... loading ...
سمیع اللہ ملک
خدابھلاکرے کہ قصرسفیدکے فراعین نے ایک لفظ کومجسم شخصیت عطاکردی۔آج سے پہلے لفظ فرعون ہمارے مذہبی اور معاشرتی شعورمیں ایک تاریخی شخصیت سے زیادہ ایک محاورے یامثال کی حیثیت رکھتاتھا۔فرعون بہ معنی مکمل ڈکٹیٹرشپ رعونت،بے جااکڑاپنی خوش بختی پرحدسے زیادہ گھمنڈاوراس سب کے ساتھ اپنے سامنے پوری دنیاکوہیچ سمجھتے ہوئے خودکو ہرفرداورہرملک کی قسمت کامالک تصورکرنا،یہ سب قباحتیں اس ایک لفظ سے عبارت تھیں لیکن آج ہم نیجاناکہ ان خصوصیات کاچہرہ اورشخصیت کیسی ہوتی ہے۔
افغانستان،عراق،لیبیاپرامریکی حملے سے پہلے اوربعدمیں قصرسفیدکے سابقہ ظالم مکیں بش، کے مختلف بیانات،دعوے اوربعدازاں اوبامہ اورٹرمپ کی تقریریں سن سن کربڑی حیرت ہوتی تھی کہ کوئی فردچاہے وہ دنیاکی واحدسپر پاورکاسربراہ ہی کیوں نہ ہو،آخرانسان ہونایعنی فانی ہوناکیسے بھول سکتاہے؟لیکن بائیڈن جنہوں نے اپنااکلوتانوجوان بیٹا موذی مرض کینسر کاشکارہوکردنیاسے رخصت ہوتاہوادیکھا،وہ بھی نمک کی کان میں پہنچ کرنمک بن گئے۔کیایہ سب فراعین بھول جاتے ہیں کہ اس دنیاسے اوپربھی ایک سپرپاور ہے جوچاہے توایک لمحے میں پوری کائنات کوتہہ وبالاکردے؟ابھی کل کی بات ہے کہ کروناکے ان دیکھے جرثومہ نے دنیابھرمیں میرے رب کی معمولی سی طاقت کاایسا آئینہ دکھایا کہ سب کوجان کے لالے پڑگئے اوروہ جواپنے گوداموں میں دنیاکومحض دومنٹ میں تباہ رکھنے کی صلاحیت رکھنے والے ایٹمی اسلحے کی دہمکیاں دیتے ہوئے بالکل نہیں شرماتے تھے،وہ بھی خوفزدہ اپنے ہی گھروالوں سے فاصلے سے بات کرتے تھے لیکن ایساناشکراانسان جوایک سانس کا محتاج ہے،خود کو پوری دنیاکے انسانوں کی قسمتوں کامالک سمجھتاہے۔ اسی لئے خالقِ کائنات نے قرآن میں ایسے نافرمانوں کیلئے فرمادیا:ِبے شک انسان اپنے رب کابڑاناشکراہے،اوربے شک وہ اس بات پرخود شاہدہے۔(العدیات:(6-7
ویسے انسان کی فطرت کے اندرشائدیہ خرابی ہے کہ دولت اورطاقت کی فراوانی اسے فرعونوں کی صف میں لاکھڑاکرتی ہے،پھر وہ دنیاکے سارے وسائل پرقابض ہوناچاہتاہے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں پھروہ دوسرے انسانوں سے کیڑوں مکوڑوں سے بھی زیادہ براسلوک روارکھتاہے۔اس سلوک کی کہانیاں ہم روزپڑھتے اورسنتے ہیں اوریہ صرف امریکی انتظامیہ تک محدودنہیں۔ کشمیر،افغانستان،عراق اورلیبیاسے لیکرکیوبااورفلسطین تک،انسانی فطرت کی اسی کجی کے قصے بکھرے ہوئے ہیں لیکن وہ جو کہتے ہیں ناکہ ”ہرفرعونے راموسٰی” توآج کے دورکے ان فرعونوں کے بھی اپنے ہی ایوانوں سے موسٰی پروان چڑھ رہے ہیں۔ ڈھائی ماہ سے غزہ میں انسانیت کوذبح کیاجارہاہے اوروقت کے فراعین اب اس خوف میں مبتلاہیں کہ چاروں طرف سے محاصرہ میں افراد نجانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ اب بھی اپنے ہرشہیدکوایک عجیب سرشاری سے لحدمیں اتاررہے ہیں اوران کاحوصلہ اب بھی آسمانوں کوچھورہاہے گویاوہ موت کواپنی ابدی ودائمی زندگی سمجھ کراس کے منتظرہیں۔ اس ماحول میں نجانے مجھے ایک بہادربیٹی راشل کوری کا20سال قبل لکھاہواوہ خط جواس نے غزہ کی پٹی سے اپنے ماں باپ کوای میل کیاتھا،بے تحاشہ یادآنے لگ جاتا ہے۔اس نہتی لڑکی کوپورایقین تھاکہ یہ اس کااپنے ماں باپ کے نام آخری پیغام ہے۔
راشل کوری وہ امریکی لڑکی تھی جومظلوم فلسطینیوں کی خاطراسرائیلی بلڈوزرکے نیچے آکرہلاک ہوگئی تھی۔وہ ان امریکی رضاکاروں میں شامل تھی جوفلسطینیوں پرڈھائے جانے اسرائیلی مظالم اوران کے گھروں کامسمارکئے جانے کے خلاف احتجاج کرنے اوردنیاکوان زیادتیوں سے باخبرکرنے کے ارادے سے رافہ میں جمع ہوئے تھے۔راشل نے یہ خط7 فروری2003کواپنے ماں باپ کوای میل کیاتھاجسے اس کی موت کے بعداس کے ماں باپ نے گلوبل نیوزنیٹ ورک کوجاری کردیاتھاتاکہ دنیابھرکے میڈیاکو پتہ چل جائے کہ ان کی بیٹی نے ان مظلوم اوربے بس لوگوں کی حمائت اورحفاظت کی خاطرجان دی جولوگ اپنادفاع اورحفاظت خودنہیں کرسکتے تھے۔راشل کوری اپنے اس خط میں لکھتی ہیں کہ”مجھے غزہ کی پٹی میں آئے ہوئے دوہفتے ہوچکے ہیں لیکن اتناکچھ پڑھنے،انفرادی طورپران مظلوم اورمفلوک حال لوگوں سے معلومات لینے اورڈاکومینٹریزدیکھنے کے باوجودمیں اس صورتحال کیلئے بالکل تیار نہیں تھی جس کاسامنامجھے یہاں آکرکرناپڑرہاہے۔فلسطینیوں پرفوج کے مظالم کایہ عالم ہے کہ شائدہی آپ کوکوئی گھرایساملے جس میں توپوں کے گولوں کے سوراخ نہ ہوں بلکہ بیشترگھرتومسمارکئے جاچکے ہیں۔لوگوں کی نقل وحرکت پرمسلسل پہرے ہیں اوران کے معاملات کے فیصلے ایک پولیس کاسپاہی کرتاہے۔یعنی انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے اوربحفاظت واپس آنے کی قسمت کافیصلہ بھی اسی کے موڈپرہے۔چھوٹے بچوں تک کوبے دریغ گولی کانشانہ بنادیاجاتاہے اوررات دس بجے کے بعد نظرآنے والے ہرفردکوبغیرپوچھے گولی سے اڑادیاجاتاہے،جبکہ زندگی کی سہولتوں کایہ عالم ہے کہ پانی کے دوبڑے ذخائریا کنویں اسرائیلی فوج نے تباہ کردیئے ہیں۔اب صرف ایک ذخیرہ آب بچاہے جس کی حفاظت اورباقی گھروں کوبچانے کیلئے مقامی لوگ مجھ جیسے انٹرنیشنل لوگوں کی مددچاہتے ہیں لیکن ہماری تعدادمحدودہے”۔راشل مزید لکھتی ہے کہ ”میں سوچتی ہوں کہ میں توپانی خریدسکتی ہوں اورمیراتوایک گھرامریکامیں ہے جہاں میں جب چاہے واپس جاسکتی ہوں لیکن ان لوگوں کے پاس کیاآپشن ہے جبکہ یہاں کی بیشترآبادی ان لوگوں کی ہے جودوسے تین بارپہلے بھی بے گھرہوکرریفیوجی بن چکے ہیں”۔
دنیاکوان فرعونوں سے مظلوم لوگوں کوبچاتے ہوئے اوران مظلوم لوگوں کے گھروں کومسمارہونے سے روکنے کی کوشش میں آخرکارراشل کوری خودبھی اس ظلم کانشانہ بن گئی۔ 16 مارچ2003 کوایک اسرائیلی بلڈوزرکوایک فلسطینی کاگھرگرانے سے روکتے ہوئے یہ23سالہ نوجوان بہادرلڑکی دب کرہلاک ہوگئی لیکن اپنے پیچھے روشنی کی ایسی کرن چھوڑگئی ہے جوہمیں یاد دلاتی رہے گی کہ فرعونی طاقتوں سے ٹکرلینے والی قوتیں بھی دنیامیں ہمیشہ موجودرہتی ہیں۔یہ توسب جانتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام فرعون کے گھرہی میں پروان چڑھے تھے اورامریکی لے پالک،اسرائیل سے ٹکرلینے والی لڑکی بھی امریکی شہری ہی تھی لیکن کیایہ بات حیرت انگیزنہیں کہ امریکی شہریوں کی زندگی اورحفاظت کی ٹھیکیدار امریکی انتظامیہ راشل کی دردناک موت(قتل)پرخاموش رہی تھی اورامریکی میڈیابھی اس معاملے کومعمول کی ایک بات سمجھ کرانڈرپلے کرگیایعنی اس نے کوئی خاص اہمیت ہی نہیں دی۔
راشل کوری کے ساتھ یہی سانحہ کسی اورملک میں ہواہوتاتوشائدابھی تک اس ملک پربھی لشکرکشی ہوچکی ہوتی اوردنیاکویہ باور کروایاجاتاکہ امریکااپنے شہریوں کی جان ومال کا کس قدرخیال رکھتاہے لیکن ان صہیونی طاقتوں کے سامنے امریکاکی مجال نہیں کہ احتجاج تک کرسکے۔راشل کوری کی موت نے جوروشنی کی لکیرچھوڑی ہے ویسی ہی روشنی کی قندیل مجھے عالیہ کی شکل میں نظرآئی تھی۔عراق پرامریکی حملے سے کچھ دن پہلے جب ساری دنیامیں احتجاجی مظاہرے ہورہے تھے اورجنگ کے مخالف لوگوں کی انسانی زنجیریں بن رہی تھیں تو یہ لڑکی اپنا ملک اورتین سالہ بچی کوچھوڑکرعراق پرحملے کے خلاف انسانی زنجیر میں شامل ہونے کیلئے بغدادپہنچ گئی تھی۔دینیاپیونے یہاں آکراسلام قبول کیااوراپنانیانام عالیہ رکھ کرمظلوموں کے حقوق کی حفاظت کابیڑہ اٹھایااوراپنے اسی نیک مقصدکیلئے اپنی جان تک دے دی۔برطانیہ کی ایک مشہورصحافی ایوان رڈلے اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی خاطر چھپ کراوربھیس بدل کرافغانستان پہنچ جاتی ہے اوروہاں طالبان کے ہاتھوں گرفتارہوجاتی ہے۔ان طالبان کے حسنِ سلوک کی بناپرایسی مسلمان ہوکرلوٹتی ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی تائیدمیں سب سے زیادہ بلندآوازاسی ایوان رڈلے کی ہے۔ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے حکمران ان فرعونوں کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں ۔اسی قادرِ مطلق سے دعاہے کہ وہ اس دورکے موسیٰ کوبھی جلدبھیج دے کہ اب فرعونیت اپنی آخری حدوں کوچھورہی ہے۔