... loading ...
حمیداللہ بھٹی
قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے تمام ریاستیں ہرحد تک جاتی ہیں اور یہ ایسا پہلو ہے جس پرکوئی بھی ریاست سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ بلوچستان کی شہری آبادی پرایران کا میزائل حملہ نہ صرف پاکستانی فضائی حدودکی خلاف ورزی اور قومی سلامتی پرحملہ ہے بلکہ یہ واقعہ ایک آزاد و خود مختار ملک کو اشتعال دلانے کی احمقانہ کوشش اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے بھی منافی ہے۔ ایرانی کاروائی سے کسی دہشت گردکو نقصان نہیں پہنچا۔البتہ دو بچے شہیداور تین بچیاں زخمی ہوئی ہیں ۔بلاشبہ یہ نرم سے نرم الفاظ میں بھی ایسی اشتعال انگیزی ہے جس سے اچھی ہمسائیگی کاتاثر مجروح ہوا ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔اگر اِس واقعہ کے عالمی اثرات پربات کریں تو ایرانی کارروائی سے دنیا کی نظریں فلسطینی ایشوسے ہٹ گئی ہیں اور اسرائیل کی جارحیت کی پردہ پوشی ہوئی ہے۔ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے مگر یہ تصور کر لینا کہ کسی کی اشتعال انگیزی کے باوجود اپنی بقاوسلامتی اورخو د مختاری کے بارے میں حکمت ِ عملی ترک کردے گا، ایسا سوچنا بھی غلط ہے ایران کی طرف سے فضائی خلاف ورزی اور معصوم بچوں کو نشانہ بنانے جیسے غیرذمہ دارانہ اور احمقانہ اقدام کا موثر جواب بہت ضروری تھا۔ آفرین ہے پاکستان کی عسکری قیادت پر،جس نے اڑتالیس گھنٹے کے اندرآپریشن مرگ برسرمچارکے تحت ایران کو نہ صرف منہ توڑ جواب دیا ہے بلکہ ایرانی علاقے سیستان میں ایسے نو دہشت گرد مارڈالے ہیں جن کے بارے ایرانی حکومتی خبررساں ایجنسی ارنا نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مرنے والے ایرانی شہری نہیں بلکہ غیر ملکی ہیں۔
ایران کی طرف سے فضائی حدودکی خلاف ورزی کی پاداش میں پاکستان نے ردِ عمل کے طورپر ایران سے اپنا سفیر واپس بُلا لیا ہے جبکہ ایرانی سفیر جو اِس وقت اپنے ملک میں ہیں ،پاکستان آنے سے روک دیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان نے ایران سے سفیر واپس بلانے کے ساتھ ایرانی سفیر کو ملک بدر کیا ہے جس کا ذمہ دارایران ہے۔ عراق نے بھی ایران سے اپنا سفیر واپس بلالیا ہے۔ اِس میں شائبہ نہیں کہ پاکستان کی عسکری قیادت قومی سلامتی بارے بہت حساس ہے۔ حکومت نے ایرانی ناظم الامورکو دفتر ِخارجہ بُلاکر احتجاجی مراسلا تھما یاہے لیکن ایران کی دیدہ دلیری کا جلد اور موثر جواب ایسا سبق ہے جو اُسے کبھی نہیں بھولے گا۔شاید یہ 1988 کے بعد پہلا موقع ہے کہ کسی دوسرے ملک نے ایران کے اندر کارروائی کی ہے ۔وگرنہ امریکہ اور نیٹو جیسی دفاعی قوتیں بھی اِس حد تک نہیں جا سکیں۔اگر نرمی کا مظاہرہ کیا جاتا تو تاک میں بیٹھے مشرقی ہمسائے کوبھی نیا گُل کھلانے کا بہانہ ملتا۔ اسی لیے ایرانی اشتعال انگیزی کا جائزہ لے کر پاکستان کی طرف سے پوری قوت سے نتیجہ خیز کارروائی سے دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔ ذہن نشین رہے ایران نے اچھی ہمسائیگی چھوڑدی ہے تو پاکستان کی یک طرفہ امن پسندی پاکستانیوں کو نئے امتحان میں ڈال سکتی ہے اِس لیے محتاط رہنا ہی دانشمندی ہے۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے جس کے دوران نہ صرف ہزاروں سیکورٹی اہلاکاروں نے جامِ شہادت نوش کیا بلکہ ہزاروں عام شہری بھی شہید ہوئے جبکہ اربوں کا مالی نقصان بھی برداشت کیا ایران پر پاکستان کے بے شمار احسانات ہیں جب دنیا پابندیاں لگا رہی تھی تو پاکستان اُس کی وکالت کررہا تھا ۔ایران کی طرف سے دہشت گردی کا بہانہ بناکر کاروائی اور ہمسائے دوست ملک کی خود مختاری کو پامال کرنے کی جسارت تقاضا کرتی ہے کہ دندان شکن جواب ہی بہترہے۔ لباس کے معاملے میں ایران کے طول و عرض میں مظاہرے اور احتجاج جاری ہے۔ اِس دوران نہ صرف ایرانی سیکورٹی فورسز عام شہریوں کو ماررہی ہیں بلکہ مظاہرین بھی سیکورٹی فورسز پر حملے کرتے اور نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے ایرانی سیکورٹی فورسز سخت دبائو میں ہیں۔ اِس کے باوجودپاکستان کو ترنوالہ سمجھنا ثابت کرتا ہے کہ ایران اچھی ہمسائیگی کے اصول یا تو جانتا نہیں یا پھر فراموش کر چکا ہے جو ازبر کرانے کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز کارروائی ناگزیرہے ۔
کیا ایران کو معلوم نہیں کہ پاکستان ایک تسلیم شدہ جوہری طاقت ہے جس کاجدید ترین میزائل پروگرام نہ صرف اُسے دفاعی لحاظ سے خطے میں ممتازکرتا ہے بلکہ ہتھیارو گولہ بارود میں بھی کسی حدتک خود کفیل ہونے کے ساتھ طیارہ سازی کی طرف گامزن ہے ؟جس کی مسلح افواج کی مہارت کی دنیا معترف ہے۔ گلوبل فائر پاؤر نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میںفوجی طاقت کی ریکنگ میں پاکستان کو د نیا کے پہلے دس ممالک میں 9ویں نمبر پررکھاہے۔ یہ رپورٹ ساٹھ عوامل کا جائزہ لیکرتیارکی جاتی ہے جس میں افرادی قوت ،فوجی سازوسامان ،لاجسٹکس کی صلاحیت ،مالیاتی استحکام اور تربیت کے معیارسرِ فہرست ہیں یہ عوامل کسی فوج کو مقابلے کے قابل بناتے ہیں جبکہ ایران محض افرادی قوت کے لحاظ سے رینکنگ میں پندرہویں مقام پر ہے اور پراکسی وار یقین رکھتا ہے جس پر اکثرممالک خفا ہیں جن میں اسلامی ملک بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی عسکری قیادت کو چاہیے کہ ایران اچھی ہمسائیگی ترک کر چکا تو راہ راست پر لانے کے لیے علاج کے طور پر مناسب جوابی کاروائی سے کبھی اجتناب نہ کرے۔
میزائل حملہ سے پاک ایران تاریخی تعلقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے یہ حملہ دوستی اور اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اگر کوئی مسئلہ تھاتو جنم لینے والے تنائو کو مخلصانہ بات چیت اور باہمی تعاون سے کم کیا جا سکتا تھاجس طرح ایران کے حکومتی عمل داری سے محروم علاقوں میں مقیم دہشت گردوں کے بارے پاکستان آگاہ کرتا رہتا ہے۔ اب بھی عدم تعاون سے تنگ آکر پیچیدہ اورکامیاب آپریشن کیاگیااوریہ ثابت کردیا کہ و ہ ایرانی سا لمیت کا احترام کرتا ہے اور کسی ہمسائے سے مخاصمت نہیں چاہتا مگر ایرانی رہنمائوں کی طرف سے اشتعال انگیزی پر پشیمانی کے بجائے تندو تیز بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیاحالانکہ ایران کو پاکستان پر الزامات عائد کرتے ہوئے یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس کمانڈرکلبھوشن یادیو ایرانی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردوں کو مالی و تکنیکی مدددے رہاتھا ۔علاوہ ازیں بھارت نے فروری 2019 میںپاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تو پاکستان نے چوبیس گھنٹے کے اندر دوبھارتی طیارے مارگراکر ثابت کر دیا کہ وہ دشمن کی جارحیت نہ صرف روکنے پر قادر ہے بلکہ دندان شکن جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اِس تناظر میں ایرانی قیادت کی گیدڑ بھبکیوں کا کوئی جواز نہیں تھا یا شاید پاکستان کی دفاعی طاقت کا درست اندازہ نہیں یا پھر کسی بیرونی قوت کے اُکسانے یا اندرونی خلفشار سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے احمقانہ اقدامات سے خطے کا امن تباہ کرنے کی کوشش کر بیٹھا ہے۔ عیاں حقیقت ہے کہ ایران کے اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے تعلقات کشیدہ ہیں ۔ارابیل پر ایرانی بمباری کے خلاف عراق نے تو اقوامِ متحدہ میں باضابطہ طور پر شکایت درج کرادی ہے۔ وہ شام میں بھی کاروائیاں کررہا ہے حوثی بھی اُسی کی سرپرستی میں دہشت گردانہ کاروائیوں سے یمن کو ایسی جنگ میں جھونک چکے ہیں جس کااب اختتام نظر نہیں آرہا ۔اِس قدرمخدوش حالات کے باوجود پاکستان کے خلاف ایک نیا محاذکھولنا کسی عالمی گریٹ گیم کو حصہ ہی ہو سکتا ہے جسے سمجھ کر عسکری قیادت کو توڑ کرنا چاہیے کیونکہ چاہے اسرائیل اور موساد کا نام لیاجائے پھربھی پاکستان کی آزادی و خومختاری کی پامالی کی کسی کو ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔
کچھ حلقوں کاکہنا ہے کہ ایران نے پاکستانی شہریوں کے خلاف کاروائی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی ہے بھارت نے میاں چنوں کے علاقے میں میزائل گرایا جسے تکنیکی غلطی کا شاخسانہ قرار دیکر معاملا دبانے کی کوشش کی گئی پاکستان نے بھی نظراندازکردیا مگر دنیا میں بھارتی ہتھیاروں کے بارے میں جنم لینے والی تشویش ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ اب ایران نے بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی آڑ میں پاکستان کی دفاعی صلاحیت جانچنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ایرانی کارروائی میں بچے شہید اور زخمی ہوئے۔ اگر یہ واقعی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہوتی تو بچے ہرگز نشانہ نہ بنتے۔ علاوہ ازیں پاکستانی وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑنے میزائل حملے سے چند گھنٹے قبل سوئٹزلینڈ کے شہر ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہ یان سے ملاقات کی جوبہت خوشگوار رہی جس کا صاف مطلب ہے کہ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں کوئی تنائو نہیں تھانہ ہی ایران کی طرف سے پاکستان سے کسی قسم کی شکایت کی گئی۔ ایران کاحالیہ حملہ کوئی پہلی کارروائی نہیں بلکہ انقلابِ ایران کے بعد ایرانی رویہ مسلسل جارحانہ ہوتا جارہا ہے اور ایرانی حکومتیں مسلسل بھارت کی ہمنوائی کرتی رہتی ہیں۔90 کی دہائی میں اوآئی سی کی کشمیر پر متفقہ طور پر پاس کی جانے والی متوقع قرارداد کو ایرانی وزیرِ خارجہ نے غیر حاضر ہو کر ہی سبوتاژکیا۔اُس کے بعد او آئی سی میں اتفاق کی کبھی نوبت ہی نہ آسکی پھر بھی پاکستان نے بڑا ہونے کے ناطے ہمیشہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کیااور ایران سے تعلقات میں بگاڑ نہ آنے دیابلکہ ایک سے زائد بار دونوں ممالک بات چیت سے عسکریت پسندوں کے خلاف مشترکہ حکمت ِ عملی بھی اختیار کرتے رہے لیکن حالیہ واقعہ نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کے تحمل ،برداشت اور تعاون کا غلط مطلب لیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایرانی موقف کوہمیشہ تحمل سے سننے اور سرحدی کارروائیوں میں تعاون کے عوض پاکستانی خودمختاری کو پامال کرنے کی ہرگز جسارت نہ کی جاتی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اگر ایران بھائی چارے کی نزاکتوں کو فراموش کرتے ہوئے جارحانہ رویہ اختیار کر چکا ہے تو پاکستان بھی اُسے راہ راست پر لانے کے لیے مناسب تدابیر کرے اور مغربی سرحدوں کی نگرانی سخت کردے۔ اشتعال انگیزی پر پاکستان کا جواب ایران مدتوں یاد رکھے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔