... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
بھارت میں جہاں اقلیتوں کو سفاکیت کا سامنا ہے وہی پر چھوٹی ذات کے ہندو بھی اپنوں کے مظالم کا شکار ہیں لیکن جب سے مودی برسراقتدار آیا ہے تب سے نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں نہتے اور معصوم مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے بلکہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کو تنگ کرنے کے ساتھ ساتھ مساجد کو بھی شہید کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ ایک طرف مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کو 76 سال مکمل ہو گئے جہاں ہندوستانی افواج نے بغیر کسی اخلاقی جواز کے ہندوستان پر قبضہ جما رکھا ہے تو دوسری طرف بابری مسجد کے انہدام کے بعد دیگر تاریخی مساجد بھی مودی سرکار کے نشانے پر ہے۔ ہمارے ہاں الیکشن آتے ہیں تو ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کی ایسی تیسی پھیرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے گلے میں رسہ ڈال کر گھسیٹنے کی باتیں کرتے ہیں اور پھر موقع ملنے پر بھائی بھائی بن جاتے ہیں جبکہ بھارت میں انتخابات کے قریب آتے ہی مودی سرکار کامیابی حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے بنیادی حقوق غصب کرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی اوچھے اور گھٹیا کام شروع کردیتی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے نشانہ پر رکھ کر کبھی مقبوضہ کشمیر میں شہادتوں کا بازار گرم کرتی ہے تو کبھی بھارت میں قائم تاریخی مساجد کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیتی ہے اور اب تونئی دہلی کی مساجد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے قبرستان بھی ہند و انتہا پسندوں کے نشانے پر آگیا۔ نئی دہلی میں صدیوں پرانی اکھونجی مسجد کو مودی سرکار نے منہدم کرنے کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے مسجد سے ملحقہ مسلمانوں کی قبروں اور قرآن پاک کے نسخوں کی بھی بے حرمتی شروع کررکھی ہے اورمسلمانوں کے پرانے تاریخی قبرستان کو بھی مسمار کرنا شروع کردیا ہے جہاں قبروں کی اس حد تک بے حرمتی کی گئی کہ کفن اور میتیں بھی نظر آرہی ہیں ۔اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی مسلمانوں پر بھارتیوں نے مظالم کی انتہاکررکھی ہے۔
آج سے 76سال قبل ہندوستانی افواج نے بغیر کسی آئینی اور اخلاقی جواز کے کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا۔ تقسیم ہند کے وقت کشمیر کی مقامی قیادت نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا لیکن مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے الحاق کے بدلے میں فوجی مدد مانگ لی جس بعد سے لیکر اب تک ہندوستان نے غیر قانونی طورپر مسلم اکثریتی کشمیر میں تقریبا 10 لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر ایک جیل کا منظر پیش کررہا ہے اور پھر 5؍اگست 2019 ء کو ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی منسوخ کر دی ۔ ہندوستانی افواج اب تک مقبوضہ کشمیر میں ڈھائی لاکھ کشمیریوں کو شہید جب کہ 7 ہزار سے زائد ماورائے عدالت قتل کر چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم اور 11 ہزار سے زائد خواتین زیادتی کا شکار ہوئی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اب تک 16 لاکھ کشمیری گرفتار کیے جاچکے ہیںاور بھارتیوں نے مظالم کی انتہا کرتے ہوئے 11 سو سے زائد املاک نذرِ آتش کردی ہیں۔ 2019 سے مقبوضہ کشمیر میں اب تک انٹرنیٹ کی طویل ترین بندش جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیرمیں اب تک 5 قراردادیں منظورکی جا چکی ہیں مگرکسی ایک پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ مقبوضہ کشمیرمیں اس تمام درندگی اور عوام پر بہیمانہ مظالم میں بے جے پی ملوث ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق فروری 2023 میں ہندوستان نے مقبوضہ وادی میں مسلم اکثریتی علاقوں کو مسمار کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی اور کشمیر کو ہندوستان کی بربریت کے باعث بے شمار نقصان اٹھانا پڑا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج نے ظلم وجبر کا ایسا کوئی ہتھکنڈہ نہیں چھوڑا جو بے گناہ اور بے سروسامان کشمیری عوام پرنہ آزمایا ہو لیکن کشمیری عوام جرات، پامردگی اور حوصلے سے اپنے موقف پر قائم ہیں۔
اب یہ اقوام عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں بند کروائیں اور مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم دنیا کے سامنے آشکار کرے قوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنائیں اور عالمی امن کے دعویدار اداروں ، انسانی حقوق کی تنظیموں ، اقوام متحدہ اور اسلامی سربراہی کانفرنس تنظیم کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے کیونکہ خطہ میں پائیدار امن کا قیام اس کے بغیر ممکن نہیں۔ آئے روز مختلف انداز میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے راستے تلاش کئے جا رہے ہیں لیکن اس وقت تک کوئی حل قابل قبول اور قابل نفاذنہیں ہوگا جب تک پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے تیسرے فریق یعنی کشمیری عوام کو اس عمل میں شامل کرکے کلیدی کردار نہیں دیا جاتا ۔کیونکہ کشمیری عوام کی رائے ہی اہمیت کی حامل ہے اب بھی وقت ہے کہ بھارت کو یک طرفہ اور جانبدارانہ پالیسیاں اور جارحانہ طرز عمل اختیار کرنے سے گریز کرتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے اور مذاکرات سے پہلے کشمیر میں امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنا کر مذاکرات کے لئے ماحول کو سازگار بنایا جائے۔ تشدد کا راستہ ترک کرکے بھارتی فوج کو واپس بلایا جائے تاکہ دینا پر واضح ہوجائے کہ بھارت مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہے۔ اس ماحول کے بعد مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔ اس کے علاوہ اور کوئی قابل عمل حل نظر نہیں آتا جبکہ عالمی برادری کی خاموشی سے شہ پا کر ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کو مقتل گاہ میں تبدیل کردیا ہے۔ ریاست کے مسلم تشخص کو اقلیت میں بدلنے کے لیے غیر ریاستی انتہا پسند ہندوؤں کی اسرائیل طرز کی کالونیاں بسائی جارہی ہیں ،طویل لاک ڈاؤن کے ذریعے ریاست جموں وکشمیر کو کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے معروف کشمیر رہنمائوں فاروق آزاد ،شہزاد نازکی،فیصل نازکی اور سردار محمد انور کا کہنا ہے کہ انسانی آزادیوں ور جمہوریت پر یقین رکھنے والے انسان اور ممالک ہندوستان پر دبائو ڈالیں کہ وہ کشمیریوںکو ان کو بنیادی اور پیدائشی حق حق خودارادیت فراہم کرے کیونکہ ہندوستا ن کی قیادت نے عالمی برادری سے عہد کیاتھاکہ وہ کشمیریوںکو حق دے گی کہ وہ اپنی آزادی و مرضی سے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں۔ ہندوستان اپنے اس عہدسے بھی منحرف ہوچکاہے اگر ہندوستان ہٹ دھرمی ترک نہیں کرتا تو دو کروڑ کشمیری اپنا حق مزاحمت استعمال کریںگے۔ ابھی تک توہندوستان کی فوج کو چند مجاہدین نے شکست سے دوچار کررکھاہے ۔اگر لاکھوں کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے تو فوج کو ہماچل پردیش سے پرے دھکیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اتنی قربانیوں کے باوجود بھی پر امن کشمیری دنیا کو امن کاپیغام دے رہے ہیں۔ اگر دنیا نے توجہ نہ دی توپھر مودی دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن جائے گا۔