... loading ...
ریاض احمدچودھری
پاکستان میں ایک تو بجلی ضرورت کے مطابق پیدا نہیں کی جا رہی، دوسرے بجلی کے منصوبے زیادہ تر درآمدی ایندھن کی مدد سے چلائے جا رہے ہیں۔ اس سے ایک طرف درآمدی بل بہت بڑھ گیا ہے۔ دوسرے صارفین کو بہت مہنگی بجلی مل رہی ہے جس کے بلوں کی ادائیگی عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہے بدقسمتی سے دریائوں پر ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ جو سستی بجلی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
پاکستان کو دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے ساڑھے تین ارب ڈالرز مالی خلا پر کرنے کے لیے ضرورت ہے۔ اس کیلئے گذشتہ برس نومبر میں پاکستان اور کویت نے اربوں ڈالرز کی مختلف مفاہمت کی یادداشتوںپر دستخط کئے جن میں فوڈسیکورٹی، زراعت، ہائیڈل پاور، واٹر سپلائی کے منصوبے شامل ہیں ۔ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی کو تقریب میں موجود تھے۔ 1450 میگاواٹ کے غازی بروتھا ڈیم کے 30 فیصد شیئر کویت کو 80 یا 90 کروڑ ڈالر کے عوض فروخت کئے جا رہے ہیں۔ غازی بروتھا ڈیم سے سالانہ 6 ارب یونٹ سے زائد بجلی پیدا کی جاتی ہے جس کی فی یونٹ لاگت صرف 1.25 روپے آتی ھے۔ یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ نیپرا کو درخواست دائر کی گئی ہے کہ غازی بروتھا ڈیم سے بجلی پیدا ہونے کی لاگت بڑھا کر 10 روپے فی یونٹ کر دی جائے تاکہ کویت کو منافع دیا جائے۔اندازہ کریں کہ غازی بروتھا کے 6 ارب یونٹ کی لاگت اس وقت ساڑھے سات ارب روپے سالانہ آتی ہے جو کویت کی سرمایہ کاری کی وجہ سے بڑھ کر 60 ارب روپے سالانہ ہو جائے گی۔ اس طرح کویت سے 90 کروڑ ڈالر یعنی 250 ارب روپے کی سرمایہ کاری لینے کے عوض قوم پر سالانہ 52.5 ارب روپے کا فاضل بوجھ پڑے گا جبکہ کویت کو سالانہ 55 ارب روپے سے زیادہ کا منافع دینا پڑے گا۔ دوسرے لفظوں میں ہم صرف 5 سال میں کویت کو اس کی سرمایہ کاری سے زائد منافع دینے کے بعد بھی اس کی سرمایہ کاری کے بوجھ تلے دبے رہیں گے اس طرح کی بیرونی سرمایہ کاری دوسرے لفظوں میں آئی پی پیز کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ جس کی وجہ سے قوم کو مہنگی بجلی مل رہی ہے۔عوام مطالبہ کرتی ہے کہ ملکی سرمایہ کاروں کو آبی اور قومی ترقیاتی منصوبوں میں ایمنسٹی دے کر سکوک بانڈز یا شیئر فروخت کیے جائیں تو سرمایہ پاکستان میں ہی رہے گا بلکہ مہنگی بجلی سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے۔
بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے سرمایہ کاروں نے سولر اور ونڈ پاور پلانٹ کے 13 منصوبوں کی منظوری کیلئے آرمی چیف کو لکھے گئے خط میں کہا کہ بیوروکریسی کی رکاوٹ کے باعث 600 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے، منصوبوں سے 600 میگاواٹ سستی بجلی پیدا ہوگی۔خط میں کہا گیا ایس آئی ایف سی کے تحت منصوبوں کی منظوری دی جائے۔ ایس آئی ایف سی سے بیوروکریسی کے عمل دخل کو ختم کیا جائے۔بجلی کے منصوبوں سے 12 روپے فی یونٹ بجلی پیدا ہوگی۔ ونڈ پاور پلانٹ کے چھ منصوبے سندھ میں بنیں گے جو التواء کا شکار ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سولر پاور پلانٹ کے تین، تین منصوبے التواء کا شکار ہیں۔ پنچاب میں سولر پاور پلانٹ کا ایک منصوبہ التواء کا شکار ہے۔ منصوبوں کی تمام سٹیڈیز، گرڈز اور جنریشن لائسنس منظور ہو چکے ہیں۔ اب کوڑا کرکٹ سے بھی بجلی تیار ہونے لگی ہے۔ کوڑے سے بجلی کی پیداواری لاگت میں 50فیصد سے زیادہ کمی آئے گی جو پاکستان میں نہ صرف صنعتی پیداوار بڑھانے بلکہ عام آدمی کی سہولت کیلئے بہت ضروری ہے۔ ملک میں کوڑا کرکٹ وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ لاہور اور کراچی تو کوڑے کے حساب سے دنیا کے سب سے گندے شہر شمار ہوتے ہیں لیکن دوسرے شہر بھی اس معاملے میں ہمیشہ سے خودکفیل ہیں۔ اسے ٹھکانے لگانے کیلئے ویسٹ مینجمنٹ پر کثیر رقم صرف ہوتی ہے۔ کوڑا ضائع کرنے کی بجائے اسے بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جائے تو نہ صرف اسے تلف کرنے کے اخراجات بچیں گے بلکہ صنعتی اور گھریلو استعمال کیلئے سستی بجلی بھی ملے گی۔ پنجاب میں کوڑے سے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی منظوری ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ دوسرے صوبوں کو بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس سے گندے شہر اور علاقوں میں صفائی ستھرائی کا نظام بہتر ہو گا بلکہ توانائی کے موجودہ بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔