... loading ...
رفیق پٹیل
آج کل وزیر اعظم اور دیگر اعلیٰ عہدیدار بشمول فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر یونیورسٹی اور کالجوں کے طالب علموں سے خطاب کررہے ہیں اوران کے سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔ شاید یہ سمجھا جا رہا ہے نوجوان حکومت کے نقطہ نظر کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ ان خطابات سے یہ توقع رکھنا کہ نوجوان مان جائیں گے ممکن نہیں ہے ۔ یہ مشق بے نتیجہ ہے اس طرح کروڑوں نوجوانوں کو قائل نہیں کیا جاسکتاہے اگر اس کے بجائے وہ صرف ٹی وی پریہ اعلان کریں کہ یونیورسٹی سے فارغ تمام طلبہ کو فوراً ہی بہتر ملازمت ملے گی۔ کا لج تک تعلیم مفت ہوگی روٹی کی قیمت دس روپے اور پیٹرول ڈیڑھ سو روپے فی لیٹرہوگا اور بجلی سات روپے فی یونٹ ہوگی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ہر یونیورسٹی سے سو طلبہ کو میرٹ پر اسکالرشپ دے کر دنیا کے نامور تعلیمی اداروں میں بھیجا جائے گا، وہ اپنے سیاسی خیالات کی وجہ سے یوتھیے یا کسی غلط نام سے نہیں پہچانے جائیں گے تو تما م نوجوان بزرگ خواتین خوش ہوتے اور حکمرانوں کا ساتھ دیتے لیکن اس کے برعکس ان کی اکثریت کی محبوب جماعت کے انتخابی نشان بلے کو چھین کر ان کے ارمانوں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ بلّے کے چھینے جانے سے ان کی اکثر یت فطری طور پر غصے میں ہے۔ ایسے میں ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ مان جائیں گے ناممکن ہے معاشرہ مساوات، سیاسی آزادی ،معاشی خوشحالی ،قانون کی حکمرانی، انصاف اور اخلاقیات سے پروان چڑھتا ہے، ترقّی کی جانب گامزن رہتا ہے۔ مہذب معاشرے اخلاقی اقدارکی بھرپور پاسداری کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال جاپان کا ایک واقعہ ہے جا پان کے شہر ٹوکیو کے قریب دو جاپانی شہریوں کی گاڑیاں آپس میں ٹکڑاگئیں ،یہ ایک ٹریفک حادثہ تھا کسی کو چوٹ نہیں آئی لیکن گاڑیوں کو نقصان پہنچا ۔دونوں جاپانی افراد گاڑیوں سے باہر آئے ایک دوسرے کے سامنے رکوع کی صورت میں جھکے اور سلام کیا جو ان کا روایتی طریقہ کار ہے۔ ایک نے دوسرے سے کہا معاف کیجیے غلطی میری ہے۔ میں دونوں نقصانات کی ذمہ داری لیتا ہوںاور آپ کے اطمینان کے مطابق ادائیگی کروںگا۔ دوسرے نے کہا نہیں میں آپ سے معافی چاہتا ہوں غلطی میری ہے میں تمام نقصان کا ازالہ کروں گا۔ دونوں میں اتفاق نہ ہوسکا، انتہائی شائستہ انداز میںوہ دونوں ایک دوسرے کو اپنی اپنی جانب سے ادائیگی کے لیے اپنی آمادگی پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پولیس کی گاڑی آگئی پولیس اہلکار نے مسئلہ دریافت کیا۔ حادثے کی جگہ اور گاڑیوں کی سمت معلوم کرنے کے بعد نقشہ بنا کر رپورٹ تیا ر کی اور ایک شخص سے کہا کہ وہ ہرجانہ ادا کرے یعنی اس کی انشورنش کمپنی اداکرے، اس طرح معاملہ خو ش اسلوبی سے طے ہوا ۔ جاپان کی ترقی کے مختلف پہلو میں شامل یہ وہ اخلاقی اقدار ہیں جس کی وجہ سے جاپانی معاشرہ انتہائی مہذب اور خوشحال ہے ۔پاکستانی معاشرہ اس کے قطعی برعکس ہے اگر کوئی گاڑی ٹکڑا جائے تو سڑک پر لڑائی شروع ہوجاتی ہے بعض اوقات معاملہ گالم گلوچ سے بڑھ کر باقائدہ لڑائی تک پہنچ جاتا ہے اور حادثے سے بڑھ کر حادثہ ہو جاتا ہے ۔یہ رویہ زندگی کے بیشتر معاملا ت میں پایا جاتا ہے جھوٹ ،دھوکہ دہی ،بے ایمانی اور بدعنوانی معاشرے میں رچ بس گئی ہے ۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے مبلغ دین مل کر معاشرے میں بہتری نہیں لا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ صاف ستھرے مضبوط اداروں کا فقدان ہے۔ عوام کے نمائندے با اختیار ہوں اورعوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر کام کریں اورملک کے اداروں میں اصلاحا ت کریں تورفتہ رفتہ ایک مدّت کے بعد ان خامیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں قوموں کی خوشحالی وترقی کے بارے میں دنیابھر کے محققین نے جن عوامل پر زور دیا ہے اس میں عوام کی خوشحالی ، انہیں بااختیار بنانا ،قانون کی حکمرانی کے ذریعے معاشرے میں نظم و ضبط پید ا کرنا ملکی وسائل کا شفافیت کے ساتھ موثر استعمال شامل ہے۔ اس میں ایک اور اہم جز ایمانداری اور انصاف کا فروغ بھی ہے جس معاشرے میں اخلاقی اقدار کی پاسداری کی جاتی ہے، وہ معاشرے تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں یہ خواہش کی جاتی ہے کہ ہم جاپان ،کوریااور ملیشیا جیسی ترقی کریں گے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھی اس بات کا دعویٰ کرتی رہی۔ تین مرتبہ پیپلز پارٹی اور تین مرتبہ مسلم لیگ ن کی حکمرانی اور تقریباً ڈیڑھ سال دونوں جماعتوں کی مخلوط حکومت رہی جبکہ عمران خان کی ساڑھے تین سال حکومت رہی لیکن معاشرہ مجموعی طورپر خوشحالی اور ترقی سے محروم رہا۔ ایک وقت تھا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر بدعنوانی اور قومی خزانے پر ڈاکہ مارنے کا الزام لگاتی تھیں۔ اب تینوں بڑی جماعتیں یہی الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہی ہیں۔ پاکستان میں ایک نئی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ گزشتہ حکومت کی ناقص کار کردگی اور تحریک انصاف کو روکنے کے اقدامات کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن تیزی سے عوامی حمایت کھو رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اپنے اقتدار میں واپسی کے لیے ملک کے طاقتور حلقوں سے اپنے معاملات خفیہ طور پر طے کر لیے ہیں جس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی بات ہوگئی ہے ا س وقت پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور دیگر ہزاروں کارکن گرفتار ہیں۔ ان کے مقدمات کو تیزرفتاری سے چلا کر سزا دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس وقت پنجاب میں دفعہ ایک سو چوالیس لگادی گئی ہے، پہلے ہی پی ٹی آئی کی مہم میں رکاوٹ تھی، اب مزیدرکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے جبکہ ن لیگ اور پی پی کے لیے میدان کھلا ہے ۔پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چھین لیا گیا،انہیں کوئی نشان نہیں دیا گیا بلکہ ان کے امیدوار علیحدہ علیحدہ نشانات پر انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیںحیرت انگیزطور پر تمام رکاوٹوں کے باوجودپی ٹی آئی میدان میں ڈ ٹ گئی ہے موجودہ انتخابات کے بارے میں منصفانہ، غیر جانب داری اور شفافّیت کا کوئی امکان باقی نہیں ہے اس کے باوجود عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اس کھیل کو تبدیل کرسکتے ہیںاور بہتر مستقبل کی راہ تلاش کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی نااہلی کے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ قاسم سوری نے غیر قانونی طور پر اسمبلی توڑی۔ قاسم سوری کے لیے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے میں آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غدّاری کی کارروائی تجویز کی گئی ۔ کیوں نہ قاسم سوری کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی کارروائی کی جا ئے۔ یہ مقدمہ فی الحال تین ہفتے کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے، لیکن اگر سنگین غدّاری کا مقدمہ چلایا گیا تو یہی الزام عمران خان پر بھی عائد ہوسکتا ہے اور دونوں پر مقدمہ ثابت ہونے کی صورت میں سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ ایک امکان یہ ہے کہ عمران خان کو سائفر مقدمے میں بھی انتخابات سے قبل سزا سنائی جاسکتی ہے۔ عدالتی کارروائی کو میڈیا تک پہنچانے والے صحافیوں کا خیال ہے کہ جس تیزی سے بعض مقدمات چلائے جارہے ہیں ،اس میں کسی نہ کسی طرح عمران خان کو سز ا دیے جا نے کا امکا ن بڑھتا جارہاہے ۔یہ خبریں اس موقع پر سا منے آرہی ہے جب ملک میں انتخابات کی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر پنجاب میں دفعہ ایک سو چوالیس لگا دی گئی ہے۔