... loading ...
عماد بزدار
خان صاحب کے لب و لہجے اور طرزِ گفتگو نے بحث کا رخ موڑ دیا ورنہ میاں صاحب کا مقدمہ کچھ ایسا کمزور بھی نہیں۔یہ مقدمہ ہے کیا؟ یہی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں مالی کرپشن کے بارے میں معاشرے کی حساسیت کو اس نہج پر نہ لے جایا جائے جہاں سماج کو ہیجان میں مبتلا کر کے فساد فی الارض کا موجب بنے ۔
تلمیذانہ عجز کے ساتھ ہمیشہ یہی گزارش کی تھی کہ اس میں تدریجی طریقہ کار اختیار کیا جائے ۔ مثلا اس کی ابتدا قاصد، کونسلرز، اور درجہ چہارم کے ملازمین سے کی جائے ۔اس کی وجوہات ہیں وہ یہ کہ وزیرِ اعظم ہوں یا دیگر مراعات یافتہ طبقہ، ان کا عام آدمی سے باہمی تعامل کے مواقع ہی محدود ہوتے ہیں۔ دفاتر میں یہی درجہ چہارم کے ملازمین ہیں جن سے روز عام آدمی کا سامنا ہوتا ہے ، واسطہ پڑتا ہے اور اپنے جائز و نا جائز کاموں کے لیے صاحب تک پہنچنے کا زینہ بنتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر کاری ضرب لگا کر کرپشن کی راہیں مسدود کی جا سکتی ہیں۔
کرپشن کے خلاف ہمارا استدلال اس جیسے فکری اساس پر کھڑی ہو تو زیادہ با معنی ہو سکتا ہے ورنہ پہلے دن ہی سے وزیرِ اعظم کے احتساب پر زور دینے کا مقصد سوائے سیاسی منفعت کشید کرنے کے اور کچھ نہیں۔
انسانی شخصیت دو رنگوں سے مرکب ہے
1۔ اس کا اخلاقی وجود
2۔ مادی وجود
کرپشن اور اس سے جڑے تمام مسائل مادی وجود سے جنم لیتے ہیں لیکن اگر انسان اپنے اخلاقی وجود کی تطہیر کا سامان کر لے تو مادی وجود کے تسکین کے لیے اٹھائے گئے جائز و نا جائز اقدامات کی تفہیم و تطبیق کی جا سکتی ہے اور یہ رائے ونڈ کے ایک چلے چار مہینے سے ممکن ہے ۔ میاں صاحب اس حوالے سے خوش قسمت ثابت ہوئے کہ وہ رہتے ہی رائے ونڈ میں ہیں۔
اب جہاں تک انسانی مادی وجود کا تعلق ہے تو اسے بھوک لگتی ہے ،پیاس محسوس کرتا ہے ، وہ آسائشوں کا متلاشی ہے ۔ ازمنہ قدیم سے لیکر دورِ حاضر کا جدید انسان ان تمام حقائق کا شاہد ہے ۔ جب ہم ان حقایق کو تسلیم کرتے ہیں تو اگلا مرحلہ ان ضروریات کی تسکین کا ہے ۔ اس تسکین کے لیے وہ کون سے ذرائع استعمال کرتا ہے یہ اُس مخصوص شخص کے ماحول و مواقع پر منحصر ہے ۔
مثلا خان صاحب کی آنکھیں پیدائشی طور پر صحیح طرح سے نہیں کھلتیں اسی لیے جہانِ رنگ و بو میں بکھرے ترغیبات و تحریصات سے فطری طور پر کم متاثر ہوتا ہے دوسری طرف جہاں تک میاں صاحب کا تعلق ہے اس معاملے میں اس کی آنکھیں پوری طرح کھلتی ہیں اس لیے لا محالہ طور پر وہ خان صاحب سے ایک قدم آگے بڑھ کر ان آسائشوں کے حصول کی کوششش کرتا ہے ۔اب میرے جیسا لکھنے والا اپنے تجزیئے میں اس حقیقت پہ بات کرتا ہے تو فطری طور پر اس کا فائدہ میاں صاحب کو پہنچتا ہے ۔ جواب میں ہمیں جانبداری کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔
مادی وجود میں جس چیز کو مرکزیت حاصل ہے وہ پیٹ ہے ۔ پیٹ کے ساتھ جو لفظ استعمال ہوتا رہا وہ پوجا ہے یعنی پیٹ کی خاطر ایک انسان جو تگ و دو کرتا ہے وہ(جائز نا جائز کے بحث سے قطع نظر) عبادت میں شمار ہوتا ہے مجاہدے اور ریاضتوںکی جو متروک اصطلاحیں ہمارے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں در آئی ہیں یہ ہندووانہ تصوف سے متاثر ہو کر لی گئی ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ورنہ ہمارے اہلِ دانش نے نظم اور نثر ہر دو صنف میں اسے آدمیت کا ترجیح اوّل قرار دیا کہ
پہلے پیٹ پوجا
پھر کم دوجا
اب اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور زاویئے سے دیکھتے ہیں کہ پیٹ میں جانے والا ہر لقمہ حلال صالح خون میں نہیں تبدیل ہوتا ہے ۔ نظامِ انہضام کے چھلنی سے گزرتے ہوئے اس حلال لقمے کا بیشتر حصہ مختلف کثافتوں میں بدلتا ہے ۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں شروع دن سے بنی نوع انساں اگر وہ کثافتیں اپنے وجود کے اندر گوارا کرتا ہے تو سرمایہ دارانہ سماج میں کرپشن کے بارے میں اتنی بیگانگی کیوں؟ اب کون ہے جو اس برہانِ قاطع کے بعد دلیل مانگے۔
میاں صاحب کے مقدمے کو اس استدلال سے بھی تقویت ملتی ہے جو ایک عربی محاورے میں بیان کی گئی کہ کل شئی یرجع الی الاصل ۔۔۔۔ آج سے پینتالیس سال پہلے جن لوگوں نے بیرے کی پگڑی پہنا کر ان کو حبالہ عقد میں لے لیا گھوم پھر کر آج اپنی عمر کے آخری سیاسی سفر میں میاں صاحب اپنی اصل کی طرف لوٹ آیا۔ ثابت ہوا میاں صاحب کا طاقتوروں کے ساتھ کیتھولک نکاح ہوچکا جس میں وقتی ناراضگی ضرور ہوسکتی لیکن علیحدگی قابلِ تنسیخ عمل ہے۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر آپ میاں صاحب کے سیاسی سفر پر نظر ڈالیں تو یہ سارا سفر ان کی ترقی و خوشحالی کا سفر ہے ۔ تعصب کے مارے کچھ اذہان ہوسکتا ہے میری اس بات پر اعتراض اٹھائیں کہ میاں صاحب کی ترقی و خوشحالی کا ملکی ترقی سے کیا تعلق ہے ، تو ان کو بتادوں کہ غربت اور عسرت و افلاس مشیت ایزدی نہیں یہ ہماری اپنی کاہلی ہوتی ہے جس کو جائزیت بخشنے کے لئے ہم جواز گھڑتے ہیں۔ خیر بات آگے بڑھاتے ہوئے میں کہونگا ملک کو وہی وہی بندہ ترقی دلا سکتا ہے جو سب سے پہلے خود اس قابل ہو کہ اپنی حالت بہتر کرے جو اپنی حالت بہتر کرنے پر قادر نہیں اس سے کیسے اور کیوں توقع رکھی جائے کہ وہ قوم کی دکھوں کی درمانی کرے ؟
میاں صاحب کی قوت پرواز دیکھیں کہ پانامہ و لندن فلیٹس تک ان کے نام کا ڈنکا بجتا نظر آتا ہے دوسری طرف خان صاحب کے اثاثے دوران وزارت بڑھنے کے بجائے کم ہوئے ۔ میاں صاحب اور اس کی بیٹی اپنے منصب کے تقاضے کے مطابق لینڈ کروز اٹھوا لئے اور خان صاحب نے قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہم عامیوں کی طرح محض گھڑی پر اکتفا کرلیا۔ ہم جیسے ترقی پزیر معاشروں ریاستوں میں یہ ضروری ہے کہ کچھ لوگ دکھا سکیں کہ وہ قاعدوں اور قانون سے بالاتر ہیں ورنہ رٹ آف ا سٹیٹ کی بحالی ہمارے جیسے معاشروں میں ممکن نہیں ۔ قانون کے دائرے میں قید کوئی بندہ کیسے یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ قوم کو امریکہ و مغرب کی غلامی سے نجات دلا
سکتا ہے ؟
ہیجان کے شکار اس سماج میں کوئی بھی بندہ تیار نہیں کہ ٹھنڈے دل سے بیٹھ کر ان اقدامات کا گوشوارہ مرتب کر سکے اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی تنگنائے سے نکل کر ملک کے وسیع افق پر نظر ڈال سکے ۔
دقت مگر یہ ہے کہ خان صاحب اور اس کے حامیوں سے آپ مکالمہ نہیں کر سکتے، آپ ان سے صرف اتفاق کر سکتے ہیں۔ جہاں سماج بحیثیت مجموعی دلیل کو یوں طلاقِ مغلظہ دے کر یکسر منہ موڑ لے تو پھر وہاں یہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے ۔
آخر میں خان صاحب کی خدمت میں ایک شعر کہ
تری دعا ہے کہ ہو تری آرزو پوری
میری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے