... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز میں ہر چیز اُلٹ ہو گئی، دماغ کا کام ہاتھ سے لیا جانے لگا۔ جسد ِ واحد اجزاء میں بٹ کر آمادۂ بغاوت ہے۔ طاقت کی ہیئت پر تشکیل پانے والے سماج میں کچھ یہی ہڑبونگ رہتی ہے۔ ہر چیز اُلٹ پلٹ ہے، ہر چیز اُلٹ پلٹ!!!
اڈیالہ کے قیدی کو فیصلہ سنا دیا گیا، سنا کیا دیا منہ پہ مار کے منہ چھپا لیا گیا۔ یہ مجرم ہوتا ہے جو آنکھیں چراتا ہے، یہاں انصاف اور نظام انصاف ہے جو آنکھیں چرا اور منہ چھپا رہا ہے۔ 30 جنوری کی تاریخ ، کیلنڈر سے ہٹ گئی مگر تاریخ سے کبھی محو نہ ہوگی۔ اب سال گزرتا ہے، 2023 کی اسی تاریخ کو شہر پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ایک زوردار دھماکا ہوا تھا،اندوہناک واقعے میں101 افراداپنے رب سے جاملے تھے، یہاں اگلے روز کا کسی کو پتہ نہیں ، سو حادثے کے220زخمیوں کا کیا بنا ؟کچھ معلوم نہیں کہ اب کس حال میں جیتے یا مرتے ہیں۔ معلوم تو یہ بھی نہیں کہ اس کی تحقیقات کا کیا ہوا؟ ٹھیک ایک سال بعد بھی ایک ایسے ہی زوردار دھماکے میں ہدف مسجد نہیں انصاف کا عمل ہے۔ کسی بھی سماج کی شیرازہ بندی کا سب سے اہم عامل انصاف ہوتا ہے۔ وہ سماج کبھی وحدت نہیں پاسکتا جہاں ”انصاف” ظلم کے حربے کے طور پر آزمایا جاتا ہو۔ اڈیالہ کے قیدی نمبر804 کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ عمران خان انصاف کا ایک” حربے ”کے طور پر سامنا کر رہا ہے۔ اُس کے ماتھے پر ایک ایسا ”فیصلہ” چسپاں کر دیا گیا ہے جس کا ”فیصلہ ” ابھی تاریخ کی عدالت میں ہونا ہے۔ ایک ذرا دیر کے بعد وہ فیصلہ آ رہے گا۔ ٹہر جائیں! ٹہر جائیں، وہ انصاف کیسا ہوگا، تاریخ نے ایک اُصول کے طور پر رہنمائی کی ہے۔ خلیفہ چہارم حضرت علی کا قولِ زریں جھنجھوڑتا ہے”جو ظلم کے ذریعے عزت چاہتا ہے، اللہ اُسے انصاف کے ذریعے ذلیل کرتا ہے”۔ یہی انصاف ہمارا انتظار کررہا ہے۔ وقت کا پہیہ گھوم کر ہمیںوہاں تک کھینچ لے جائے گا۔
سائفر کیس میں عمران خان کو سزا اُن حریت پسندوں کے لیے ایک انعام کی طرح ہے جو امریکی استعمار کی غلامی سے نجات کو 1947ء کی تحریک آزادی کے مثیل سمجھتے ہیں۔ تب انگریز کے سہیم آج امریکا کے مددگاروں جیسے ہیں۔ تاریخ اُن پر اپنا حتمی حکم صادر کرے گی۔ پاکستان میں امریکی مداخلتوں کو دیکھنے کے لیے سائفر کی آنکھ ضروری نہیں۔ یہ برہنہ ہے۔ اندھے کو بھی نظر آتیں ہیں۔ مگر وہ جو غلام ہوئے ، اُن کی ذہنی پستی اندھوں سے بھی زیادہ اندھا کر دینے والی ہے۔ ایک آزاد ذہن کا جویا وہیں سے شکار کیا جارہا ہے، جہاں سے غلامی کا سراغ ملتا ہے۔ اُسے اپنے ہی مقدمے کا سزاوار بنادیا گیا۔
عمران خان نے ایک ایسی عدالت کا سامنا کیا ہے جسے عدالت کہنا بھی کسی انصاف پسند دماغ کے لیے مشکل ہے۔ پھر اس عدالت نے انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے کسی سوال کے اندیشے کو بھی نہیں پالا۔ خصوصی عدالت کی سرعت دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ بس ایک لمحے بعد حضرت اسرافیل کو صور پھونک دینا ہے اور روزِ قیامت اُن سے یہی سوال ہوگا کہ فیصلہ کرنے میں تاخیر کیوں کی تھی؟خصوصی عدالت جیل میں جس طرح کارگزار ہوئی، اس سے لگتا تھا کہ قیدی نمبر 804 نہیں، انصاف اور خود خصوصی عدالت قیدی ہے۔ خصوصی عدالت میں مقدمے کی خفیہ سماعت ، چہرے کے داغوں کو چھپانے کی کوشش جیسا اقدام بن کر عریاں ہوا۔سماعت میں ملزم کا حق ِدفاع ہی دفع کر دیا گیا۔ وکلائے صفائی کے لیے عدالت پہنچنا ناممکن بنا دیا گیا، پھر اِسے ملزمان کے خلاف ہتھیار بنا کر عدالت نے اپنے ہی وکلاء مسلط کر دیے۔ تاکہ مقدمے کی بے شرمی ، سوالات بن کر گواہان کے چہروں پر کالک کی طرح نہ لگ جائے۔اٹھارہ گواہان رات کے رات یوں بھگتائے گئے کہ کندھوں پر بیٹھے فرشتے بھی نامۂ اعمال سے بے خبررہیں۔ ساڑھے تین بجے سہ پہرختم ہونے والی عدالت کو رات بارہ بجے کے بعد بھی ایسے چلایا گیا کہ سورج سوا نیزے پر رہے۔ کچوے کی چال چلنے والی عدالتی مِسلوں کو خرگوش کے پاؤں لگا دیے گئے۔پھر وہ وقت ِ مطلوب بھی آپہنچا کہ جب انصاف کے قتل کا فیصلہ سنایا جانا تھا۔عصرِرواں کے ”نوشیروانِ عادل” نے عمران خان سے سوال کیا کہ سائفر کہاں ہے؟ بس اس سوال پر سرکاری راز افشاء کرنے کا بوجھ بھی تھا، اسی سوال پر سفارتی دستاویز کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی پھبتی بھی تھی،یہی سوال خفیہ مواصلات کو گم کرنے کے خانہ ساز الزام کی مکروہ واردات کا خفی سامان بھی رکھتا تھا، اسی پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کسی پاکستانی سیاست دان کو پہلی مرتبہ سزا سنانے کا امکان بھی منحصر تھا۔ اتنا ہی نہیں اسی سوال پر انتقام کا بوجھ بھی تھا۔اسی سوال پر لندن سے آئے ”بجوکے” کی زندگی کی غلط بازی بھی لگی تھی، اسی سوال پر اقتدار کے سنگھاسن پر پہنچنے کے باطل اندازے بھی تھے، اسی سوال پر 8 فروری کے انتخابات یوں ٹکے تھے جیسے ہندوتوہم پرستی کے بتکدے میں ساتوں زمینوںکا بوجھ گائے کے سینگوں نے اُٹھا رکھا ہے۔ اسی سوال پر” طاقت ، انصاف ہے ”کا مقدمہ تھا، اسی سوال پر مسخ دماغوں کے مختل اعصابوں کی تسکین کا انحصار تھا، اسی سوال پر برہم شکنوںکی ہمواری تھی، اسی سوال پر طاقت کے مراکزاور” انصاف” کے مصادرکے راز ونیاز قائم تھے،یہ سوال نہ تھا، صدیوں سے ذہنوں میں بوئی گئی غلامی کی فصل تھی، طاقت کے آگے دائم سجدہ ریزی کی رقت و رکاکت تھی، ایک ملک کی پوری آزادی کے گروی ہونے کی دلالت تھی، انصاف کی اعلیٰ روایتوں کو جوتوں تلے رکھنے کی مشق تھی۔
سائفر کہاں ہے؟ یہ سوال نہیں جنرل ایوب خان سے لے کر اب تک کی امریکا سے آنکھ مچولی کا پورا لیکھا جوکھا ہے۔ کپتان نے اس کے جواب میں صرف اتنا تو کہا کہ ”سائفر کی حفاظت کی ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں ہوتی، یہ جنرل باجوہ کے کہنے پر چوری کیا گیا”۔ سائفر ہی کہاں یہاں کیا کیا نہیں چوری ہوگیا۔ 1947ء کی آزادی چوری ہو گئی، 1971ء کو آدھا ملک چوری ہو گیا۔ نظریۂ پاکستان چوری ہو گیا۔ سچائی کے لیے مرنے کا جذبہ چوری ہو گیا۔ ایمان چوری ہو گیا۔ دلوں کا جذبہ چوری ہو گیا، ایک قوم کا مستقبل پورا چوری ہو گیا۔ آنکھ کی حیا چوری ہوگئی، خواب چوری ہوگئے، آدرش چوری ہو گئے۔ سائفر بھی چوری ہو گیا۔ انصاف بھی چوری ہو گیا۔ جج نے کپتان کا جواب بھی نہ سنا اورعمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس بر س قید ِبا مشقت کی سزا کا فیصلہ سنا دیا۔ اس پورے عمل میں کچھ کم نہیں پورے55 سیکنڈ صرف ہوئے۔ان 55 سیکنڈ کے اندر قومی حیات کی پوری 77سالہ تاریخ کی حرکت موجود ہے۔55 سیکنڈ کے فیصلے کی یہ سزا عمران خان کو نہیں انصاف پر 77سالہ اعتماد کو سنائی گئی۔ اٹھاریویں صدی کے فرانسیسی جج اور سیاسی فلسفی مونٹیسکیو کے الفاظ اڈیالہ جیل کے درودیوار سے ٹکراتے ہیں”تاریخ میں سب سے بڑھ کر ظلم قانون کی آڑ اور انصاف کے نام پرہوئے ”۔
٭٭٭