... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
اکیسویں میں جب ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کی ہندوستانی تاریخ رقم ہو گی تو اس میں بلقیس بانو کا نام طلائی حروف میں جگمگا رہا ہوگا۔ ایک ایسی عورت کا بے مثال عزم و حوصلہ جو حاملہ ہونے کے باوجود زعفرانی درندوں کی اجتماعی عصمت دری کا شکار ہوگئی۔ جس کے خاندان میں بیشتر لوگوں کو تہہ تیغ کردیا گیا اورخود اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا ۔ اس کے باوجود وہ خوفزدہ نہیں ہوئی ۔ وہ دل شکستہ یا مایوس بھی نہیں ہوئی کیونکہ اس کی شریعت میں مایوسی کفر ہے ۔ وہ ایک ایسے ظالم و جابر حکمراں کے سامنے ڈٹ گئی جس کے لیے انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ جو چٹکیوں میں سنجے بھٹ جیسے انصاف پسند افسر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے سے دریغ نہیں کرتا ۔ جس نے جسٹس لویا جیسے دلیر جج کو نشان ِ عبرت بناکر عدلیہ کو یہ پیغام دیا کہ اس کے راستے میں آنے والے عبرتناک انجام سے دوچار ہوسکتے ہیں ۔ اس حکمراں کے خلاف برسرِ پیکار ہوکریہ مظلوم خاتون اپنے اہل خانہ کے قاتلوں کو داخلِ زنداں کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ آگے چل کر اس خاتون کے زخموں پر نمک پاشی کے لیے قاتلوں کو نہ صرف رہا کیا گیا بلکہ ان کی پذیرائی بھی ہوئی مگر اس مذموم حرکت کے خلاف پھر سے بلقیس بانو میدان عمل میں اتری اور ان کی رہائی کو رد کروادیا ۔ بلقیس بانو کی جدو جہد کا پیغام ‘اللہ کی رحمت سے (کبھی بھی)مایوس نہ ہونا ہے ‘۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی سب سے بڑی کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ برسوں سے گجرات میں برسرِ اقتدار ہے یا گزشتہ دس سالوں سے مرکزی حکومت پر قابض ہے ۔ بی جے پی کا طرۂ امتیاز ہے کہ اس نے ملک کے اندر انصاف پسندوں کو مایوس کردیا ۔ انہیں باور کرادیا گیاکہ اب اس ملک میں عدل و انصاف کا چراغ کبھی بھی روشن نہیں ہوسکے گا۔ اس خیال خام نے ان کے حوصلے پست کرکے انہیں حرکتِ عمل سے محروم کردیا۔ وہ سوچنے لگے چونکہ اب کچھ ہو نہیںسکتا اس لیے سعیٔ لاحاصل کیوں کی جائے ۔ ابلیس کے معنیٰ ‘مایوس’ کے ہوتے ہیں ۔ وہ اور اس کے چیلے چاپڑ چاہتے ہیں کہ سب لوگ ان کی مانند مایوسی کا شکار ہوکر عدل و انصاف کے معرکہ سے دستبردار ہوجائیں لیکن بلقیس بانو نے اس سازش کو خاک میں ملاکر ثابت کردیا کہ ایک ممولہ بھی شہباز کو جھکنے پر مجبور کرسکتا ہے ۔ بلقیس بانو نے یہ پیغام دیا ہے کہ حالات کتنے بھی نامساعد کیوں نہ ہوں انسان کو کامیابی و ناکامی کے اندیشوں سے بے نیاز ہوکر اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے کیونکہ رب کائنات کاوعدہ ہے :ہر تنگی کے بعد کشادگی ہے ، بے شک ہرمشکل کے ساتھ آسانی ہے ‘۔ یہ آیت تلاوت کے ساتھ یقین ِ کامل کی متقاضی ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار کی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد اسے ذلت و پستی کی انتہا میں پہنچانے کے اندر کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ان کے دائیں ہاتھ امیت شاہ نے اس میں چار چاند لگا دئیے ۔ گجرات کے فسادات کی آگ میں روٹیاں سینک کر اپنی سرکار کو دوام بخشنے والے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے مظلومین کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا اس سے پریشان ہوکر خود ان کی اپنی پارٹی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو انہیں برسرِ محفل ‘راج دھرم کا پالن ‘ کرنے کی تلقین کرنی پڑی۔ اس کے جواب میں جب مودی نے کہا کہ ‘ہم وہی کررہے ہیں ‘تو سارے لوگ چونک پڑے کیا راج دھرم یعنی حکمراں کی ذمہ داری ایسے ادا کی کی جاتی ہے ؟ لیکن جب ڈھائی سال قبل بلقیس بانو کے مجرموں کو عین یوم آزادی کی شام کھلا چھوڑ دیا گیا اور اس کا جس بے حیائی کے ساتھ جشن منایا گیا تو ساری دنیا کو پتہ چل گیا مودی راج کے اندر راج دھرم کے معنیٰ کیا ہیں؟ اس ظالم حکومت نے اپنی جمہوری قبا ازخود تار تار کردی اور اس کے اندر سے بھیانک دیو استبداد پھر ایک بار نمودار ہوگیا ۔ مودی سرکار کو بے نقاب دیکھ کر ان لوگوں کی خوش فہمی دور ہوگئی کہ جو سوچ رہے تھے اپنا مقصد حقیقی حاصل کر لینے کے بعد وزیر اعظم بدل گئے ہیں ۔
بلقیس بانو کے خانوادہ پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے والوں کی رہائی کے بعد اس دھرتی کے ظالموں نے سوچا کہ اب انہیں اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے ایسے تمام لوگوں کو بڑا جھٹکا دیا لیکن یہ اسی لیے ممکن ہوسکا کہ بلقیس بانو نے عدالت ِعظمیٰ کے دروازے پر دستک دی ۔ وہ اگر مایوس ہوکر گھر بیٹھی رہتی تو انصاف کی کرن خود چل کر اس کے پاس نہیں آتی۔ بلقیس بانو نے یہ ثابت کردیا کہ اس دنیا میں کامیابی و کامرانی سے وہی لوگ نوازے جاتے ہیں جو انجام کی پروا کیے بغیر اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے چلے جاتے ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی چونکہ ایک سیاسی درندہ ہے اس لیے اس کی حکومت کا ہر اقدام کسی نہ کسی سیاسی مفاد کے حصول کی خاطر کیا جاتا ہے ۔ گجرات کے صوبائی انتخاب سے قبل یہ فیصلہ کروایا گیا اور اس کی خوب تشہیر کی گئی۔ انتخابی مہم کے دوران اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا کہ بیس سال قبل ایسا سبق سکھایا کہ امن و امان قائم ہوگیا ۔ اب عدالت عظمیٰ نے ایسا جوتا ماراکہ عزت و وقار اور چین و سکون ہمیشہ کے لیے غارت ہوگیا ۔ اس کو مشیت کا انصاف کہتے ہیں ۔
اڈانی کو ملنے والی کلین چِٹ کے بعد مودی سرکار کا خیال تھا کہ اب عدلیہ بھی اس کی گودی میں آچکا ہے مگر اس فیصلے نے اس کے نہ صرف ہوش اڑا دئیے بلکہ دھول چٹا دی ۔ مرکزی سرکار اس رسوائی سے اپنا پلہ نہیں جھاڑ سکتی کیونکہ 19 اکتوبر 2022 کو ان کی اپنی ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ کے اندر مودی سرکار کے خلاف دستاویزات پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وزیر اعظم مودی کے معاون امیت شاہ کی سربراہی میں مرکزی وزارت داخلہ نے مجرموں کی فاسٹ ٹریک رہائی کی منظوری دے دی تھی ۔ریاستی حکومت نے کہا تھا کہ اس نے ان افراد کی جلد رہائی کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ ‘انہوں نے 14 سال اور اس سے زیادہ عمر کی قید مکمل کر لی تھی اور ان کا جیل میں رویہ ‘اچھا’ پایا گیا تھا حالانکہ ان میں سے ایک نے پیرول کے دوران بھی عصمت دری کی کوشش کی تھی اور اس پر مقدمہ بھی درج ہوا تھا لیکن مقامی رکن اسمبلی کی دلیل تھی کہ وہ برہمن ہے ۔اس کے سنسکار اچھے ہیں ۔ اس رکن اسمبلی نے بتا دیا کہ برہمنی سماج کے اچھے اقدار کسی مجرم کو جیل کی عارضی رہائی کے دوران آبرو ریزی میں رکاوٹ نہیں بنتے ۔
بلقیس بانو کیس کا سب سے چونکانے والا پہلو یہ تھا کہ جو سرکاری ایجنسیاں حکومت کی آلۂ کار بنی ہوئی ہیں ان لوگوں نے بھی اپنی روایت سے ہٹ کر اور اپنے آپ کو خطرات میں ڈال کر حکومت کے منشاء اور رہائی کی مخالفت کی تھی۔ صوبائی حکومت کی دستاویزات میں کہا گیا ہے انڈیا کی داخلی تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے اس سے ایک سال قبل ہی قیدیوں کی رہائی کی مخالفت کی تھی۔اس کے علاوہ پولیس، سول جج اور سیشن کورٹ نے بھی اس رہائی کی مخالفت کی تھی۔ ان لوگوں کا اس امر پر اتفاق تھا کہ یہ
افراد ‘گھناؤنے ، سنگین اور بدترین’ جرائم میں ملوث پائے گئے تھے ۔ایک خصوصی عدالت کے جج نے یہاں تک کہا تھا کہ یہ نفرت پر مبنی جرم کی بدترین شکل ہے ۔ اس معاملے میں چھوٹے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔اس کے باوجودمرکزی حکومت نے نہ صرف رہائی پر اصرار کیا بلکہ ریاستی حکومت کی طرف سے مجرموں کو رہا کرنے کی درخواست کو اگلے انتخاب میں اس کا فائدہ اٹھانے کی خاطر مرکزی وزارت داخلہ نے دو ہفتوں کے اندر منظور کر لیا تھا ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے اس عارضی کا میابی پر ایسا بدنما داغ لگا دیا ہے کہ جو تا قیامت نہیں مٹ سکے گا ۔
جسٹس ناگارتھنا نے کہا کہ سزا اس لیے دی جاتی ہے تاکہ مستقبل میں جرائم کو روکا جا سکے ۔ مجرم کو سدھارنے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن مظلوم کے دکھ کا بھی احساس ہونا چاہیے ۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کو دکھ دے کر خوش ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا 13 مئی 2022 کو سپریم کورٹ میں گجرات حکومت نے حقائق کو چھپانے کا جرم کیا تھا ۔ یہ دھوکہ دہی کا عمل ہے ۔ ہائی کورٹ اور لوئر کورٹ نے مجرموں کی رہائی کے خلاف جو تبصرے کیے گئے انہیں بھی چھپایاگیا ۔ یہ پورا معاملہ گجرات حکومت کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں تھا۔ اس لیے سپریم کورٹ نے تمام 11 قصورواروں کی جلد رہائی کے فیصلے کو اور گجرات حکومت کا حکم منسوخ کردیا ۔
جسٹس ناگارتھنا نے یہ بھی کہا کہ ہر عورت عزت کی مستحق ہے ۔ خواہ وہ معاشرے میں کتنی ہی اونچی یا نیچی کیوں نہ ہو۔ گجرات میں چونکہ مرکزکی کٹھ پتلی حکومت ہے اس لیے یہ ریاستی حکومت کی نہیں بلکہ مرکزی سرکار کی رسوائی ہے ۔ اس فیصلے کے بعد اگر زعفرانیوں میں ذرہ برابر غیرت ہوتی تو وہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرتے مگر اقتدار کے ان حریصوں کا عزت و وقار کوئی سروکار نہیں ہے اس لیے سب کے سب کرسی سے چپکے ہوئے ہیں حالانکہ بلقیس بانو نامی ایک عظیم خاتون نے انہیں ذلت و رسوائی کی گہری کھائی میں ڈھکیل دیا ہے ؟ اب اس میں سے نکلنے کی خاطر امارات کے صدر اور مسلم پولیس افسر کے ساتھ روڈ شو کا تماشا کیا جارہا ہے مگر وہ کسی کام نہیں آئے گا۔ ذلت کا یہ کلنک مٹنے نہیں پائے گا۔