مذکورہ جج نے دیا تھا۔ جج اجے کرشن وشویش نے اس معاملے میں جو تابڑتوڑ فیصلے سنائے ہیں، انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ اسی کام پر مامور کئے گئے تھے ، اسی لیے انھوں نے اپنی اور اپنے عہدے کی مریادا کا بھی پاس نہیں رکھا۔
پچھلے ہفتہ ہی آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ میں جامع مسجد گیان واپی کے نیچے ایک بڑے مندر کا”انکشاف”کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ مسجد سترہویں صدی میں ایک بڑیمندر کو منہدم کرکے بنائی گئی تھی اور اس کی تعمیر میں مندر کے باقیات استعمال ہوئے تھے ۔ اس سروے کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد فرقہ پرستوں نے مسجد ہندوؤں کو سونپ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس معاملے میں عدالت نے جس عجلت اور جانبداری کے ساتھ فیصلے صادر کئے ہیں، اس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور فرقہ پرست طاقتیں عدالت کے راستے سے جامع مسجد گیان واپی کو بھی بابری مسجد کی طرح ہڑپنے کی کوششیں کررہی ہیں۔ہمیں نہیں معلوم کہ آنے والے دنوں میں حالات کیا کروٹ بدلیں گے اور جامع مسجد گیان واپی کامستقبل کیا ہوگا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ مستقبل میں ایودھیا جیسے خطرناک تنازعات کو روکنے کے لیے 1991 میں عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے جو ایکٹ بنایا گیا تھا، وہ اس وقت کالعدم معلوم ہوتا ہے ۔ اس ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ جو عبادت گاہ ملک کی آزادی کے وقت جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رہے گی اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکے گی۔اس ایکٹ کو بنانے کا واضح مقصد یہ تھا کہ مستقبل میں بابری مسجد، رام جنم بھومی جیسے خطرناک تنازعات کو پیدا
ہونے سے روکا جائے ، لیکن جامع مسجد گیان واپی کے معاملے میں وارانسی کی عدالت نے اس ایکٹ کو پس پشت ڈال کر جو فیصلے صادر کئے ہیں، وہ حیرت میں ڈالنے والے ہیں اور ان کے پیچھے ایک بڑی سازش کارفرما نظر آتی ہے ۔
بابری مسجد ہاتھوں سے نکلنے کے بعد مسلمانوں میں جو مایوسی پیدا ہوئی تھی، اسے جامع مسجد گیان واپی کے معاملے نے مزید اشتعال اور پژ مردگی میں بدل دیا ہے ۔تاریخی مسجدوں اور مزاروں کے ساتھ حکومت کی مشنری جو ظالمانہ سلوک کررہی ہے ، اس سے پریشانیاں بڑھنے لگی ہیں۔ گزشتہ ہفتہ دہلی کے مہرولی علاقہ میں ڈی ڈی اے بلڈوزروں نے 600 سال پرانی اخوندمسجد ناجائز تعمیرات کے نام پر منہدم کردی تھی۔حالانکہ یہ معاملہ عدالت میں زیرسماعت تھا، لیکن اس کی بھی پروا نہیں کی گئی۔ تاریخی مسجدوں اور مزاروں کے خلاف جو منصوبہ بند مہم چل رہی ہے ، اس کا ایک ہی مقصد معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اس ملک سے مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب کانام ونشان مٹادیا جائے ۔ آئے دن کسی نہ کسی تاریخی مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم شباب پرہے ۔اس خطرناک مہم کا انجام کیا ہوگا، کسی کو نہیں معلوم۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اگر یہی طے کرنا ہے کہ کس نے کتنی تاریخی غلطیاں کی ہیں اور کون کون سی عبادت گاہوں کو توڑکر دوسری عبادت گاہیں تعمیر کی گئی ہیں تو اس کے لیے تاریخ کے پہیئے کو الٹا گھمانا ہوگا، جس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔بدھ مذہب کے پیروکاروں کا دعویٰ ہے کہ چوراسی ہزار سے زیادہ بدھسٹ وہار اور مجسموں کو راجاؤں نے منہدم کیا۔اسی طرح جین مذہب کے پیروکار کہتے ہیں کہ ہزاروں جین مندروں کو ہندو مندروں میں تبدیل کردیا گیا اور تقریباً تمام ہی ہندو زیارت گاہیں ایک زمانے میں جین مندر ہوا کرتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔