وجود

... loading ...

وجود

نوجوان آسانی سے مان سکتے ہیں !

پیر 29 جنوری 2024 نوجوان آسانی سے مان سکتے ہیں !

رفیق پٹیل

آج کل وزیر اعظم اور دیگر اعلیٰ عہدیدار بشمول فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر یونیورسٹی اور کالجوں کے طالب علموں سے خطاب کررہے ہیں اوران کے سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔ شاید یہ سمجھا جا رہا ہے نوجوان حکومت کے نقطہ نظر کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ ان خطابات سے یہ توقع رکھنا کہ نوجوان مان جائیں گے ممکن نہیں ہے ۔ یہ مشق بے نتیجہ ہے اس طرح کروڑوں نوجوانوں کو قائل نہیں کیا جاسکتاہے اگر اس کے بجائے وہ صرف ٹی وی پریہ اعلان کریں کہ یونیورسٹی سے فارغ تمام طلبہ کو فوراً ہی بہتر ملازمت ملے گی۔ کا لج تک تعلیم مفت ہوگی روٹی کی قیمت دس روپے اور پیٹرول ڈیڑھ سو روپے فی لیٹرہوگا اور بجلی سات روپے فی یونٹ ہوگی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ہر یونیورسٹی سے سو طلبہ کو میرٹ پر اسکالرشپ دے کر دنیا کے نامور تعلیمی اداروں میں بھیجا جائے گا، وہ اپنے سیاسی خیالات کی وجہ سے یوتھیے یا کسی غلط نام سے نہیں پہچانے جائیں گے تو تما م نوجوان بزرگ خواتین خوش ہوتے اور حکمرانوں کا ساتھ دیتے لیکن اس کے برعکس ان کی اکثریت کی محبوب جماعت کے انتخابی نشان بلے کو چھین کر ان کے ارمانوں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ بلّے کے چھینے جانے سے ان کی اکثر یت فطری طور پر غصے میں ہے۔ ایسے میں ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ مان جائیں گے ناممکن ہے معاشرہ مساوات، سیاسی آزادی ،معاشی خوشحالی ،قانون کی حکمرانی، انصاف اور اخلاقیات سے پروان چڑھتا ہے، ترقّی کی جانب گامزن رہتا ہے۔ مہذب معاشرے اخلاقی اقدارکی بھرپور پاسداری کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال جاپان کا ایک واقعہ ہے جا پان کے شہر ٹوکیو کے قریب دو جاپانی شہریوں کی گاڑیاں آپس میں ٹکڑاگئیں ،یہ ایک ٹریفک حادثہ تھا کسی کو چوٹ نہیں آئی لیکن گاڑیوں کو نقصان پہنچا ۔دونوں جاپانی افراد گاڑیوں سے باہر آئے ایک دوسرے کے سامنے رکوع کی صورت میں جھکے اور سلام کیا جو ان کا روایتی طریقہ کار ہے۔ ایک نے دوسرے سے کہا معاف کیجیے غلطی میری ہے۔ میں دونوں نقصانات کی ذمہ داری لیتا ہوںاور آپ کے اطمینان کے مطابق ادائیگی کروںگا۔ دوسرے نے کہا نہیں میں آپ سے معافی چاہتا ہوں غلطی میری ہے میں تمام نقصان کا ازالہ کروں گا۔ دونوں میں اتفاق نہ ہوسکا، انتہائی شائستہ انداز میںوہ دونوں ایک دوسرے کو اپنی اپنی جانب سے ادائیگی کے لیے اپنی آمادگی پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پولیس کی گاڑی آگئی پولیس اہلکار نے مسئلہ دریافت کیا۔ حادثے کی جگہ اور گاڑیوں کی سمت معلوم کرنے کے بعد نقشہ بنا کر رپورٹ تیا ر کی اور ایک شخص سے کہا کہ وہ ہرجانہ ادا کرے یعنی اس کی انشورنش کمپنی اداکرے، اس طرح معاملہ خو ش اسلوبی سے طے ہوا ۔ جاپان کی ترقی کے مختلف پہلو میں شامل یہ وہ اخلاقی اقدار ہیں جس کی وجہ سے جاپانی معاشرہ انتہائی مہذب اور خوشحال ہے ۔پاکستانی معاشرہ اس کے قطعی برعکس ہے اگر کوئی گاڑی ٹکڑا جائے تو سڑک پر لڑائی شروع ہوجاتی ہے بعض اوقات معاملہ گالم گلوچ سے بڑھ کر باقائدہ لڑائی تک پہنچ جاتا ہے اور حادثے سے بڑھ کر حادثہ ہو جاتا ہے ۔یہ رویہ زندگی کے بیشتر معاملا ت میں پایا جاتا ہے جھوٹ ،دھوکہ دہی ،بے ایمانی اور بدعنوانی معاشرے میں رچ بس گئی ہے ۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے مبلغ دین مل کر معاشرے میں بہتری نہیں لا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ صاف ستھرے مضبوط اداروں کا فقدان ہے۔ عوام کے نمائندے با اختیار ہوں اورعوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر کام کریں اورملک کے اداروں میں اصلاحا ت کریں تورفتہ رفتہ ایک مدّت کے بعد ان خامیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں قوموں کی خوشحالی وترقی کے بارے میں دنیابھر کے محققین نے جن عوامل پر زور دیا ہے اس میں عوام کی خوشحالی ، انہیں بااختیار بنانا ،قانون کی حکمرانی کے ذریعے معاشرے میں نظم و ضبط پید ا کرنا ملکی وسائل کا شفافیت کے ساتھ موثر استعمال شامل ہے۔ اس میں ایک اور اہم جز ایمانداری اور انصاف کا فروغ بھی ہے جس معاشرے میں اخلاقی اقدار کی پاسداری کی جاتی ہے، وہ معاشرے تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں یہ خواہش کی جاتی ہے کہ ہم جاپان ،کوریااور ملیشیا جیسی ترقی کریں گے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھی اس بات کا دعویٰ کرتی رہی۔ تین مرتبہ پیپلز پارٹی اور تین مرتبہ مسلم لیگ ن کی حکمرانی اور تقریباً ڈیڑھ سال دونوں جماعتوں کی مخلوط حکومت رہی جبکہ عمران خان کی ساڑھے تین سال حکومت رہی لیکن معاشرہ مجموعی طورپر خوشحالی اور ترقی سے محروم رہا۔ ایک وقت تھا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر بدعنوانی اور قومی خزانے پر ڈاکہ مارنے کا الزام لگاتی تھیں۔ اب تینوں بڑی جماعتیں یہی الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہی ہیں۔ پاکستان میں ایک نئی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ گزشتہ حکومت کی ناقص کار کردگی اور تحریک انصاف کو روکنے کے اقدامات کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن تیزی سے عوامی حمایت کھو رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اپنے اقتدار میں واپسی کے لیے ملک کے طاقتور حلقوں سے اپنے معاملات خفیہ طور پر طے کر لیے ہیں جس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی بات ہوگئی ہے ا س وقت پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور دیگر ہزاروں کارکن گرفتار ہیں۔ ان کے مقدمات کو تیزرفتاری سے چلا کر سزا دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس وقت پنجاب میں دفعہ ایک سو چوالیس لگادی گئی ہے، پہلے ہی پی ٹی آئی کی مہم میں رکاوٹ تھی، اب مزیدرکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے جبکہ ن لیگ اور پی پی کے لیے میدان کھلا ہے ۔پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چھین لیا گیا،انہیں کوئی نشان نہیں دیا گیا بلکہ ان کے امیدوار علیحدہ علیحدہ نشانات پر انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیںحیرت انگیزطور پر تمام رکاوٹوں کے باوجودپی ٹی آئی میدان میں ڈ ٹ گئی ہے موجودہ انتخابات کے بارے میں منصفانہ، غیر جانب داری اور شفافّیت کا کوئی امکان باقی نہیں ہے اس کے باوجود عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اس کھیل کو تبدیل کرسکتے ہیںاور بہتر مستقبل کی راہ تلاش کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی نااہلی کے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ قاسم سوری نے غیر قانونی طور پر اسمبلی توڑی۔ قاسم سوری کے لیے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے میں آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غدّاری کی کارروائی تجویز کی گئی ۔ کیوں نہ قاسم سوری کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی کارروائی کی جا ئے۔ یہ مقدمہ فی الحال تین ہفتے کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے، لیکن اگر سنگین غدّاری کا مقدمہ چلایا گیا تو یہی الزام عمران خان پر بھی عائد ہوسکتا ہے اور دونوں پر مقدمہ ثابت ہونے کی صورت میں سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ ایک امکان یہ ہے کہ عمران خان کو سائفر مقدمے میں بھی انتخابات سے قبل سزا سنائی جاسکتی ہے۔ عدالتی کارروائی کو میڈیا تک پہنچانے والے صحافیوں کا خیال ہے کہ جس تیزی سے بعض مقدمات چلائے جارہے ہیں ،اس میں کسی نہ کسی طرح عمران خان کو سز ا دیے جا نے کا امکا ن بڑھتا جارہاہے ۔یہ خبریں اس موقع پر سا منے آرہی ہے جب ملک میں انتخابات کی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر پنجاب میں دفعہ ایک سو چوالیس لگا دی گئی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر