... loading ...
سمیع اللہ ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد،ابوالقاسم،ابوالطیب،نبی التوبہ،نبی الرحمتہ،نبی المرحمتہ،نبی ال ملحمتہ،الرحمہ المہدا،حبیب الرحمن،المختار،المصطفی، المجتبی،الصادق، المصدوق،الامین،صاحب مقام محمود، صاحب الوسیل والدرج الرفیع،صاحب التاج والمعراج،امام المتقین،سید المرسلین،النبی الامی، رسول اللہ، خاتم النبیین،الرسول الاعظم،السراج المنیر، الروؤف الرحیم، العرو الوثقیٰ!میرے ماں باپ آپ پر قربان!اپنی زبان کوکروڑوں مرتبہ مشک وکافورسے بھی دھوکربیان کرناچاہوں،روئے زمین میں پھیلے ہوئے جنگلات کے تمام اشجارکے قلم اورتمام ارض کائنات کے سمندروں کے پانی کوروشنائی میں بھی تبدیل کرکے آپ کے کسی ایک مناسک کی تعریف بھی تحریرکرناممکن نہیں لیکن اس ناچیزکی درخواست، میری یہ جسارت،میری یہ رسائی،میرے قلم کی یہ آہ نیم شبی، میری آہ سحری کی یہ بازگشت دامن قرطاس پربکھرکرسمٹ کرگریبان قرطاس کاقلاوہ بن کراس بارگاہ بے کس پناہ میں حاضر ہونے کی اجازت چاہ رہی ہے اوریہ جسارت،یہ جرأت،یہ ہمت،یہ رسائی اوریہ اجازت آپ ہی کی مہربانی اورآپ ہی کے لطف کاصدقہ ہے۔
آپ کے سائل سینکڑوں ہوں توبھی میں پہچاناجاؤں،ہزاروں ہوں توشائدرسائی ہو،لاکھوں ہوں توشائدشنوائی ہو،کروڑوں ہوں تو شائدکارواں عشق ومحبت میں ایک گوشہ مل جائے مگراس آستاں کے سامنے بے حدوحساب،بے شماروبے تعدادوبے کراں آپ کے در پر کھڑے سوالی ہیں ان میں ایک یہ غلام بھی ہے۔میں اپنے بیان کی،اپنے اسلوب کی، اپنے اندازکی حیثیت کوبھی خوب جانتاہوں لیکن پھربھی سوت کے یہ چندقلمی تارآپ کے دربارِعالیہ میں لیکرحاضرہورہاہوں۔
اے رحمت العالمین!اتنے بڑے دربارکی روایات جہاں بوقتِ فجرسے مغرب تک70ہزارملائکہ حاضرہوتے ہوں اورمغرب سے لیکر فجر تک70ہزارملائکہ کی دوسری جماعت حاضری کاشرف حاصل کرتی ہواورپھرقیامت تک ان کی باری نہ آئے،یہ بے مایہ،بے بضاعت، آداب ومنقبت نگاری سے ناواقف،بھلااتنے بڑے دربارسے کیسے آشناہوسکتا ہے۔صرف اس لئے حاضرہورہا ہوں کہ شاہوں کے دربارمیں بغیرنذرانے کے حاضرہوناگستاخی سمجھی جاتی ہے لہٰذایہ ناچیز اپنے دل کے ٹکڑوں کوعقیدت ومحبت کی کشتی میں درود شریف کاغازہ لگاکرآپ کے دربارمیں درخواست پیش کرنے کی اجازت کاطلب گارہے۔
اے پیغمبرمجتبیٰ!میں فقیرہوں،مجھے مانگنابھی نہیں آتا،صدالگانے کے سلیقہ سے بھی ناواقف ہوں،میری صدا،میرے چندآنسوہیں جونیم شب بہہ کرآپ کی بارگاہ میں قبولیت کے منتظرہیں اورآج پریشان الفاظ کی شکل میں قلم کی نوک پرآنے کیلئے مچل رہے ہیں۔اگران آنسوؤں کے کچھ مطالب ہوسکتے ہیں توانہیں قبول فرمائیں۔ان آنسوؤں کے پردے میں جوسوزہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں،جودردہے آپ سے چھپانہیں،جوگدازہے وہ آپ سے پنہاں نہیں،ان سب کوالفاظ بناکرآپ کی خدمت میں تحریرکرنابھی چاہوں توبھی ممکن نہیں، بس! یہ آپ کی محبت کے داغ ہیں جوکبھی مدہم بھی نہیں ہوسکتے،یہ آپ کی یادوں کے زخم ہیں جوبھرنہیں سکتے،یہ داغ ،یہ زخم بھی آپ ہی کی نگاہِ کرم کاایک عطیہ ہیں۔
اے طہٰ!بزرگوں سے سناتھا،کتابوں میں پڑھاہے کہ آپ کی بارگاہ میں قصیدہ خواں،مدحت سرا،آہ وفغاں کرنے والے ذکراذکار کرنے والے آپ کے مناقب بیان کرنے والے اورلکھنے والے بلاروک ٹوک پہنچ جاتے ہیں۔میں قصیدہ خواں بن نہیں سکاکہ خوش آوازنہیں ہوں،مقررنہیں بن سکاکہ آپ کی مدح سرائی میں کوئی کمی نہ رہ جائے،مدحت سرانہ ہو سکا کہ ذوقِ شاعری نہیں ہے،آہ وفغاں نہ کرسکاکہ سینہ بریاں نہ پایاہے،فرہادوفغاں لیکرنہ پہنچ سکاکہ ذکرواذکارآپ کے شایانِ شان نہ کرپایاہوں، ہاں اسی لئے میرے مہربان و رفقا برملاالزام دینے سے گریزنہیں کرتے کہ محبت کا صحیح حق اداکرنے کے سلیقے کاراستہ ڈھونڈنے میں پوری سعی استعمال نہیں کرپایالیکن آپ کوتومعلوم ہے،آپ پرسب عیاں ہے کہ میں تواپناحالِ دل ماسوائے اپنے ربِ کریم کے علاوہ کسی اورکے سامنے افشاںکرنے کونہایت بے ادبی سمجھتاہوں۔اب آپ ہی ان قلوب کارخ تبدیل کردیں جن کومجھ سے ایسی شکایت ہے اورمجھے بھی ایسی توفیق حاصل ہوجائے کہ میں آپ کے لائے ہوئے پیغام میں اس طرح ڈھل جاؤں کہ میراساراوجودعجزوانکساری کاایساغلام بن جائے کہ میرا ہر عمل آپ کی خوشنودی کاحامل بن جائے تاکہ روزِمحشر میری شناخت آپ کے غلاموں میں ہو۔میرے تووہم وگمان بھی نہ تھاکہ مجھ گناہ گارکوایسی حاضری کاموقع میسرہوگاکہ جہاں سانس بھی اونچالینامحال ہو!
اے یٰسین!آپۖکی حیاتِ طیبہ کے احوال و فضائل،آپۖکی مبارک ہستی کا سراپا،قدوقامت اورمبارک شکل وصورت جس کے فیضانِ نظرسے تہذیب وتمدن سے ناآشنا خطہ ایک مختصرسے عرصے میں رشکِ ماہ وانجم بن گیا،آپۖکی تعلیمات اورسیرت و کردارکی روشنی نے جاہلیت اورتوہم پرستی کے تمام تیرہ وتارپردے چاک کردیے اورآپ ۖ کے حیات آفریں پیغام نے چہاردانگ عالم کی کایا پلٹ دی۔حقیقت یہ ہے کہ ذاتِ خداوندی نے اس عبدِکامل اورفخرِنوعِ اِنسانی کی ذاتِ اقدس کوجملہ اوصافِ سیرت سے مالامال کر دینے سے پہلے آپۖکی شخصیت کوظاہری حسن کاوہ لازوال جوہرعطاکر دیاتھاکہ آپۖکاحسنِ صورت بھی حسنِ سیرت ہی کا ایک باب بن گیاتھا۔آپۖکے حسنِ سراپا کاایک لفظی مرقع اصحاب کرام اورتابعینِ عظام کے ذریعے ہم تک پہنچاہے،جس سے پتہ چلتاہے کہ اللہ رب العزت نے آپۖکووہ حسن وجمال عطاکیاتھاکہ جو شخص بھی آپۖکوپہلی مرتبہ دور سے دیکھتاتومبہوت ہوجاتااورقریب سے دیکھتاتومسحورہوجاتا۔لاریب!آپ کومیرے رب نے ایسے سانچے میں ڈھالاکہ حسن بھی آپ پر نازاں تھا!
اے نبی مشہود!آپۖاللہ تعالی کے سب سے محبوب اورمقرب نبی ہیں،اِس لئے باری تعالی نے انبیائے سابقین کے جملہ شمائل و خصائص اورمحامدومحاسن آپۖکی ذاتِ اقدس میں اِس طرح جمع فرمادیئے کہ آپۖافضلیت واکملیت کا معیارِآخر قرارپائے۔ اِس لحاظ سے حسن وجمال کامعیارِآخربھی آپۖہی کی ذات ہے۔آپۖکی اِس شانِ جامعیت وکاملیت کے بارے میں اِرشادِباری تعالیٰ ہے:یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی تھی تو تم انہیں کی ہدایت کی پیروی کرو۔ کہہ دو کہ میں تم سے اس (قرآن) کا صلہ نہیں مانگتا۔ یہ تو جہان کے لوگوں کے لئے محض نصیحت ہے )الانعام90:)
اے حریص علیکم!حضرت حسان بن ثابت جنہیں آپۖبڑی محبت کے ساتھ اشعارسنانے کاحکم دیتے تھے،وہ آپۖکے کمالِ حسن کوبڑے ہی دِلپذیراندازمیں یوں بیان کرتے ہیں:
وا حسن مِنک لم ترقط عینِی واجمل مِنک لم تل دِ النِسائ
خلِقت مبرامِن کلِ عیبِ کانک قد خلِقت کما تشائ
آپۖسے حسین ترمیری آنکھ نے کبھی دیکھاہی نہیں اورنہ کبھی کسی ماں نے آپۖجیسے جمیل ترکوجنم ہی دیاہے۔ آپۖکی تخلیق بے عیب(ہرنقص سے پاک)ہے،( یوں دِکھائی دیتاہے)جیسے آپۖکے رب نے آپ کی خواہش کے مطابق آپۖکی صورت بنائی ہے۔(حسان بن ثابت،دیوان:21)ملاعلی قاری ایک دوسرے مقام پرقصیدہ بردہ شریف کی شرح میں لکھتے ہیں:اگرخدائے رحیم وکریم حضورۖکے اسمِ مبارک کی حقیقی برکات کوآج بھی ظاہرکردے تواس کی برکت سے مردہ زندہ ہوجائے، کافرکے کفرکی تاریکیاں دورہوجائیں اورغافل دل ذکرِالہی میں مصروف ہوجائے لیکن ربِ کائنات نے اپنی حکمتِ کاملہ سے حضورۖکے اِس انمول جوہرکے جمال پرپردہ ڈال دیا ہے ،شایدربِ کائنات کی یہ حکمت ہے کہ معاملات کے برعکس اِیمان بالغیب پردہ کی صورت میں ہی ممکن ہے اورمشاہدحقیقت اس کے منافی ہے۔حضورۖکے حسن وجمال کومکمل طورپراِس لئے بھی ظاہر نہیں کیاگیاکہ کہیں ناسمجھ لوگ غلوکا شکارہوکرمعرفتِ اِلہٰی سے ہی غافل نہ ہوجائیں۔
اے خاتم النبین!میں نے بھی ایک بہانہ تلاش کیاہے،ایک حیلہ ڈھونڈاہے کہ آپ کی بارگاہِ اقدس میں آج قلمی حاضری بھی ہوجائے تاکہ روزِآخرت یہ قلم بھی پ سے محبت کی گواہی دے۔آپ میرے حالات سے واقف ہیں کہ آج آپ کے درپرحاضری کیلئے دن رات دعاؤں کاسہارالیکراپنی عاجزی اوربے بسی کااس امید پراظہارکررہاہوں کہ دلِ بے تاب سے نکلیں ہوئی فریادیں اب ایسے انقلاب کی اجازت کی طلب گارہیں جہاں زندگی کے ہرشعبے میں آپۖکی سیرت مبارکہ کی جھلک نمایاں ہو۔بعض اوقات تویوں محسوس ہوتاہے کہ برہاکے یہ شب وروز کہیں جان ہی نہ نکال دیں،سانس لینامشکل ہوجاتاہے اوردل کی دھڑکن بھی بے ترتیب ہوجاتی ہے۔تحریری طورپراپنی گزارشات آپ کی خدمت اقدس میں پیش کرنے کی جسارت کروں،یہ کب سوچاتھا؟لیکن آپۖکی آل کی ایک بیٹی نے حکم دیا(جس نے میری زندگی کارخ تبدیل کردیاہے)تومیں نے ڈرتے ہوئے اسے دربارمیں حاضری سمجھتے ہوئے سرخم کردیا۔مجھے یہ بھی یقین ہے کہ نامکمل اور ٹوٹے پھوٹے ہوئے الفاظ میری دلی فریادکااحاطہ کرنے سے قاصرہیں لیکن آپ تو ایسے آقاہیں کہ آپ کے دستِ مبارک میں پتھروں کوزباں مل جاتی ہے،چرندپرند،اشجارہی نہیں بلکہ ارض وسماکی ساری مخلوق آپ کی نسبت پرصدافتخارکادعویٰ کرتی ہے تومیراقلم بھی آپۖکی صفات کے بحرِ قلزم سے ایک قطرے کی خیرات سے سیراب ہونے کی اجازت چاہتاہے۔آپۖکوتواللہ نے قاسم کی صفت سے متصوف فرمایاہے اورمیرے لئے تویہی انعام میری زندگی کاسب سے بڑاحاصل ہے کہ رب ِ کریم نے مجھے آپ کاامتی بنایا۔
اے مزمل!آپ کو خالق ارض و سما رب العلٰی نے رسولِ کائنات، فخرِموجودات اورنسلِ انسانی کیلئے نمونہ کاملہ اوراسوہ حسنہ بنایاہے اورآپۖکے طریقہ کوفطری طریقہ قراردیا گیا ہے۔آپۖکے معمولات زندگی ہی قیامت تک کیلئے شعارومعیارمقررکردیئے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپۖکی سیر ت کاہرگوشہ تابناک اورہرپہلوروشن ہے۔ یومِ ولادت سے لے کرروزِرحلت تک کے ہرہر لمحہ کوباری تعالی نے لوگوں سے محفوظ کرادیاہے،آپۖکی ہراداکوآپۖکے متوالوں نے محفوظ رکھاہے اورسندکے ساتھ تحقیقی طور پرہم تک پہنچایاہے،لہذاآپۖکی سیرت مبارکہ جامعیت واکملیت ہرقسم کے شک وشبہ سے محفوظ ہے۔دنیائے انسانیت کسی بھی عظیم المرتب ہستی کے حالات زندگی، معمولات زندگی،اندازواطوار،مزاج ورجحان،حرکات وسکنات،نشست وبرخاست اورعادات وخیالات اتنے کامل ومدلل طریقہ پرنہیں ہیں جس طرح کہ ایک ایک جزئیہ سیر ت آپۖکاتحریری شکل میں دنیاکے سامنے ہے یہاں تک کہ آج بھی آپۖسے متعلق زندگی کے ہرلمحے سے متعلق اشیاکی تفاصیل بھی سند کے ساتھ سیرت وتاریخ میں ہر خاص وعام کومل جاتی ہیں۔
اے متین ومصدق!اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گزارنے کیلئے اللہ رب العزت نے اسلام کونظامِ حیات اورآپۖکو نمونہ حیات بنایاہے وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگاجوآپۖسے قولاً،فعلاًمنقول ہے،آپۖکاطریقہ سنت کہلاتاہے اور آپۖنے فرمایا:جس نے میرے طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے۔
اے محسن انسانیتۖ!عبادات واطاعات سے متعلق آپۖکی سیرت طیبہ اورعادات شریفہ پربرابرلکھااوربیان کیا جاتا رہتا ہے۔ دنیا میں ہرلمحہ ہرآن آپۖکاذکر ِخیر کہیں نہ کہیں ضرورہوتارہتاہے۔آپ کی سیرت سنائی اوربتائی جاتی رہے گی پھربھی آپۖکا عنوان پرانا نہیں ہوگا،یہی معجزہ ہے آپۖکی مبارک سیرت کااوریہی تفسیرہے ورفعنالک ذکرک کی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کی دنیا وآخرت میں کامیابی وسرفرازی کاعنوان اتباع سنت ہے،یہی اتباع ہردورہرزمانہ میں سربلندی اورخوش نصیبی کی کنجی ہے۔اگرکسی کوعہدِ رسالت نہ مل سکا توپھران کیلئے عہدِصحابہ ہی معیارِعمل ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت آپۖہی کی تربیت کاعملی پیکرہے اسی لئے ہرطرح سے پرکھنے جانچنے کے بعدان کونسلِ انسانی کے ہرطبقہ کے واسطے ایمان وعمل کامعیاربنایاگیاہے کیونکہ خودآپۖنے ان کی تربیت فرمائی ہے اور اللہ رب العالمین نے ان کے عمل وکردار، اخلاق واطوار،ایمان و اسلام اور توحید وعقیدہ، صلاح وتقویٰ کو بار بار پرکھا پھر اپنی رضا وپسندیدگی سے ان کوسرفرازفرمایا،پھرکہیں فرمایا: یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کے تقویٰ کواللہ نے جانچاہے،کہیں فرمایا:کہ اے لوگوایسے ایمان لاجیساکہ محمدۖکے صحابہ ایمان لائے ہیں توکہیں فرمایا” :یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔یہ سب اس لیے کہ یہ سب آپۖکے تربیت یافتہ اورآپۖکی سیرت کا عکس جمیل تھے۔ان کی عبادات میں ہی نہیں بلکہ چال ڈھال میں بھی آپ کی سیرت کانورجھلکتاتھا،یہی سبب ہے کہ خودآپۖنے فرمایا : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جن سے بھی اقتداومحبت کا تعلق جمالوگے ہدایت پاجاؤگے(ترمذی)چونکہ صحرا،جنگل میں سفرکرنے کیلئے سمت معلوم کرنے کیلئے ستاروں کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے،اسی لئے آپۖنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کوستاروں سے تشبیہ دی کہ وہ نفوس
قدسیہ شرک وکفرکے صحرامیں مینارہ ایمان ہیں۔ چندمستندکتابوں میں آپۖکے چند خاص گوشوں کوموضوع بنایاگیاہے جو آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیان کردہ ہیں مختصرطورپرہراس پہلوکوذکرکرنے کی جسارت کررہاہوں۔
بعض روایات کے مطابق12ربیع الاول عام الفیل کوآپۖنے شکمِ مادرسے تولد فرمایا۔شمائلِ ترمذی حلیہ مبارکہ بیان کرنے کا سب سے مستند وجامع ذریعہ ہے جس کوامام ترمذی نے ذکرفرمایاہے۔آپۖکامیانہ قد،سرخی مائل،سفیدگورارنگ، سرِاقدس پرسیاہ ہلکے گھنگھریالے ریشم کی طرح ملائم انتہائی خوبصورت بال جوکبھی شانہ مبارک تک دراز ہوتے توکبھی گردن تک اورکبھی کانوں کی لوتک رہتے تھے۔ رخِ انوراتناحسین کہ ماہِ کامل کے مانندچمکتاتھا،سینہ مبارک چوڑا،چکلاکشادہ،جسم اطہرنہ دبلانہ موٹا،انتہائی سڈول چکناکہیں داغ دھبہ نہیں،دونوں شانوں کے بیچ پشت پرمہرِنبوت کبوترکے انڈے کے برابرسرخی مائل ابھری کہ دیکھنے میں بے حدبھلی لگتی تھی،پیشانی کشادہ بلنداورچمکدار، ابروئے مبارک کمان دارغیرپیوستہ،دہن شریف کشادہ،ہونٹ یاقوتی مسکراتے تودندانِ مبارک موتی کے مانندچمکتے،دانتوں کے درمیان ہلکی ہلکی درازیں تھیں تکلم فرماتے تو پندو نصائح کے خزانے کوسمیٹنے میں دامن تنگ نظرآتا،سینہ پربالوں کی ہلکی لکیرناف تک تھی باقی پیکربالوں سے پاک تھا صحابہ کااتفاق ہے کہ آپۖجیساخوبصورت نہیں دیکھاگیا۔ کبھی آپ چیخ کربات کرتے تھے نہ قہقہہ لگاتے تھے،نہ شورکرتے تھے نہ چلاکربولتے تھے،ہرلفظ واضح بولتے جب مجمع سے مخاطب ہوتے توتین بارجملہ کوبالکل صاف صاف دہراتے تھے۔ اندازِکلام باوقار،الفاظ میں حلاوت کہ بس سنتے رہنے کودل مشتاق،لبوں پرہمہ دم ہلکاساتبسم جس سے لب مبارک اوررخِ انورکاحسن بڑھ جاتاتھا،راہ چلتے تورفتار ایسی ہوتی تھی گویا کسی بلندجگہ سے اتررہے ہوں،نہ دائیں بائیں مڑ مڑکردیکھتے تھے نہ گردن کوآسمان کی طرف اٹھاکرچلتے تھے،تواضع کی باوقارمردانہ خوددارانہ رفتار ہوتی،قدمِ مبارک کو پوری طرح رکھ کرچلتے تھے کہ نعلین شریفین کی آوازنہیں آتی تھی،ہاتھ اورقدم ریشم کی طرح ملائم گدازتھے،ذاتی معاملہ میں کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے،اپناکام خودکرنے میں تکلف نہ فرماتے تھے کہ کوئی مصافحہ کرتاتواس کاہاتھ نہیں چھوڑتے تھے جب تک وہ خود الگ نہ کرلے،آپۖجس سے گفتگوفرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے،کوئی آپۖسے بات کرتاتو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے،پھربھی ایسارعب تھاکہ صحابہ کوگفتگوکی ہمت نہ ہوتی تھی۔ہرفردیہی تصورکرتاتھاکہ مجھ کوہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں ۔
دعوت و تبلیغ کا آغاز:تاجِ رسالت اورخلعت نبوت سے سرفرازہونے کے بعدآپۖنے ایک ایسے سماج ومعاشرہ کوایمان وتوحید کی دعوت دی جوگلے گلے تک شرک وکفرکی دلدل میں گرفتارتھا،ضلالت وجہالت کی شکارتھی انسانیت،شرافت مفقودتھی، درندگی اور حیوانیت کاراج تھا،ہرطاقتورفرعون بناہواتھا۔قتل وغارت گری کی وباہرسوعام تھی نہ عزت محفوظ،نہ عصمت محفوظ،نہ عورتوں کاکوئی مقام،نہ غریبوں کیلئے کوئی پناہ،شراب پانی کی طرح بہائی جاتی تھی۔بے حیائی اپنے عروج پرتھی، روئے زمین پروحدانیت حق کاکوئی تصور نہ تھا، خودغرضی،مطلب پرستی کادوردورہ تھا،چوری،بدکاری اپنے عروج پرتھی اور ظلم وستم ناانصافی اپنے شباب پرتھی،خدائے واحدکی پرستش کی جگہ معبودانِ باطل کے سامنے پیشانیاں جھکتی تھیں،نفرت و عداوت کی زہریلی فضا انسان کو انسان سے دورکرچکی تھی،انسانیت آخری سانس لے رہی تھی،معاشرہ سے شرک کاتعفن اٹھ رہا تھا۔کفرکی نجاست سے قلوب بدبودارہوچکے تھے۔اس دورکاانسان قرآن کریم کے مطابق جہنم کے کنارے کھڑاتھا،ہلاکت سے دوچارہونے کے قریب کہ رحمت حق کورحم آیااورکوہِ صفاسے صدیوں بعد انسانیت کی بقاکااعلان ہوا کہ: یآایہاالناس قولوالاالہ الااللہ تفلحوا،اے لوگو!لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پرایمان لا،فلاح وصلاح سے ہمکناررہوگے۔یہ آوازنہیں تھی بلکہ ایوان باطل میں بجلی کاکڑکاتھا۔
وہ بجلی کڑکاتھایاصوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
آپۖکی یہی آوازِحق ایک عظیم الشان انقلاب کی ابتداتھی جس نے دنیائے انسانیت کی تاریخ بدل دی یہ اعلان توحیدکی حیات نو کا پیغام تھاجس نے آپۖکی یہی آوازِحق ایک عظیم الشان انقلاب کی ابتداتھی جس نے دنیائے انسانیت کی تاریخ بدل دی یہ اعلان توحید کی حیات نوکاپیغام تھاجس نے مردہ دل عربوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی اور پھردنیانے وہ منظردیکھاجس کا تصوربھی نہ تھاکہ قاتل عادل بن گئے،بت پرست بن شکن بن گئے،ظلم وغضب کرنے والے حق پرست اوررحم دل بن گئے، سیکڑوں معبودانِ باطل کے سامنے جھکنے والی پیشانیاں خدائے واحدکے سامنے سرنگوں ہوگئیں،عورتوں کوجانورسے بدتر جاننے والے قطع رحمی اورکمزوروں پرستم ڈھانے والے عورتوں کے محافظ،صلہ رحمی کے خوگراورکمزوروں کاسہارابن گئے،نفرت وعدوات کاآتش فشاں سردہوگیا،محبت واخوت کی فصلِ بہاراں آگئی،راہزن راہبر اورظالم عدل وانصاف کے پیامبربن گئے۔
جونہ تھے خودراہ پراوروں کے ہادی بن گئے
کیانظرتھی جس نے مردوں کومسیحاکردیا
اے امرمصباح!پھردنیانے دیکھاکہ ایک امی لقب اعلیٰ نسب رسول کے فداکاروں نے ایمان وتوحیدکی تاریخ مرتب کرڈالی،عدل و انصاف کے لازوال نقوش چھوڑے،وحدت مساوات کی لافانی داستان رقم کردی،فتوحات کی انوکھی تاریخ لکھ دی،جہان بانی و حکمرانی کے مثالی اصول مرتب کیے،عفت وپاکدامنی کاریکارڈچھوڑگئے،وفاداری، فداکاری کے انمٹ نقوش تحریرکردیئے، عظمت ورفعت کے ان بلندیوں پرپہنچے جہاں سے اونچامقام صرف انبیا ومرسلین کونصیب ہوسکتاہے،ایساانقلاب دنیانے کب دیکھاتھااورکہاں سناتھا ۔
صبرواستقامت :آپۖنے دعوت حق اواعلانِ توحید کی راہ میں اپنے ہی لوگوں کے ایسے ایسے مصائب وآلام دیکھے کہ کوئی اور ہوتا تو ہمت ہارجاتامگرآپۖصبرواستقامت کے کوہِ گراں تھے،دشمنانِ اسلام نے قدم قدم پرآپ کوستایا،جھٹلایا،بہتان لگایا، مجنون ودیوانہ کہا، ساحروکاہن کالقب دیا،راستوں میں کانٹے بچھائے،جسم اطہرپرغلاظت ڈالی، لالچ دیا،دھمکیاں دیں،اقتصادی ناکہ بندی اورسماجی مقاطعہ کیا،آپ کے شیدائیوں پرظلم وستم اورجبرواستبدادکے پہاڑتوڑے،نئے نئے دنیاکے لرزہ خیزعذاب کاجہنم کھول دیاکہ کسی طرح حق کا قافلہ رک جائے،حق کی آوازدب جائے مگردورِانقلاب شروع ہوگیاتھا،توحیدکانعرہ بلندہوچکاتھا،اس کوغالب آناتھا۔
کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور(ایمان واسلام)کواپنی پھونکوں سے بجھادیں اوراللہ پوراکرنے والاہے اپنے نورکواگرچہ کفاراس کاناپسندکریں(القرآن) ۔خودآپۖ کا ارشادِ گرامی ہے:ابتلاوآزمائش میں جتنامجھ کو ڈالاگیاکسی اورکونہیں ڈالاگیا۔اسی طرح آپ کے صحابہ پرجتنے مظالم ڈھائے گئے کسی اورامت میں نہیں ڈھائے گئے۔
ہجرتِ مبارکہ:جب مکہ کی سرزمین آپۖاورآپۖکے صحابہ کرام پربالکل تنگ کردی گئی تب بحکم الہی آپۖنے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اورصحابہ کرام نے اللہ کیلئے اپنے گھربار،آل واولاد،زمین وجائیداد سب کوچھوڑچھاڑکرحبشہ ومدینہ کارخ کیا۔آپۖکے حکم پرپہلی ہجرت صحابہ کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف کی تھی،پھرجب آپۖ مدینہ تشریف لے گئے تومدینہ اسلام کامرکزبن گیا،ہجرت رسول کے بارے میں مفکراسلام علی میاں ندوی کایہ جامع اقتباس بہت ہی معنویت رکھتا ہے کہ ہجرت کس جذبہ کانام ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کتنی زبردست قربانی دی تھی۔
رسول اللہۖ کی اس ہجرت سے سب سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ دعوت اور عقیدہ کی خاطر ہرعزیزاورہرمانوس ومرغوب شئے اورہراس چیزکوجس سے محبت کرنے،جس کوترجیح دینے اورجس سے بہرصورت وابستہ رہنے کاجذبہ انسان کی فطرت سلیم میں داخل ہے،بے دریغ قربان کیاجاسکتاہے لیکن ان دونوں اول الذکرچیزوں(دعوت وعقیدہ) کو ان میں سے کسی چیز کیلئے ترک نہیں کیاجاسکتا(نبی رحمت)اورہجرت رسولۖکا یہی پیغام آج بھی مسلمانوں کے سامنے ہے کہ ایمان وعقیدہ اوردعوت و تبلیغ کسی بھی صورت میں ترک کرناگوارہ نہ کریں یہی دونوں تمام دنیوی واخروی عزت وکامیابی کاسرچشمہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔