وجود

... loading ...

وجود

مودی نے ہندوستان کا سیکولر تشخص تباہ کر دیا!

جمعه 26 جنوری 2024 مودی نے ہندوستان کا سیکولر تشخص تباہ کر دیا!

ریاض احمدچودھری

مودی نے بر سر اقتدار آنے کے بعد ہندوستان کے نام نہاد جمہوری اور سیکولر ملک کے تشخص کو تباہ کر دیا۔ مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیا اور اس مقبوضہ وادی میں وحشیانہ فوجی مظالم میں شدت پیدا کی جو پہلے ہی تین دہائیوں سے غاصب بھارتی فوج کے ہاتھوں سسک رہا تھا۔ دسمبر 2019 میں، مودی نے شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) میں محض مسلم تارکین وطن پر پابندی لگانے کیلئے قانون سازی کی،جس نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا۔ اس احتجاج میں دہلی پولیس نے 35 سے زیادہ پر امن مسلم مظاہرین کو شہید کیا۔
بھارت تنگ نظر ریاست ہے اور اس کا سیکولر تشخص دنیا کے سامنے تباہ ہو چکا ہے ۔ مودی کے مسلم دشمنی کے احکامات بھارت کی بقاء اور سلامتی کے لئے اعلانیہ خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔موجودہ حالات میں پاکستان کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ بہترین اور مضبوط سفارتکاری کے ذریعے تمام بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر کو بھرپور اور موثر طریقے سے اجاگر کر سکتا ہے۔ بھارت کی اب یہ سب سے بڑی مشکل ہے کہ وہاں کوئی بھی اقلیت نہ محفوظ ہے نہ ہی ان کی ملی وثقافتی تشخص کا مستقبل محفوظ ۔آج بھارت ایک مکمل ہندو دیش بن چکا ہے۔ اب دنیا خود دیکھ لے کہ بھارت مودی کی قیادت میں کس خطرناک راستہ پر چل نکلا ہے ۔موہن بھگت سنگھ نے جب سے آرایس ایس کی صدارت کا عہدہ سنبھالا کوئی روز بھارت میں ایسا شائد ہی گزرتا ہوگا جب دیش بھر میں کہیں ‘گاؤ رکھشا’ کے نام پر کسی مسلمان کو انتہا پسند ہندو موت کے گھاٹ نہ اتاردیتے ہوں ۔اب تو بی جے پی نے بھارت کی اہم ریاست اتر پردیش کا ریاستی کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا تو کیا اب دنیا یہ سمجھ لے کہ بھارت میں اعلیٰ ترین عدالتوں کی حیثیت بالکل نہیں رہی یعنی بھارت کے سیکولر چہرہ پر بہت بری طرح سے کالک مل دی گئی اب وہاں اقلیتوں کا کیا مستقبل ہے۔ مودی سرکار نے بھارت سے سیکولرازم کا جنازہ نکال کر اب دیش کے مستقبل کے لئے کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ بھارت کے قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے مقام پر بنائے گئے رام مندر کا افتتاح کرکے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔یوں مودی رواں برس ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کے لیے بھارت کی 80 فیصد ہندو عوام کے مذہبی جذبات کا استعمال کر رہے ہیں۔
نریندر مودی نے درحقیقت رام جنم بھومی مندر نہیں بلکہ ہندو راشٹر کا افتتاح کیا ہے جب کہ اس موقع پر رام مندر میں 51 انچ بلند رام کی مورتی کی ”پران پرتھشٹا” کی گئی۔ایودھیا میں 7 ہزار خصوصی مہمانوں اور ہزاروں عقیدت مندوں کے سامنے خصوصی پوجا پاٹ کا اہتمام کیا گیا۔مبصرین کے مطابق ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر دراصل ہندوؤں کے صدیوں پرانے ایک مطالبے کی تکمیل ہے۔ یہ کام وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں ہوا ہے تو وہ ان کو اس کے ثمرات بھی ملیں گے۔ وزیرِ اعظم نے جس طرح خود کو ایک راسخ العقیدہ ہندو کے طور پر پیش کیا اور مندر کے افتتاح پر ہونے والی پوجا میں شرکت سے قبل 11 دن کی سخت مذہبی عبادات کی ادائیگی کے دوران کئی مندروں کے درشن کیے۔ اس سے ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
معروف جریدے دی گارڈین نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر دراصل 2014 میں مودی کے اقتدار میں آتے ہی بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی مہم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت کی دیگر سیاسی جماعتوں نے مودی کی سیاسی چال کو بے نقاب کرتے ہوئے مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت سے انکار کردیا۔بی جے پی کو امید ہے کہ وہ رام مندر کے افتتاح کے بعد لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 400 جیتنے کے اپنے ہدف کو حاصل کر لے گی۔ 2019 میں بی جے پی نے 303 سیٹیں جیتی تھیں۔سیاسی سطح پر اگر مودی منتخب ہو کر مسلسل تیسری بار وزیرِ اعظم بنتے ہیں تو وہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد کانگریس کے علاوہ کسی اور جماعت سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیرِ اعظم ہوں گے جو یہ ریکارڈ بنائیں گے۔
رام جنم بھومی نامی یہ مندر صدیوں پرانی بابری مسجد کی جگہ بنایا جا رہا ہے جسے 1992 میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسمار کر دیا تھا اور جس کے نتیجے میں پھوٹنے والے مسلم کش فسادات میں دو ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔ اس واقعے نے سیکولر سیاسی نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔لیکن مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے اس متنازع مندر کی تعمیر دہائیوں سے جاری مہم میں ایک تاریخی لمحہ ہے۔ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام کا جنم سات ہزار سال قبل ایودھیا کے اسی مقام پر ہوا تھا جہاں 16ویں صدی کے ایک مسلمان شہنشاہ بابر نے مندر گرا کر مسجد تعمیر کروائی، جسے بابری مسجد کہا جاتا تھا۔بی جے پی نے عوامی مہم میں ایک اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے آخرکار مسجد کو مسمار کر دیا گیا۔پارٹی کے سینیئر رہنما لال کشن اڈوانی نے اس مہم کے لیے ملک گیر رتھ نکالی تھی جس کا مقصد بابری مسجد کو مسمار کرنا تھا۔دوسری جانب شہر کی مسلم آبادی خوف کا شکار نظر آتی ہے۔ بھارتر کی شمالی ریاست اتر پردیش میں واقع شہر ایودھیا کی آبادی تقریباً 30 لاکھ ہے، جن میں سے پانچ لاکھ مسلمان ہیں۔ ان مسلمانوں کی تعداد کا کم از کم دسواں حصہ نئے تعمیر شدہ رام مندر کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہے اور ان میں سے کچھ رہائشیوں نے کہا ہے کہ وہ اب بھی ہندوؤں، خاص طور پر یاتریوں سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ کوئی بھی واقعہ ممکنہ طور پر کسی بڑے واقعے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

بریک تھروکا امکان وجود جمعرات 21 نومبر 2024
بریک تھروکا امکان

انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی وجود بدھ 20 نومبر 2024
انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی

ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ وجود منگل 19 نومبر 2024
ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر