... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
ایڈولف ہٹلر نے جب یہودیوںکا بڑے پیمانے پرقتل عام کیا تو بعد میں لفظ”نسل کشی” متعارف ہوا، سن1948میں اقوام متحدہ نے نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور اس کا رتکاب کرنے والوں کے لئے سزا سے متعلق پہلا معاہدہ منظور کیا جسے نسل کشی کنونشن کہا جاتا ہے۔ 19دفعات پر مشتمل کنونشن میں درج ہے کہ نسل کشی قابل سزا جرم ہے اور اس جرم سے کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں خواہ وہ آئینی حکمران ہوں،سرکاری عہدیدار یا عام لوگ ہوں،اس جرم کا رتکاب کرنے والوں پر مقدمہ اس ملک کی مجاز سرزمین پر یا عالمی عدالت میںبھی چلایا جاسکتا ہے۔اسی کنونشن کے تحت جنوبی افریقہ نے نیدر لینڈ کے شہر” دی ہیگ” میں قائم عالمی عدالت انصاف میں پچھلے سال29دسمبر کو ایک دعوی دائر کیا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے اورکنونشن کے قوانین پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہا ہے ابھی عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ آنا باقی تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پہلے ہی اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عالمی میڈیا میں بیان دیا ہے کہ وہ عالمی عدالت انصاف کے کسی فیصلے کو نہیں مانے گا اورغزہ میں جنگ جاری رکھے گا۔ہٹلر کی طرح اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا جنگی جنون بھی بڑھتا جارہا ہے جوتیسری عالمی جنگ کی وجہ بنتا جارہا ہے۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ کے 100دن مکمل ہونے پرفلسطینی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اسرائیلی بمباری کے نتیجہ میں فلسطینی شہداء کی مجموعی تعداد24ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جن میں سے نصف سے زائد بچے اور خواتین شامل ہیں۔عام طور پر کسی بھی ملک میں ہونے والی جنگ کے کچھ عالمی اصول ہوتے ہیں جن کے مطابق جنگ کے دوران ہسپتالوں ،سکولوں اور رہائشی آبادیوں کوبمباری کا نشانہ نہیں بنایا جاتا لیکن غزہ پٹی میںتین ماہ سے زائد عرصہ سے جاری رہنے والی جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے 29ہزار سے زائد بم،شیل اور گولے ہسپتالوں،سکولوں اور رہائشی آبادیوں پر مارے ہیں جس کی وجہ سے 1.8ملین فلسطینی بے گھر اور5لاکھ76ہزار فلسطینی بھوک اور فاقہ کشی کا شکار ہوچکے ہیں۔ان حملوں کے نتیجہ میں 45 سے56فیصد عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں،سکولوں کی 69فیصد عمارتیں،142مساجداور3گرجا گھروں کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے اس کے علاوہ 36 میں سے 15سے بھی کم ہسپتال جزوی فعال ہیں جبکہ121ایمبولینسز کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے گویا یہ ایک ایسی ہولناک جنگ ہے جس میں انسانیت اور عالمی جنگی اصولوں کی پروا بھی نہیں کی گئی جس پر اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA)نے خبردار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔یو این آر ڈبلیو کے کمشنرجنرل فلپ لازارینی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر جنگ کے 100دن اس پٹی کے باشندوں کے لئے ایسے گذرے ہیں جیسے 100سال ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں بچوں کی پوری نسل نفسیاتی صدمے کا شکار ہے اور وہاں بیماریاں اور قحط بڑھتا جارہا ہے۔ادھر مصر نے غزہ کی پٹی کے ساتھ سرحد پر صلاح الدین کوریڈور جسے فلاڈیلیفیا کوریڈور بھی کہا جاتا ہے ،پر اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی کوآرڈی نیشن کی سختی سے تردید کردی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی جنگ کے100دن کے موقع پر جب پاکستان ،واشنگٹن،لنڈن،سوئیڈن اورتھائی لینڈ سمیت دنیا بھر میں احتجاجی ریلیاں جاری تھیں اس دوران بھی غزہ کے رہائشی علاقوں پر اسرائیلی حملے جاری تھے جس کے نتیجہ میںاگلے24گھنٹوںکے دوران اسرائیلی فوج کی بمباری کے نتیجہ میں مزید 125سے زائد فلسطینی شہید اور312افراد زخمی ہوگئے۔واشنگٹن ریلی میں شریک ہزاروں افراد وائٹ ہاوس کی جالیوں تک پہنچ گئے اور فلسطینی پرچم لہرا کر امریکی صدر جوبائیڈن سے غزہ میں فلسطینی نسل کشی کو رکوانے کامطالبہ کرتے رہے لیکن اس کا جوبائیڈن پر کوئی اثر نہ ہو اسی طرح چند روز قبل جنوبی کیرولیناکے ایک چرچ میںجوبائیڈن انتخابی مہم کے سلسلے میں سیاہ فام ووٹرز سے خطاب کررہے تھے کہ شرکاء نے غزہ میں جنگ بندی کے لئے مظاہرہ شروع کردیا ۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگرجوبائیڈن کو فلسطینیوں سے ہمدردی ہے توغزہ میں جنگ بندی کروائیں۔جوبائیڈن نہ توجنگ بندی رکوانے سے متعلق کوئی موثر بیان دے سکے اور نہ ہی مظاہرین کو خاموش کراسکے ۔ عالم انسانی کا آج اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ایک سوال ہے کہ جس طرح ہٹلر کایہودیوں کے قتل عام پر نسل کشی کے خلاف کنونشن منظور کرایا گیا تھا آج اسی عالمی قانون پر خود یہودی عملدرآمد کیوں نہیں کررہے ؟ اسی طرح امریکہ جس طرح افغانستان میں انسانی حقوق کے نام پر جنگ مسلط کرتا رہاہے ٹھیک اسی طرح فلسطینیوں کے لئے ا نسانی حقوق کاجذبہ آج کہاں گیا؟ یہ وہ سوالات ہیںجن کے جواب اسرائیلی وزیراعظم اور امریکی صدر کے پاس نہیںہیں اور شائد تاریخ میں جب بھی ہٹلر کی بربریت کا ذکر ہوگا تو ان دونوں کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔