وجود

... loading ...

وجود

یرغمالیوں کے لواحقین کا اسرائیلی پارلیمنٹ پر دھاوا

بدھ 24 جنوری 2024 یرغمالیوں کے لواحقین کا اسرائیلی پارلیمنٹ پر دھاوا

ریاض احمدچودھری

غزہ جنگ میں حماس کے ہاتھوںپکڑے جانے والے اسرائیلی یرغمالیوں کے لواحقین نے پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا اور کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں قانون سازوں سے مطالبہ کیا وہ ان کے پیاروں کی رہائی کیلئے مزید اقدامات کریں۔یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے کہا تم سب ابھی کرسیوں سے اٹھ جاؤ۔آپ یہاں نہیں بیٹھیں گے جب تک ہمارے بچے وہاں مر رہے ہیں۔مظاہرین سکیورٹی حصار توڑ کر پارلیمنٹ کی عمارت میں موجود کمیٹی میٹنگ روم میں داخل ہوئے جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔لواحقین نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حماس کے ساتھ معاہدے سے مسلسل انکار کی ضد پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور وہاں چیخ و پکار کرتے ہوئے تین ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یرغمالیوں کی رہائی ممکن نہ بنانے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔اس سے قبل مرکزی تل ابیب اسکوائر میں حکومت کے خلاف ہزاروں افراد جمع ہوئے، جن میں اکثریت گزشتہ برس احتجاج کرنے والوں کی تھی ۔یرغمالیوں کی رہائی میں حکومتی ناکامی پر برہم مظاہرین نے نیتن یاہو کو شیطان کا چہرہ قرار دیتے ہوئے نیتن یاہو حکومت پر اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے الزامات عائد کردئیے مظاہرین نے اسرائیلی پرچم تھاما ہوا تھا اور حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے اور ڈھول بجاتے ہوئے نیتن یاہو کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔حماس کے ساتھ جنگ میں مارے گئے ایک فوجی کے بھائی نے بتایا کہ حکومت نے ہمیں جس طرح 7 اکتوبر کو چھوڑا تھا وہ سلسلہ تاحال جاری ہے، تبدیلی اور معاملات ٹھیک کرنے کے لیے طاقت ہمارے ہاتھ میں ہے اور اس حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے دوران اغوا کیے گئے 130 سے زائد افراد لاپتہ ہیں، نومبر کے آخر میں چھ روزہ جنگ بندی کے دوران حماس نے 100 سے زائد یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کو معاہدہ کرنا پڑیگا۔ اسرائیل 100 روز بعد بھی بزور طاقت یرغمالیوں کو رہا کرانے میں ناکام رہا ہے۔ اسرائیل معاہدے کے ذریعے یرغمالیوں کو واپس لیگا یا ان کی لاشیں لیگا۔یہ فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہے۔ حوثی فلسطینیوں کے ساتھ حقیقی اور مؤثر یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، تمام قوتیں غزہ میں نسل کشی بند کرانے کے لیے جرات مندانہ اقدامات کریں۔
اسرائیل کے نہتے فلسطینیوں پر مظالم جاری ہیں۔ شمالی وجنوبی غزہ میں شدید بمباری سے گزشتہ 24گھنٹے میں مزید 178فلسطینی شہید، 293زخمی ہوئے جس کے بعد شہداء کی مجموعی تعداد 25 ہزار 474 ہوگئی ہے۔ صیہونی فوج کی جانب سے خان یونس میں بمباری سے بڑے پیمانے پر شہادتوں کا خدشہ ہے۔ جبکہ الشفا اور ناصر ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ 7اکتوبر سے جاری حملوں میں اب تک زخمی ہونے والوں کی تعداد 62ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اسرائیلی فوج کی مغربی کنارے میں بھی کارروائیاں جاری ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے یرغمالیوں کی رہائی کیلئے حماس کے جنگ بندی کے مطالبے کو پھر مسترد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حکام امداد کی رسائی میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ یورپی یونین خارجہ پالیسی کے سربراہ بوریل نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر اصرار کرتے ہوئے اسرائیل کو خبردار کیا کہ غزہ میں فوج اور طاقت کے استعمال سے معاملہ حل نہیں ہو گا۔ کیا اسرائیل کے نزدیک تمام فلسطینیوں کو قتل یا بیدخل کر دینا ہی حل ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے فلسطین کا مسئلہ حل ہونے تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہ لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی بات نہیں ہوسکتی۔ فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں استحکام کی ضرورت ہے، استحکام کے ذریعے ہی یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ غزہ میں جاری تصادم میں کمی اور عام شہریوں کی اموات کو روکنا سعودی عرب کے لیے سب سے اہم ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ اور وہاں کی سویلین آبادی کو کچل رہا ہے جو مکمل طور پر غیر ضروری ہے، یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے جسے روکنا ہے۔ جنگ میں شہید ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔یہ جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے۔نتین یاہو کے تازہ بیان کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکی شہ کے بعد نتن یاہو پاگل ہو چکا ہے اور امن کی راہ کی طرف نہیں جانا چاہتا،حالانکہ پوپ فرانسس بھی کئی اپیلیں کر چکا ہے کہ غزہ میں فوجی کارروائی ختم کرنے اور انسانی راہداری کھولنے کا مطالبہ کرتا ہوں، امن کی بات کیسے کی جاسکتی ہے جب ہتھیاروں کی تجارت عروج پر ہو۔ انتونیو گوتریس سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ رکنا چاہیے، شہری خوراک، صاف پانی اور ادویات کی قلت سے بھی شہید ہو رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم کی ہٹ دھرمی دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینی ریاست اور دو ریاستی حل سے متعلق امریکی صدر کے بیانات کو مسترد کردیا اور کہا کہ مغربی اردن پر اسرائیلی کنڑول پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے تل ابیب میں ہزاروں افراد نیتن یاہو کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور انہیں حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے، برطانیہ میں فلسطینیوں کی حمایت میں ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا، لندن میں ہتھیار ساز کمپنی کے سامنے سڑک پر ”فلسطین آزاد کرو” کے نعرہ لکھ دیا گیا۔ سوئیڈن میں اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی اور اسرائیل مخالف نعرے لگائے گئے۔ اسپین میں بھی مظاہرے کے دوران غزہ میں نسل کشی بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر