... loading ...
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔
دودنوں کے اندرسائفر اور توشہ خانہ جیسے اہم ترین مقدمات کے فیصلے آئے ہیں جن میں سے ملکی سیاسی منظر نامہ مکمل طورپر ہی تبدیل ہو گیا ہے کیونکہ اِ ن مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کو سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ سائفر میں شاہ محمود قریشی جبکہ توشہ خانہ کیس میں بشریٰ بی بی کو بھی سزائیں دی گئی ہیں۔ اب ملک کے سیاسی منظر نامے سے عمران خان مائنس ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بلا چھن جانے سے بحثیت جماعت وہ اپنا وجود پہلے ہی کھو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی اب کوشش یہ ہے کہ سات دن کے اندراندر انٹراپارٹی انتخابات کر ادیے جائیں تاکہ پارلیمان میں وجود برقرار رکھ سکے مگرایسا تبھی ممکن ہے جب مزید کسی طرف سے کوئی اعتراض سامنے نہ آیا توہی ممکن ہے کچھ مخصوص نشستیں مل جائیں۔ بظاہر آزاد امیدوارمنتخب ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو سکتی ہے بانی پی ٹی آئی کو دی جانے والی سزائوں پر بلاول بھٹو کا تبصرہ ایک پختہ ذہن کا عکاس ہے انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم جمہوریت پسند ہیں اور سابق وزیرِ اعظم کی سزا پر جشن نہیں منا سکتے مگر عمران خان کو سنائی جانے والی سزائوں پر مسلم لیگ خوش ہے اور اِسے مکافاتِ عمل قرار دے رہی ہے۔ یہ رویہ مناسب نہیں کیونکہ روارویے کی وجہ سے نہ صرف دونوں جماعتوں میں بات چیت کے راستے بند ہوسکتے ہیں بلکہ کارکنوں کی حدتک بھی غصہ و نفرت بڑھنے کا امکان بڑھ جائے گا۔
خصوصی عدالت نے سائفرکیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس برس سزا سنائی ہے۔ فیصلے کا قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کو بیان دینے اور سماعت کا حصہ بنانے کاوقت بھی نہیں دیا گیا جس سے جلدبازی کا تاثر جنم لے رہا ہے۔ عدالتی فیصلوں پر ایسا تاثر اچھا نہیں،کسی پر الزام سچا ہے یا نہیں۔ اِس کا فیصلہ عدالتوں کو کرناہی ہوتا ہے مگر ملزمان کو صفائی کا موقع نہ دیا جائے تو اُنگلیاں اُٹھانے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو چودہ چودہ سال قید بامشقت کی سزادینے کے ساتھ مجموعی طورپر 1574ملین روپے کا جرمانہ بھی دیاگیا ہے۔ نیز دس برس کے لیے میاں بیوی کو کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے توشہ خانہ کیس میں ایسی سزا کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مزید قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی طرح آج تک توشہ خانہ سے تحائف لینے والوں کے خلاف کبھی جانچ پڑتال بھی نہیں کی گئی ۔حالانکہ آصف زرداری ،نواز شریف ،شاہدخاقان عباسی ،پرویز مشرف ،شوکت عزیز ،مریم نواز سمیت سبھی نے توشہ خانہ سے کوڑیوں کے بھائو تحائف لیے۔ مگر جس گہرائی سے عمران خان کیس کی انکوائری کی گئی اور عام انتخابات سے چند روز قبل سزا ہوئی، ایسا ماضی میں کسی حکمران سے رویہ اختیا ر نہیں کیا گیا۔ خیر عدالتی فیصلے پر تنقید کرنا مناسب نہیں کیونکہ پاکستان کی یہ تاریخ ہے کہ یہاں دی گئی سزائیں حرفِ آخر نہیں ہوتیں۔ اب بھی سزائوں کے خلاف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلیں ہو سکتی ہیں۔ بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل کے بجائے بنی گالہ میں بند رکھناکسی وقت بھی واپسی ممکن ہے ۔ البتہ کسی حد تک یہ درست ہے کہ وقتی طورپر پی ٹی آئی اور عمران خان دونوں بند گلی میں جا چکے ہیں اوراب سیاسی منظر نامے میں مسلم لیگ ن اور پی پی ہی اہم ترین حیثیت حاصل کر چکی ہیں۔ مگر یہ تصور کرلینا کہ رواں ماہ کے عام انتخابات میں کوئی ایک جماعت اکثریت حاصل کر لے گی درست نہیں، بلکہ منقسم آسکتے ہیں اور کئی جماعتوں پر مشتمل حکومت تشکیل پانے کا امکان ہے۔ جس سے چھوٹی جماعتیں اہم حیثیت حاصل کر سکتی ہیں ۔
سزائوں پر عملدرآمد ہو گا یا نہیں؟ اِس بارے اکثر قانونی ماہرین متفق ہیں کہ سیاستدانوں کو ملنے والی سزائوں پر کبھی عمل نہیں ہوا بلکہ پاکستان میں کب کون معتوب ہوتا ہے اور کب منظورِ نظر بن جاتاہے اِس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا بلکہ ماضی کے عام انتخابات سے قبل اکثر ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے لطف علی ملک نے کلاشنکوف کیس میں شیخ رشید کو سات برس کی سزا دی مگر وہ شیخ رشید نہ صرف ایک سے زائد بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے بلکہ وزیرِ داخلہ جیسے اہم منصب پر بھی فائز رہے۔ یہاں ایک اور کیس کا حوالہ دینا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ 2018کے انتخابات سے قبل اُن کے حریف حنیف عباسی کو ایفی ڈرین کیس میں سزا دیکر جیل بھیج دیا گیا یوں شیخ رشید بڑے آرام سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو گئے ۔وقت کی کیا ستم ظریفی ہے کہ آج حنیف عباسی آزادانہ الیکشن مُہم چلا رہے ہیں لیکن شیخ رشید نہ صرف الیکشن مُہم میں حصہ لینے سے قاصر ہیں بلکہ اڈیالہ جیل میں بند ہیں ۔
پاکستان میں سیاست کب کیا رُخ اختیار کرجائے کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا یہاں تک کہ سیاستدان بھی اِس بارے میںاندازے یا قیافے لگانے سے قاصر ہیں 2018کے عام انتخابات میں عمران خان منظورِ نظر جبکہ نواز شریف راندۂ درگاہ تھے آج نوازشریف چہیتے جبکہ عمران خان معتوب ہیں لیکن یہ مصائب جتنی جلد آتے ہیں اُس سے زیادہ تیزی سے ختم بھی ہو جاتے ہیں۔ نواز شریف کی اتنی جلد واپسی کسی کے گمان میں بھی نہیں تھی مگر وہ اب آٹھ فروری کے انتخابی نتائج سامنے آنے سے قبل ہی حکومت بنانے کی تیاری میں ہیں جبکہ گزشتہ انتخابات کے منظورِ نظر تو اب انتخابی عمل سے ہی باہر ہو چکے ہیں ۔یہ کوئی اچھی سیاسی روایات نہیں جمہوریت وہی اچھی اورمثالی ہے جس میں جمہور کو اپنے نمائندگان آزادانہ مرضی سے منتخب کرنے کا موقع دیا جا ئے۔ منظورِ نظر اور نفرت کے شکار کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے ۔ اِسی میں نہ صرف جمہوریت کی مضبوطی ہے بلکہ ملکی سا لمیت کے لیے بھی یہ ضروری ہے کیونکہ سیاسی استحکام سے ہی معاشی ترقی وابستہ ہے۔
آٹھ فروری کے انتخابات میں زیادہ وقت نہیں رہا بلکہ محض چار دن باقی ہیں مگر کیا انتخابی نتائج سے معرضِ وجود میں آنے والی اسمبلی اپنی مدت پوری کرپائے گی؟ اِس بارے میں کچھ کہناابھی قبل ازوقت ہوگا کیونکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سیاسی استحکام کی منزل حاصل نہیں ہوگی اور عین ممکن ہے جب آج عتاب کی شکار پی ٹی آ ئی پر مصائب میں کمی آئے تو سیاسی جلسے و جلوس شروع ہو جائیں اور قبل ازوقت انتخابات کی نوبت آجائے مزید یہ کہ ہمارے ملک کی تاریخ بتاتی ہے کہ جس جماعت کو زیادہ دبایا جائے وہ طویل عرصہ ملک کے سیاسی افق پر موجود رہتی ہے ۔ یہ سمجھنے کے لیے پیپلز پارٹی بہترین مثال ہے جو پینتالیس برس سے نشیب و فراز کا سامنا کرتے ہوئے بھی ملکی اُفق پر آج نمایاں مقام کے ساتھ موجود ہے۔ البتہ مصلحت پسندی کی سیاست نے اُسے عوام کے بجائے خواص کی جماعت بنا دیا ہے بزمِ یارہے دھندلی سی ،اسی لیے اِس مقام پر مسلم لیگ ن کب پہنچتی ہے ؟ یہ جاننے کے لیے چند برس انتظار کرنا ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔