... loading ...
رفیق پٹیل
”ملکو ں کے ٹوٹنے کی دس وجوہات” کے عنوان سے امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے شائع ہونے والے انتہائی معتبر عالمی جریدے ”فارن پالیسی” نے ایک مضمون شائع کیا تھا اسے دو محققین ڈیرن ایساماگلو اورجیمز اے رابنسن نے تحریر کیا تھا اس کی ذیلی سرخی تھی ” ریاستیں راتوں را ت زوا ل پزیرنہیں ہوتی ہیںسیاسی اداروں کے اندرگہرائی میںتباہی کے بیج پروان چڑھتے ہیں ” ۔ مضمون میں تحریر کیا گیا ہے کہ اکثر ممالک کسی دھماکہ خیز حادثے سے نہیں ٹوٹتے بلکہ خرابیاں خاموشی سے رفتہ رفتہ اس کا سبب بنتی ہیں وہ جنگوں یا پرتشدّد واقعات کے بجائے اپنے معاشرے میں ترقی کرنے کی بہترین صلاحتوں سے محروم رہنے اور اپنے شہریوں کو سہولیات سے محروم رکھ کر انہیں غربت میں مبتلا کرنے کی وجہ سے زوا ل پزیر ہوتے ہیں ۔یہ ریاستیں اس لیے ٹوٹ جاتی ہیں کہ ان ریاستو ں کے حکمراں مالی وسائل کوچوس لیتے ہیں ( یعنی ریاست کے وسائل کو اپنے ذاتی مال و دولت میں اضافہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں)۔ پاکستانی معاشرے میں ایسی تحقیقات کو پس پشت ڈال دیا جاتاہے۔ اس مضمون کے علاوہ اقوام متحدہ نے ملکوں کی ترقی کے لیے جو سمت طے کی ہے، اس کے اہم نکات میں لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا (یعنی بہتر روزگار ،بہتر تعلیمی سہولیات، بہتر ٹرانسپورٹ، بجلی ،گیس،سڑک انٹرنیٹ ، آلودگی سے پاک ماحول اور صحت کی سہولیات ہر شہری کو فراہم کرنا شامل ہے )۔
آزادانہ منصفانہ انتخابات سیاسی اور معاشی استحکام کا ابتدائی قدم ہے لیکن موجودہ حالات میں انتخابات کے عمل کو تباہی سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ بعض مبصّرین کے مطابق نتائج پہلے سے آچکے ہیں، صرف خانہ پری کی جارہی ہے۔ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے ملک کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر کر دیا گیا ہے اس کا انتخابی نشان بلا اس سے لے لیا گیا ہے اب عمران خان کی جماعت کو عجیب نشانات دیے جارہے جس میں جوتا ، بیگن، چارپائی، بکری وغیرہ شامل ہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ فیصلہ اعلٰی عدلیہ سے آیا اور اب عالمی ذرائع ابلاغ اس فیصلے کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ما رکانڈے کاتجو نے اس فیصلے کو دنیا کی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ قرار دیااور کہا کہ وہ جانب دار ہیں اور ان کی عمران خان سے ذاتی رنجش ہے۔ یہ فیصلہ بھی الٹی بندوق کا فائر ثابت ہوگا جس سے ہماری عدلیہ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی جو معاشرہ بے ایمانی پر داد و تحسین دینے لگے، امتیازی سلوک پر واہ واہ کرے اور اس کے نتیجے میں استحکام کی توقع کرے، اس سے بڑی بے وقوفی کیا ہوگی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ترقی کرنے والے معاشروں کی مشترکہ روایات میں اپنے شہریوں سے امتیازی سلوک نہ کرنا ، عدل وانصاف کو فروغ دینا،امور مملکت اور سیاسی عمل میں تمام طبقات کی زیادہ سے زیاد ہ شمولیت ، محروم طبقات کو تحفّظ دینے کے علاوہ رائے عامّہ کا احترام بھی شامل ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اس کے بر خلا ف کام ہو رہا ہے ۔حالانکہ بلّا واپس لینے کے بعد پی ٹی آئی نے ایک اور جماعت پی ٹی آئی نظر یاتی سے اتحاد بھی کیا لیکن پی ٹی آئی کے مطابق اس جماعت کے چیئرمین کو گرفتار کر کے جبراً اس سے ایک پریس کانفرنس کرائی گئی اور کسی بھی معاہدے سے انکار کرادیا گیا جس کا اظہا ر پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے 15 جنوری کی سپریم کورٹ کی کارروائی میں بھی کیا ۔ اس وقت بھی پی ٹی آئی کے امیدواروں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ 13 جنوری کی سپر یم کورٹ کی کارروائی کے بارے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے رویے پر پی ٹی آئی نے الزام لگایا ہے کہ پوری کارروائی میں ان کے وکلاء کو بولنے کا موقع نہیں دیا گیا اور وہ خود زیادہ تر گفتگو کرتے رہے ،یہا ں تک کہ انہو ں نے غیر متعلقہ گفتگو کرتے ہوئے بار بار حامد علی خان کو کہا کہ آپ تو اتنے سینئر ہیں آپ کو چیئرمین کیوں نہیں بنایا گیا۔ اسی کارروائی کے دوران پی ٹی آئی کے چیئرمین گوہر علی خان کے گھر پر چھاپہ مار کر پولیس نے ان کی اہلیہ اور بچوں کو مارا پیٹا۔اس موقع پر کوشش کی گئی کہ اس صورت حال کو ٹی وی پر نہ دکھایا جائے لیکن سب کچھ چھپانا ممکن نہ ہوسکا اوریہ بات بھی دنیا بھر کو دکھانی پڑیُ ۔پی ٹی آئی شروع سے یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ سارا ڈرامہ نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے اور انہیں پہلے ہی وزیر اعظم کا پروٹوکول دے دیا گیا ہے۔ دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ الزامات کو ایک طرف رکھ دیا جائے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیںکہ پاکستان پہلے ہی ایک خوفناک معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ اس سے نکلنے کے لیے ایک ایسی موثر سیا سی قوت کی ضرورت ہے جسے عوام کی بھر پور حمایت حاصل ہو۔ موجودہ انتخابات کے نتا ئج بے معنی ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی اخلاقی طور پر یہ جنگ جیت چکی ہے۔ ان اقدامات سے اس کی عوامی حمایت اور سیاسی طاقت میں اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ حکومت کے دوران ایسے اقدامات نہ ہوسکے جس سے ملک کی معیشت بہتر ہوتی۔ عوام کو مہنگائی ،بے روزگاری اور بجلی کے بلوں سے چھٹکارا ملتا۔ مسلم لیگ ن کی اس سلسلے میں عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان کے معروف سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک نے انتہائی کم قیمت کی بجلی تیار کرنے کاپروجیکٹ تیا ر کیا تھا لیکن مسلم لیگ کی حکومت نے وہ منصوبہ بند کرادیاتھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستا ن کے کرتا دھرتا لوگوں کو ملک کے مستقبل اور عوام کی خوشحالی سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کے حصول کے حصار میں قیدہیں، جب سیاسی منتظمین اور طاقت ور اپنے ناپسند کی کامیابی اور اپنے پسندیدہ شکست کو سامنے دیکھ لیںتو وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر آجاتے ہیں۔ یہی حال کچھ موجودہ پاکستانی سیاست کا ہے۔ عوام کا اس قدر خوف ہے کہ کسی طرح ان کو انتخابات سے دور رکھاجائے۔ یہ سلسلہ اس وقت سے زیادہ شدّت سے جاری ہے جب سے عمران خان کی حکومت کا 9اپریل 2022 کو خاتمہ ہوا تھا۔ حالانکہ وہ اس قد ر مقبول نہیں تھے انہیں جتنا دبایا جاتا رہا ان کی مقبولیت بڑھتی رہی۔ اس کا اندازہ دنیا کے معروف جریدے دی اکنامسٹ کے عمران خان کے مضمون کی غیرمعمولی انتہادرجے کی شہرت سے لگایاجاسکتا ہے وہ جیل میں نہ ہوتے تو اسے اتنی مقبولیت نہ ملتی جیل سے ان کی ہمدردی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حکومت کے غیر دانشمندانہ اقدامات نے انہیں ایسے دیو کی شکل دے دی ہے جس کے سامنے دیگر بونے نظر آنے لگے ہیں ۔ وزیر اعظم کے عہدے کی بھی ان کے لیے کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔ ایک اور خطرناک پہلو عوام میں بے چینی اور غصے کی لہر ہے جو ایک آتش فشاں کی صورت اختیار کر رہی ہے شاید ارباب اختیا ر کو یہ تصویر نظر نہیں آرہی ہے ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے گزر جائے۔