... loading ...
حمیداللہ بھٹی
سیاسی کامیابیوں کے لیے اچھی اداکاری اورایک ایسی دلچسپ کہانی بھی ضروری ہے جو اکثریت کوپسندآئے۔ نریندرا مودی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک ایسا شاطر سیاستدان ہے جس کی اداکاری اورمذہبی لبادے میں لپٹی دلچسپ کہانی پر ملک کی اکثریت سر دُھننے لگی ہے۔ وہ موقع محل کے مطابق ایسی گفتگو کرتاہے جس سے کہانی میں مذہب اور جنونیت کے سب رنگ نمایاں ہوتے ہیں ۔تبھی بھارت جیسے ذات پات اور مذہبی تقسیم والے ملک میں مسلسل کامیابیاں ہے۔ اب تو کوئی ابہام نہیں رہا کہ رواں برس ہونے والے عام انتخابات میں بھی اُس کی کامیابی نوشتہ دیوار ہے ۔شاید اسی وجہ سے جب اپوزیشن کی طرف سے نفرت کی سیاست ختم کرنے کی تجاویز آتی ہیں تو وہ غورکرنے کا بھی تکلف نہیں کرتے بلکہ پایہ حقارت سے ٹھکرادیتے ہیں کیونکہ اُسے بخوبی معلوم ہے کہ اگر ملک کی خاطر نفرت کی سیاست چھوڑ دی اور مفروضوں پر بات کرنے کے بجائے سچ بولنا شروع کر دیا تو سیاسی کامیابیاں ناکامیوں میں ڈھل سکتی ہیں۔ اسی لیے شب وروز نفرت کو فروغ دینے اور مفروضوں پر مبنی خواب فروخت کرنے میںمصروف ہیں مگر یہ سیاست ملک میں مذہبی جنونیت کی ایسی آگ لگانے کا باعث ہے جس سے ملک کا بڑاحصہ سُلگنے لگا ہے مگر مودی بددستور آگ کوالائو بنانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہے۔ رواں برس ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں جس سے قبل اترپردیش کے شہر ایودھیامیں بابری مسجد کو گرانا اور رام جنم بھومی مندر کا افتتاح ثابت کرتا ہے کہ وہ نفرت کی سیاست کو فروغ دینے اور اکثریت کو خوش رکھنے کے فوائدپر یکسوہیں۔ اکثریت کوخوش رکھنے اور اقتدار میں رہنے کی اُن کاوشیں رام مندرکے افتتاح سے کامیابی سے ہمکنارہوتی دکھائی دیتی ہیں۔
اُترپریش کے شہر کا نام پہلے فیض آبادتھا جسے بدل کر ایودھیا رکھا گیا جس کا مقصد اسلامی نام کے بجائے ایسا نام رکھنا تھا جس سے ہندو تاثر اُجاگر ہو یہاں 16 ویںصدی میں تعمیر کی گئی بابری مسجد ایک ایسی عمارت تھی جونہ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ تھی بلکہ سیاحوں کے لیے بھی دلچسپی کا باعث تھی۔ دنیا بھر سے اِسے سیاح دیکھنے آتے لیکن گزشتہ چھ سات عشروں سے ہندوئو اِس کوشش میں تھے کہ کسی طرح اِس تاریخی مسجدکو گراکر رام جنم بھومی مندر بنادیا جائے حالانکہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرتے وقت کانگرسی رہنما پنڈت جواہر لعل نہرونے ملک کو سیکولر بنانے کا اعلان کیاتھا ،اسی بناپرکئی دہائیوں تک بی جے پی رام مندربنانے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکی۔ اِس مسجدمیں 1949 تک باجماعت نماز ہوتی رہی۔ 22؍دسمبر1949کو چند ہندوفرقہ پرستوں نے بابری مسجد کے اندر بت رکھ کر یہ تاثر دیا کہ وشنو کے رام چندرجی نے خود اپنی جنم بھومی ظاہر کردی ہے۔ اسی رات مسجد میں مورتی رکھ کرہندوئوں نے عبادت کا آغار کر دیا۔ سیکولرہونے کے دعویداربطوروزیراعظم راجیو گاندھی نے تو اکثریت کو خوش کرتے ہوئے مسجد میں ہندوئوں کو عام پوجا کی اجازت دے دی۔ لال کرشن ایڈوانی کو جب بی جے پی کی قیادت ملی تو18ویں صدی میںرامندی فرقے کی طرف سے پھیلائی اِس کہانی کوہندوئوں کے ذہن میں راسخ کرنے پرخاص طورپر کام ہوا کہ رام چندرجی ایودھیامیں پیداہوئے ہیں یوں بابری مسجد کو رام مندربنانے کی تحریک کو تقویت اور بی جے پی مقبولیت ملتی گئی ۔
آخرکارچھ دسمبر1992 کوجنونی ہندوئوں کے ہجوم نے اِس تاریخی مسجد کوشہیدکردیا جس کا کیس عدالت میں بھی چلا مگر ہندوئوں کے خوف کا شکار ججز نے رام کی جائے پیدائش کے حوالے سے کوئی ثبوت نہ ملنے کا اعتراف کرنے کے باوجوداِس مقام پر مندر بنانے کی اجازت دیتے ہوئے مسلمانوں کو متبادل جگہ دینے کا متنازع فیصلہ سنادیا۔ عدلیہ کی طرف سے گھنائونے فعل کے ذمہ داران کو بری کرنے اور ثبوت نہ ہونے کے باوجودمسجد کی جگہ مندربنانے کی اجازت جیسامتنازع فیصلہ حکومتی آشیرباد سے ممکن ہوا ۔ دراصل 2014میںمذہبی جنونی نریندرامودی کے اقتدار میں آنے سے رام مندر بنانے کی تحریک نے جنون کی شکل اختیار کر لی کیونکہ مودی نے بھارت سے اسلامی تہذیب کے نشانات مٹانے کو اپنی حکومت کا اولیں اور بنیادی مقصد بنالیا۔ عدالتی فیصلہ حکومت اور اکثریت کے دبائو سے آیا۔اب رام جنم بھومی مندر کا افتتاح کر دیاگیاہے۔ اِس تقریب کوجنونی حکومت نے یادگار بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ مستقبل میں سیاسی فوائد حاصل کرسکے جس میں پوری طرح کامیاب دکھائی دیتی ہے ۔عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے فلمی ستارے اور کرکٹ کے کھیل سے وابستہ بڑے نام امیتابھ بچن ،سچن ٹنڈولکر،انیل کمبلے،عالیہ بھٹ،اور کترینہ کیف سمیت کئی اہم لوگ خاص طور پر مدعو کیے گئے۔ اس طرح سیاست کے ساتھ کھیل اور شوبز کو یکجا کر دیا گیا علاوہ ازیں عام تعطیل بھی کی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ گھروں میں بھی تقریب دیکھ سکیں۔رام مندر کے افتتاح سے پہلے راجھستان میں ریاستی حکومت نے مذبح خانے بند کرنے کے ساتھ گوشت اور مچھلی کی دکانیں نہ صرف بند کرادیں بلکہ اپنے اِس عمل کی خاص طور پر تشہیر بھی کی تاکہ پورے ملک کو معلوم ہوجائے کہ ریاستی حکومت گوشت اور مسلمانوں دونوں سے نفرت کرتی ہے اب سوال یہ ہے کہ رام مندر کے افتتاح سے نریندر مودی کی سیاست پر کیا اثر ہوگا؟ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی اداکاری کام کر گئی ہے اور وہ مستقبل میں بھی سیاسی طورپر کامیاب رہیںگے ۔
مودی ایک ایسا سیاسی اداکار ہے جس کی سیاسی کامیابیوں میں مذہبی نفرت کو کلیدی مقام حاصل ہے۔ اُن کے دورِ حکومت میں دارالحکومت دہلی بھی مذہبی فسادات کی نذر ہوا ۔کشمیر کی آئینی حیثیت محض اِس بناپر ختم کردی گئی کہ یہ ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دورمیں نفرت پر مبنی خیالات رکھنے والا یہ جنونی ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قتل میں ملوث رہا ہے جس پر امریکہ سمیت کئی ممالک نے ویزہ دینے پرپابندی بھی لگائی ۔ اِس پابندی کو وزیراعظم بننے پر ختم کیا گیا ۔مودی نفرت پر مبنی خیالات سے اب بھی باز آنے کو تیارنہیں ۔وہ اب بھی مذہبی کہانی پر سیاسی اداکاری دکھا کر اکثریت کے دل لبھانے کے چکر میں ہے۔ رام مندرکا افتتاح واضح ثبوت ہے۔ نرگسیت کا مارایہ شخص ہر کارنامے کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کرتا ہے پاکستان پر حملہ کرکے تواُس نے دیکھ لیا کہ یہاں بات بننا ممکن نہیں کیونکہ اِس دوران اُسے منہ کی کھانا پڑی۔ اسی لیے اب پاکستان سے نفرت توظاہر کرتاہے لیکن عملی اقدام سے محتاط ہے اور کچھ نیا اور منفرد کے چکر میںاب آمدہ الیکشن رام جنم بھومی کے افتتاح کے ذریعے جیتناچاہتاہے ۔اِس طرح بی جے پی میںاُس کا نہ صرف کوئی متبادل نہیں رہا بلکہ سیاست میں بھی مات دینے کے کوئی قابل نہیں رہ گیا۔حالانکہ یہ سیاسی اداکار اپنے سوا کسی اپوزیشن رہنما کو مندر میں بھی دیکھنانہیں چاہتا بلکہ رکاوٹیں ڈالتا ہے ،یہ جنونی اقلیتوں اور اپوزیشن پر دبائو اور جبر کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ایک طرف مودی رام کی مورتی نصب کرنے کے بعد خود وہیں پوجاپاٹ کرتاہے مگر راہول گاندھی نے اپنی انتخابی مُہم کا آغاز جب آسام میں موجود وہاں کے ایک پیشوا کے مندر اور آخری آرام گاہ پر حاضری سے کرنے کی کوشش کی تو سیکورٹی خدشات کی آڑ میں حکومتی احکامات پر انتظامیہ نے بزور روک دیا۔مباداوہ ہندوئوں کے دل جیت لے۔ بابری مسجد کو گراکررام مندرکی تعمیر سے ہندوئوں کو نیا حوصلہ ملا ہے اور اِس ایک منصوبے سے مودی کا تیسری باراقتدار میں آنے کا خواب پورا ہوسکتاہے مگر خدشہ ہے کہ پورے ملک میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ وسعت اختیارکرے گی جس کی جھلک رام مندر کی تعمیر سے نظر آئی کیونکہ تقریب سے قبل ایودھیااور اُس کے قرب و جوار میں آبادخوف کا شکار مسلمان نہ صرف گھروں میںمحصورہوکررہ گئے بلکہ عورتوں اور بچوں کو دوسرے شہروں میں آباد رشتہ داروں کے پاس بھیج دیا۔ اسی بناپراگر یہ کہا جائے کہ رام مند کی تعمیر دورِ حاضر کی نازی سوچ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔