وجود

... loading ...

وجود

رام مندر کا افتتاح اور مودی کی سیاست

جمعرات 25 جنوری 2024 رام مندر کا افتتاح اور مودی کی سیاست

حمیداللہ بھٹی

سیاسی کامیابیوں کے لیے اچھی اداکاری اورایک ایسی دلچسپ کہانی بھی ضروری ہے جو اکثریت کوپسندآئے۔ نریندرا مودی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک ایسا شاطر سیاستدان ہے جس کی اداکاری اورمذہبی لبادے میں لپٹی دلچسپ کہانی پر ملک کی اکثریت سر دُھننے لگی ہے۔ وہ موقع محل کے مطابق ایسی گفتگو کرتاہے جس سے کہانی میں مذہب اور جنونیت کے سب رنگ نمایاں ہوتے ہیں ۔تبھی بھارت جیسے ذات پات اور مذہبی تقسیم والے ملک میں مسلسل کامیابیاں ہے۔ اب تو کوئی ابہام نہیں رہا کہ رواں برس ہونے والے عام انتخابات میں بھی اُس کی کامیابی نوشتہ دیوار ہے ۔شاید اسی وجہ سے جب اپوزیشن کی طرف سے نفرت کی سیاست ختم کرنے کی تجاویز آتی ہیں تو وہ غورکرنے کا بھی تکلف نہیں کرتے بلکہ پایہ حقارت سے ٹھکرادیتے ہیں کیونکہ اُسے بخوبی معلوم ہے کہ اگر ملک کی خاطر نفرت کی سیاست چھوڑ دی اور مفروضوں پر بات کرنے کے بجائے سچ بولنا شروع کر دیا تو سیاسی کامیابیاں ناکامیوں میں ڈھل سکتی ہیں۔ اسی لیے شب وروز نفرت کو فروغ دینے اور مفروضوں پر مبنی خواب فروخت کرنے میںمصروف ہیں مگر یہ سیاست ملک میں مذہبی جنونیت کی ایسی آگ لگانے کا باعث ہے جس سے ملک کا بڑاحصہ سُلگنے لگا ہے مگر مودی بددستور آگ کوالائو بنانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہے۔ رواں برس ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں جس سے قبل اترپردیش کے شہر ایودھیامیں بابری مسجد کو گرانا اور رام جنم بھومی مندر کا افتتاح ثابت کرتا ہے کہ وہ نفرت کی سیاست کو فروغ دینے اور اکثریت کو خوش رکھنے کے فوائدپر یکسوہیں۔ اکثریت کوخوش رکھنے اور اقتدار میں رہنے کی اُن کاوشیں رام مندرکے افتتاح سے کامیابی سے ہمکنارہوتی دکھائی دیتی ہیں۔
اُترپریش کے شہر کا نام پہلے فیض آبادتھا جسے بدل کر ایودھیا رکھا گیا جس کا مقصد اسلامی نام کے بجائے ایسا نام رکھنا تھا جس سے ہندو تاثر اُجاگر ہو یہاں 16 ویںصدی میں تعمیر کی گئی بابری مسجد ایک ایسی عمارت تھی جونہ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ تھی بلکہ سیاحوں کے لیے بھی دلچسپی کا باعث تھی۔ دنیا بھر سے اِسے سیاح دیکھنے آتے لیکن گزشتہ چھ سات عشروں سے ہندوئو اِس کوشش میں تھے کہ کسی طرح اِس تاریخی مسجدکو گراکر رام جنم بھومی مندر بنادیا جائے حالانکہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرتے وقت کانگرسی رہنما پنڈت جواہر لعل نہرونے ملک کو سیکولر بنانے کا اعلان کیاتھا ،اسی بناپرکئی دہائیوں تک بی جے پی رام مندربنانے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکی۔ اِس مسجدمیں 1949 تک باجماعت نماز ہوتی رہی۔ 22؍دسمبر1949کو چند ہندوفرقہ پرستوں نے بابری مسجد کے اندر بت رکھ کر یہ تاثر دیا کہ وشنو کے رام چندرجی نے خود اپنی جنم بھومی ظاہر کردی ہے۔ اسی رات مسجد میں مورتی رکھ کرہندوئوں نے عبادت کا آغار کر دیا۔ سیکولرہونے کے دعویداربطوروزیراعظم راجیو گاندھی نے تو اکثریت کو خوش کرتے ہوئے مسجد میں ہندوئوں کو عام پوجا کی اجازت دے دی۔ لال کرشن ایڈوانی کو جب بی جے پی کی قیادت ملی تو18ویں صدی میںرامندی فرقے کی طرف سے پھیلائی اِس کہانی کوہندوئوں کے ذہن میں راسخ کرنے پرخاص طورپر کام ہوا کہ رام چندرجی ایودھیامیں پیداہوئے ہیں یوں بابری مسجد کو رام مندربنانے کی تحریک کو تقویت اور بی جے پی مقبولیت ملتی گئی ۔
آخرکارچھ دسمبر1992 کوجنونی ہندوئوں کے ہجوم نے اِس تاریخی مسجد کوشہیدکردیا جس کا کیس عدالت میں بھی چلا مگر ہندوئوں کے خوف کا شکار ججز نے رام کی جائے پیدائش کے حوالے سے کوئی ثبوت نہ ملنے کا اعتراف کرنے کے باوجوداِس مقام پر مندر بنانے کی اجازت دیتے ہوئے مسلمانوں کو متبادل جگہ دینے کا متنازع فیصلہ سنادیا۔ عدلیہ کی طرف سے گھنائونے فعل کے ذمہ داران کو بری کرنے اور ثبوت نہ ہونے کے باوجودمسجد کی جگہ مندربنانے کی اجازت جیسامتنازع فیصلہ حکومتی آشیرباد سے ممکن ہوا ۔ دراصل 2014میںمذہبی جنونی نریندرامودی کے اقتدار میں آنے سے رام مندر بنانے کی تحریک نے جنون کی شکل اختیار کر لی کیونکہ مودی نے بھارت سے اسلامی تہذیب کے نشانات مٹانے کو اپنی حکومت کا اولیں اور بنیادی مقصد بنالیا۔ عدالتی فیصلہ حکومت اور اکثریت کے دبائو سے آیا۔اب رام جنم بھومی مندر کا افتتاح کر دیاگیاہے۔ اِس تقریب کوجنونی حکومت نے یادگار بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ مستقبل میں سیاسی فوائد حاصل کرسکے جس میں پوری طرح کامیاب دکھائی دیتی ہے ۔عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے فلمی ستارے اور کرکٹ کے کھیل سے وابستہ بڑے نام امیتابھ بچن ،سچن ٹنڈولکر،انیل کمبلے،عالیہ بھٹ،اور کترینہ کیف سمیت کئی اہم لوگ خاص طور پر مدعو کیے گئے۔ اس طرح سیاست کے ساتھ کھیل اور شوبز کو یکجا کر دیا گیا علاوہ ازیں عام تعطیل بھی کی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ گھروں میں بھی تقریب دیکھ سکیں۔رام مندر کے افتتاح سے پہلے راجھستان میں ریاستی حکومت نے مذبح خانے بند کرنے کے ساتھ گوشت اور مچھلی کی دکانیں نہ صرف بند کرادیں بلکہ اپنے اِس عمل کی خاص طور پر تشہیر بھی کی تاکہ پورے ملک کو معلوم ہوجائے کہ ریاستی حکومت گوشت اور مسلمانوں دونوں سے نفرت کرتی ہے اب سوال یہ ہے کہ رام مندر کے افتتاح سے نریندر مودی کی سیاست پر کیا اثر ہوگا؟ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی اداکاری کام کر گئی ہے اور وہ مستقبل میں بھی سیاسی طورپر کامیاب رہیںگے ۔
مودی ایک ایسا سیاسی اداکار ہے جس کی سیاسی کامیابیوں میں مذہبی نفرت کو کلیدی مقام حاصل ہے۔ اُن کے دورِ حکومت میں دارالحکومت دہلی بھی مذہبی فسادات کی نذر ہوا ۔کشمیر کی آئینی حیثیت محض اِس بناپر ختم کردی گئی کہ یہ ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دورمیں نفرت پر مبنی خیالات رکھنے والا یہ جنونی ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قتل میں ملوث رہا ہے جس پر امریکہ سمیت کئی ممالک نے ویزہ دینے پرپابندی بھی لگائی ۔ اِس پابندی کو وزیراعظم بننے پر ختم کیا گیا ۔مودی نفرت پر مبنی خیالات سے اب بھی باز آنے کو تیارنہیں ۔وہ اب بھی مذہبی کہانی پر سیاسی اداکاری دکھا کر اکثریت کے دل لبھانے کے چکر میں ہے۔ رام مندرکا افتتاح واضح ثبوت ہے۔ نرگسیت کا مارایہ شخص ہر کارنامے کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کرتا ہے پاکستان پر حملہ کرکے تواُس نے دیکھ لیا کہ یہاں بات بننا ممکن نہیں کیونکہ اِس دوران اُسے منہ کی کھانا پڑی۔ اسی لیے اب پاکستان سے نفرت توظاہر کرتاہے لیکن عملی اقدام سے محتاط ہے اور کچھ نیا اور منفرد کے چکر میںاب آمدہ الیکشن رام جنم بھومی کے افتتاح کے ذریعے جیتناچاہتاہے ۔اِس طرح بی جے پی میںاُس کا نہ صرف کوئی متبادل نہیں رہا بلکہ سیاست میں بھی مات دینے کے کوئی قابل نہیں رہ گیا۔حالانکہ یہ سیاسی اداکار اپنے سوا کسی اپوزیشن رہنما کو مندر میں بھی دیکھنانہیں چاہتا بلکہ رکاوٹیں ڈالتا ہے ،یہ جنونی اقلیتوں اور اپوزیشن پر دبائو اور جبر کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ایک طرف مودی رام کی مورتی نصب کرنے کے بعد خود وہیں پوجاپاٹ کرتاہے مگر راہول گاندھی نے اپنی انتخابی مُہم کا آغاز جب آسام میں موجود وہاں کے ایک پیشوا کے مندر اور آخری آرام گاہ پر حاضری سے کرنے کی کوشش کی تو سیکورٹی خدشات کی آڑ میں حکومتی احکامات پر انتظامیہ نے بزور روک دیا۔مباداوہ ہندوئوں کے دل جیت لے۔ بابری مسجد کو گراکررام مندرکی تعمیر سے ہندوئوں کو نیا حوصلہ ملا ہے اور اِس ایک منصوبے سے مودی کا تیسری باراقتدار میں آنے کا خواب پورا ہوسکتاہے مگر خدشہ ہے کہ پورے ملک میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ وسعت اختیارکرے گی جس کی جھلک رام مندر کی تعمیر سے نظر آئی کیونکہ تقریب سے قبل ایودھیااور اُس کے قرب و جوار میں آبادخوف کا شکار مسلمان نہ صرف گھروں میںمحصورہوکررہ گئے بلکہ عورتوں اور بچوں کو دوسرے شہروں میں آباد رشتہ داروں کے پاس بھیج دیا۔ اسی بناپراگر یہ کہا جائے کہ رام مند کی تعمیر دورِ حاضر کی نازی سوچ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کے مسئلہ میں ناکام وجود جمعه 01 نومبر 2024
اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کے مسئلہ میں ناکام

آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟ وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟

ایرانی میزائل پروگرام: تاریخ، ترقی اور موجودہ چیلنجز وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
ایرانی میزائل پروگرام: تاریخ، ترقی اور موجودہ چیلنجز

مودی حکومت کی تخریب کاری کی عالمی کارروائیاں وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
مودی حکومت کی تخریب کاری کی عالمی کارروائیاں

یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی! وجود بدھ 30 اکتوبر 2024
یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر