... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
آنے والے الیکشن کیسے ہونگے اس دن کیا ہوگا اور پھر الیکشن کے بعد کی صورتحال کیا ہوسکتی ہے؟ سیاسی بصارت رکھنے والے لوگ تو اس صورتحال سے بخوبی آگاہ ہونگے اور اب تک اس صورتحال پر جاندار اور غیر جانبدار تبصرہ سابق وزیر اعظم شاہد خان قان عباسی فرماچکے ہیں وہ ایک جہاندیدہ سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ سابق وزیر اعظم بھی ہیں ۔اس لیے ان کے بیان کے بعد اب سب کی آنکھیں کھل جانی چاہیے خاص کر ان لوگوں کی جو ملک کو اس طرف لے کر جارہے ہیں ۔اگر لاہور کی بات کریں تو اس وقت میاں نواز شریف ،میاں شہباز شریف ،مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے چاروں حلقوں کا سروے کریں تو ان علاقوں میں سوائے ان لوگوں کے اور کسی کی فلیکس نظر نہیں آتی آزاد امیدوار اپنی اپنی فلیکس لگاتے ہیںتو کچھ دیر بعد ہی اسے اتارنے والے پہنچ جاتے ہیں۔ جی ٹی روڈ باغبانپورہ کے قریب تو ٹائون کے اہلکاروں اور عا م لوگوں کے درمیان اچھی خاصی جھڑپ بھی ہونا شروع ہوچکی ہے۔ اس وقت شالا مار ٹائون کے تقریبا 10سے زائد ملازمین زخمی ہیں اور دوسرے ملازمین نے پولیس کے بغیر مخالفین کی فلیکسیں اتارنے سے انکار کردیا ہے۔ اب رات کے وقت پولیس کا ڈالا شالا مار ٹائون کے ملازمین کے ہمراہ جاکر امیدواروں کی فلیکسیں اتار تا ہے۔ یہی صورتحال پورے ملک میں بنی ہوئی ہے اور سرکاری مشینری مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی ،استحکام پارٹی اور جے یو پی کے علاوہ ہر اس امیدوار کو الیکشن سے قبل ہی میدان سے بھگانے کی کوشش کررہی ہے۔
سابق گورنر میاں اظہر جو خود بھی ایم این اے کے امیدوار ہیں، انہیں بھی گزشتہ روز گرفتار کرلیا ملکی میڈیا پر بھی مکمل کنٹرول ہے اور سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کو بھی قابو کرنے کے لیے انہیں ایف آئی اے کے ذریعے نوٹس بھجوائے جارہے ہیں۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ہماری عدلاتوں میں بیٹھے ہوئے منصفوں کا جنہوں نے اس معاملہ کو روک دیا ہے بلکہ اس حوالہ سے سپریم کورٹ کی تازہ ترین کارروائی کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ صحافیوں اور یوٹیوبرز کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)کی جانب سے جاری نوٹسز پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے تنقید کی بنا پر کارروائی نہ کرے۔ قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر 2میں لیا ۔معاملہ 5رکنی بینچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چلا گیا، 5رکنی بینچ نے طے کیا کہ 184 (3)کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے۔ صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے ۔دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بار بار کہہ رہا ہوں کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہرائیں گے ہم تو غلطیاں تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں اگرمجھ سے غلطی ہوئی ہے تو مجھ پر انگلی اٹھائیں، اگر انگلی نہیں اٹھائی تو میری اصلاح نہیں ہو گی تنقید کریں گے تو میری اصلاح ہوگی۔ تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں ۔آزادی صحافت آئین میں ہے ۔میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تنقید روک کر میرا یا سپریم کورٹ کا فائدہ کر رہے ہیں تو آپ میرا نقصان کر رہے ہیں ۔ہم یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا ہر صحافی جو لکھنا چاہے وہ آزادی کے ساتھ لکھ سکے۔ ہمیں سچ بولنا چاہیے یہاں مٹی پائو نظام چل رہا ہے جب تک کسی کو قابل احتساب نہیں ٹھہرائیں گے ایسا ہوتا رہے گا۔ دورانِ سماعت مطیع اللہ جان نے ارشد شریف قتل کیس کا معاملہ چیف جسٹس کے سامنے اٹھاتے ہوئے کہا کہ مائی لارڈ ایک اسی نوعیت کا سنگین معاملہ بھی زیر التوا ہے اور وہ کیس شہید ارشد شریف کا ہے۔ اِس کیس کو بھی دیکھ لیا جائے تاہم سپریم کورٹ نے صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم د یتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ گالی گلوچ الگ بات ہے۔ ایف آئی اے تنقید کی بنا پر کارروائی نہ کرے۔ صحافی اگر عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں تو کریں لیکن کسی کو تشدد پر اکسانے یا دیگر انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے۔ کسی بھی صحافی یا عام عوام کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس کا یہ فیصلہ سنہرے حروف سے لکھا جائے کیونکہ تنقید نہیں ہوگی تو پھر اصلاح کیسے ہوگی ؟ویسے بھی سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ دونوں شعبہ میں اگر ایمانداری اور ذمہ داری کے ساتھ کام کیاجائے تو عوام کی خدمت کا مقصد پورا ہوسکتا ہے کسی بھی علاقہ کی تعمیر وترقی عوام کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے پیغام اور عوامی مسائل کو اجاگر کرکے حل کرنے میں پریس کلب اور علاقائی صحافی اہم رول پلے کرتے ہیں اور بالخصوص وہ لوگ جن کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی وہ مظلوم لوگ پریس کلبوںکے باہر آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں تاکہ ان پر نازل ہونے والی مصیبت کا حل تلاش کیا جائے ۔اسی طرح کسی بھی علاقائی پریس کلب اور علاقائی صحافی بھی اپنے اپنے علاقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ پریس کلب علاقہ کا آئینہ اور صحافی معاشرے کی آنکھ اور کان کا کردار ادا کرتے ہیںاور جب تک صحافی اپنی ذمہ داری ایمانداری کے ساتھ سرانجام نہیں دیں گے تب تک معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کا خاتمہ ممکن نہیں اور نہ ہی کسی شہری کی داد رسی ممکن ہوسکتی ہے۔ ہمارے صحافی کئی عرصہ تک دہشت گردوں کے نشانہ پر رہے۔ اس دوران کئی نامور صحافی دوران کام جان کی بازی ہار کر ہم سے جدا ہوئے۔ ہمیں ان کی قربانیوں کا احساس بھی کرنا ہوگا اور میں خاص طور پر ارشد شریف اور ان جیسے بے باک اور نڈر صحافی جوراہِ صحافت میں شہید ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ باقی رہ گئی الیکشن کی بات تو وہ صورتحال سب کے سامنے ہے اور جیسے جیسے وقت گزرے گا ویسے ویسے اور نکھر کر سامنے آتی جائیگی ۔ ویسے اتوار کی ریلی میں جو پکڑ دھکڑ ہوئی پی ٹی آئی ورکروں پر تشدد ہوا وہ بھی قابل مذمت ہے جبکہ ان کے مقابلہ میں باقی جماعتوں کو سرکاری پروٹوکول میں ریلیاں نکلوائی جارہی ہیں۔ کیا پاکستان کے عوام اس قدر جاہل ہیں کہ وہ سوچنے سمجھنے کی قوت سے بالا تر ہوچکے ہیں کہ جو مرضی ہوتا رہے اور لوگ خاموشی سے اپنی آنکھیں اور کان بند کرکے بیٹھے رہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے اور نہ ہی وقت ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے۔ اس لیے قائداعظم کے اس جمہوری ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی رہنے دیا جائے اور ہر کسی کو الیکشن لڑنے ،تنقید کرنے اور بولنے کی آزادی دی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔