... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
اِ س بار دھاندلی کے حکمت سازوں نے منشا ء کے مطابق نتائج حاصل کرنا بھی چاہے تو نہ کر پائے ۔عمران خان کے ساتھ عوام ہی نہیں عوامی رد عمل بھی کھڑا ہے۔ یہ 1977نہیں کہ شاہراہیں سراپا احتجاج ہو جائیں گی۔ 2018کے انتخابات کی شفافیت پر دھاندلی کا شور مچانے والے قوم کو بتائیں کہ” رزلٹ ٹرانسمشن سسٹم ”(RTS)کس نے متعارف کرایا ؟خصوصی سافٹ ویئر بنانے میں کس کس کا دماغ کار فرما تھا ؟جس کا نقصان محض عمران خان کو دینا مقصود تھا کیونکہ آرٹی ایس کے دانستہ بٹھائے جانے پر تحریک انصاف کو تیس سیٹوں سے محروم کیا گیا ،اب انوکھے لاڈلے کیلئے (EMS) لایا گیا ہے تاکہ ماضی کی بیہودہ پریکٹس دوبارہ کی جاسکے ۔
رائے ونڈ کے حکمرانوں کے پنجاب میں چھٹے اقتدار اور وفاق میںچوتھے اقتدار نے سیاسی زندگی اور ریاست کو مہلک نقاہت سے دوچار کیا ۔صنعت کار حکمرانوں نے زرعی شعبے کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ 18ماہ کے دور اقتدار میں آٹے کے حصول کیلئے عوام کو لائنوں میں لگا کر بھکاری بنا یاگیا اوراس آٹا اسکیم میں 22ارب کی کرپشن کی جس سے بڑے بڑے اشتہارات چلا کر اپنی گڈ گورننس کی خود ساختہ تشہیر کی ، اٹھارہ ماہ کی شہبازی حکمرانی میں عوام سے جینے کا حق چھین لیا گیا ،بجلی کا یونٹ 7روپے سے 70روپے تک پہنچایا گیا ،پیٹرول 150روپے سے 260روپے تک ،ڈالر 150سے 300روپے تک پہنچا کر عوام سے عمران خان کی حمایت کا انتقام لیا گیا ، اربوں روپے دیکر بکائو میڈیا کو ”ہڈی ”ڈالی گئی ۔ہم جب روس کے انقلاب کے ا وراق اُلٹتے ہیں تو زار روس کی بادشاہت کا بانجھ پن سامنے آتا ہے جو اپنے ملک کے لاکھوں انسانوں کو بھوک اور قحط کی شکل میں نگل رہا تھا۔ زار شاہی ہماری موجودہ غیر آئینی نگران حکمرانی (جو شریف خاندان کی پشتیبان ہے)اور ماضی کی اٹھارہ ماہ کی بر سر اقتدار اشرافیہ کی طرح اُن کی مدد اور بحالی کا کوئی مداوا نہیں کر رہی تھی۔ ایک وقت آیا کہ بحران نے سبھی طبقات کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اسی دولت کی غیر مساویانہ تقسیم نے انقلابی نوجوانوں کی ایک نسل پیدا کی جو مکمل طور پر ریڈیکلائز تھی۔ اسی نسل کے جارحانہ کردار نے روس کے پہلے 1905-6کے انقلاب کی بنیادیں استوار کیں۔
آج اقبال کا پاکستان اُنہی حالات کی عکاسی کر رہا ہے میں عمران خان کے ساتھ اُس نسل کو دیکھ رہا ہوں جو متحرک اور تبدیلی کی جانب گامزن ہوئی !غم و غصے ،کراہت و حقارت کا ایک ایسا احساس ان نوجوانوں میں دکھائی دیا جس کے اظہار کے اثرات گلیوں ،محلوں ،اور گھروں میں دکھائی دے رہے ہیں ،عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے بھاری رقوم کے بل بوتے پر بکائو میڈیا کے جعلی سروے ، تجزیئے ،اعداد و شمار منشاء کے مطابق مرتب کرائے جاتے رہے ۔ ماضی کے کرپشن کے اسکینڈلز نے یار لوگوں کی جیسے روحیں قبض کر لیں نندی پور منصوبہ سے لیکر جنگلا بس پراجیکٹ تک کمیشن کے بڑے بڑے کھاتے ،بدعنوانی کی داستانوں نے وطن عزیز کی اقدار پر سوالیہ نشان لگا دیا اور گڈ گورننس پر اُٹھنے والے سوالوں سے اور پی ٹی آئی کی عوامی پزیرائی نے جاتی امرا کے شہنشاہوں کی طمانیت دائو پرلگ گئی ۔ عوام کے ناتواں کندھوں پر لاتعداد ٹیکسز کابوجھ محض اس لئے لادا گیا کہ چند بکائو صحافیوں (جو صحافت کے پیشے کو بیچنے کیلئے ہر دور میں تیار و بے تاب دکھائی دیتے ہیں )کو حکومتی منڈی میں سب سے بہتر قیمت دیکر اپنے لئے جگالی کرائی جارہی ہے ، ضمیر کے سودے میں یہ گھٹیا صحافی اپنی تجوریا ں بھرنے اور مراعات میں اضافے کی خاطر اک عرصہ سے سچائی کو بیچتے آرہے ہیں۔ ایسی دلال صحافت پر یہ سوال اب شدت سے عوامی حلقوں میں سر اُٹھا رہا ہے کہ کیا اس بے ہودہ کرپشن کا کوئی انت بھی ہے۔ 8فروری کو ہمیں ایک ایسے نظام کی خواہش کے ساتھ قدم بڑھانا ہیں جو جھلستے اور جھلساتے مسائل سے نمٹ سکے ۔ دو بڑی پارٹیاں موروثی اقتدار کا وہ گھنائونا کھیل کھیلتی رہیں جس میں عوام کو جمہوریت کے چہرے پر بدترین سول آمریت کا نقاب چڑھا کر لوٹا جاتارہا ۔ اس جمہوریت میں عوام کی ذلتوں ،محرومیوں کا قد اونچا ہوتا چلا گیا۔ مفاہمت کے نام پرقوم نے ایک نااہلی دیکھی ،بانجھ پن دیکھا ، جو امریکیت اور انڈیا کے سامنے تابع وفرماں برداری کو برقرار رکھنے کا میثاق تھا۔ تابع و فرمان برداری کا یہ جوش محب وطن عوام پر اپنی ناپاک خواہشات کے تیر برساتا رہا جس کا تسلسل غیر آئینی نگران حکومت میں آج بھی جاری ہے ۔حادثاتی سیاست دانوں نے مفادات کے وفادار بن کر نظریاتی عوامی حقوق کو ہدف بنائے رکھا اوریہ ننگ وطن افراد ایک مجرم کا بیانیہ لیکر آج بھی رواں دواں ہیں ۔عمران خان کی حکمرانی میں وطن عزیز ایک اثر انگیز استحکام کی طرف بڑھ رہا تھاجس کا کردار لوٹ مار کی تاریخ رقم کرنے والوں کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکتا رہا ۔ احتساب کا خوف لوٹ مار کی تاریخ رقم کرنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والاتھا ۔ ” کرپشن بچائو ”اعلامیہ لیکر الیکشن میں اترنے والے ٹولے نے عام آدمی سے جینے کا حق تک چھین لیا ۔وطن عزیز میں روزانہ 34افراد خود کشی کر رہے ہیں ، ایک ایسا صوبہ جہاں سہولت کار وزیر اعلیٰ ہے میں 300سے زائد بچے نمونیہ کی نذر ہوگئے ،ماضی سے لیکر آج تک لے پالک انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے الیکشن چرائے جاتے رہے ،منظم طریقے سے دھاندلی کی جاتی رہی ،عوام کا حق ِ خود ارادیت ، ووٹ کا تقدس 1985ء سے انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے خریدا اور بیچا جاتا رہا ،9مئی کے خود ساختہ واقعہ کے بعد مظالم کا تسلسل ایسا چلا کہ ساری زبانیں گنگ ہو گئیں۔
اب عوام کے بر انگیختہ جذبات کو روکنا ممکن نہیں ،اُن کے جذبات کے آگے بند باندھنا ایک خواب ہوگا۔ 2013میں تحریک انصاف کا عوامی مینڈیٹ چرایا گیا،2018میں آر ٹی ایس سسٹم بٹھا کر تحریک انصاف کو تیس سیٹوں سے محروم کردیا گیا ، عوام اسے نہیں بھولے ،عوام عدم اعتماد کے ڈرامے ،سائفر ،توشہ خانہ ،اور عدت کیس میں شریعت کی دھجیاں بکھرنے کو نہیں بھولے۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگی امیدواران ایک ایک دروازے پر ووٹوں کی بھیک مانگ کر اُلٹے قدموں جیت کی ناکام خواہشیں لیکر لوٹ رہے ہیں ، ایک بار پھر دھوکے سے عوام کی رائے کو یر غمال بنانے کی بھر پور ریہرسل کی جارہی ہے ، مگر8فروری کو سرمائے کا شیر بھیگی بن کر بھاگے گا۔ عوام جانتے ہیں کہ اُن کا حق خود ارادیت ایک طاقتور بیورو کریسی کے ہاتھ میں دیا گیا ہے ،ضلعی سطح پر یہی کرپٹ بیورو کریسی پریزائیڈنگ اور ریٹرننگ آفیسرز کی شکل میں موجود ہوگی جس نے کاغذات چھینے ،ناجائز ایف آئی آرز کا اندراج کیا ،جس نے 9مئی کے ڈرامے کی آڑ میں مائوں ،بہنوں کو گھروں سے اُٹھایا ، وہ انتخابی نتائج کو پنجاب میں شریفوں کی منشا کے مطابق بدلنا چاہتی ہے ،مگر اس بار شاید ایسا نہ ہوسکے ۔