وجود

... loading ...

وجود

غلاظت،سڑاندبھرے کچراگھر

پیر 15 جنوری 2024 غلاظت،سڑاندبھرے کچراگھر

سمیع اللہ ملک
باباجی کے دونوں اعتراض درست تھے،میں خود بڑے عرصے سے محسوس کررہاہوں،میری تحریرمیں ایک بیزاری،ایک لاتعلقی سی آچکی ہے۔وہ تلخی،وہ آگ اوروہ سلگتاہوادردختم ہوتاجارہاہے جواس تحریرکی پہچان تھا۔ایساکیوں ہورہاہے؟میں اکثرخودسے سوال کرتاہوں۔ہربارمیں خودکویہی جواب دیتاہوں،کوئی نیاموضوع،کوئی نیاایشونہیں۔میں نے بابا جی کوبھی یہی جوازپیش کیا۔میں نے انہیں بتایا”باباجی!مہنگائی پرکتنے کالم لکھے جاسکتے ہیں؟بیروزگاری،جہالت،لاقانو نیت اوربیماری پرکوئی کہاں تک لکھ سکتاہے؟بد امنی،حکومتی رٹ،حکومتی بے حسی،لوٹ کھسوٹ،کرپشن، دفتری تاخیر،سرخ فیتہ اور سیاسی مکروفریب پرکتنے ٹن مضامین چھاپے جاسکتے ہیں؟آخرانسانی دماغ کی بھی ایک حدہوتی ہے،آپ سیاپابھی ایک حد تک کرسکتے ہیں،بچہ ماں کوکتناپیاراہوتاہے،بچہ مرجائے توماں بین کرتی ہے،روتی ہے چلاتی ہے لیکن کتنی دیر؟ایک گھنٹہ،ایک دن یاایک ہفتہ،آخربین چیخوں، چیخیں سسکیوں اورسسکیاں آہوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں،دلِ مضطرب کوچین آجاتا ہے۔ایک ہلکی سی کسک،دردکی ایک تھوڑی سی آہٹ باقی رہ جاتی ہے”۔
کالم نویسوں کے کالم بھی ایک بین،ایک چیخ ہوتے ہیں۔یہ چیخ یہ بین بتاتے ہیں کہ لوگو!تمہارے ساتھ ظلم ہوگیا،تم لٹ گئے، تم برباد ہوگئے۔اس چیخ ،اس بین پرلوگ متوجہ ہو جائیں اورظالم ٹھٹک کررک جائے توکالم اورکالم نویس کافرض پوراہوگیا لیکن اگرظالم ان چیخوں،ان بینوں کے باوجودظلم کرتارہے،ایک لمحے کیلئے اس کا ہاتھ نہ رکے،اس کے ماتھے پرندامت کاپسینہ تک نہ آئے،تووہ چیخ،وہ بین ایک فضائی آلودگی کے سواکچھ نہیں ہوتی۔لوگ بھی اگراس چیخ اوراس بین کو معمولی سمجھیں اورایک روٹین کادرجہ دے دیں تو بھی یہ چیخیں یہ بین آوازوں کے جنگل میں ایک جھاڑی،سوکھی سڑی اورایک کچلی گھاس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔چوکیدارکے”جاگتے رہو”کے اعلان سے اگرچورگھبرائیں اور نہ ہی اہلِ محلہ کی آنکھ کھلے توچوکیدارکیاکرے گا؟اس کی پتلیوں میں بھی نیندہچکولے لے گی،اس کاضمیربھی جمائیاں لینے لگے گا۔
یقین کیجئے میں جب لکھنے بیٹھتاہوں توخودسے سوال کرتاہوں،کس کیلئے لکھ رہاہوں؟ان لوگوں کیلئے جوغلامی سہنے کی عادت،زیادتیاں برداشت کرنے کی خوجن کی نس نس میں بس چکی ہے،جواپنے اوپرہونے والے ظلم کی داستان کوبھی ایک افسانہ سمجھ کرپڑھتے ہیں،جواپنے قتل کے گواہ پرہنستے ہیں یااس حکومت کیلئے جوخداترسی کی اپیل کوپاگل اور قنوطیوں کا ”واویلا”سمجھتی ہے۔میں اس نتیجے پرپہنچ چکاہوں،آپ بیل کولیکچرکے ذریعے چیتانہیں بناسکتے۔بھیڑیئے کے دل میں بھیڑکیلئے ہمدردی بھی نہیں جگاسکتے،لہنداصاحبو!سچی بات ہے سیاپے کی یہ نائین(پیغام دینے والی مائی)تھک چکی ہے۔آخرقبرستانوں میں اذان دینے کی ایک حدہوتی ہے!رہادوسرااعتراض تومیں نے پچھلی تین دہائیوں میں سیاستدانوں کے وہ رنگ دیکھے کہ لفظ سیاست سے مجھے بدبوآتی ہے ۔مجھے محسوس ہوتاہے کہ میں کسی کچراگھرکی دیوارپربیٹھا ہوں ،ایسی دیوارجس میں اصول،انصاف،وفاداری،ایمانداری اورضمیرنام کی ہروہ خوبی ،ہروہ وصف گل سڑرہاہے،جس کی وجہ ایک درندہ اشرف المخلوقات کہلاتاہے،مجھے ان اوصاف، ان خوبیوں کے لاشوں میں کیڑے رینگتے نظرآتے ہیں۔میں نے ان پچھلی تین دہائیوں میں ان لوگوں کواپنے محسنوں کوگالیاں دیتے دیکھا۔میں نے فوجی حکمرانوں پر تنقید کرنے والوں کوان کے تلوے چاٹتے دیکھا۔آپ کویادہوگاکہ جنرل ضیا الحق نے جب کہاتھاکہ میں ان سیاستدانوں کواشارہ کروں تویہ دم ہلاتے میرے پاس آنے میں ایک لمحے کی تاخیرنہ کریں۔میں اس وقت بھی سیاسی تجزیے کے عنوان سے لکھتاتھا،اس لئے میں اشارے ہوتے اوردمیں ہلتی باآسانی دیکھتابھی رہااوراپنی بساط کے مطابق لکھتابھی رہا لیکن مشرف کادورِاقتدارتوکل کی بات ہے،ہم سب نے کھلی آنکھوں سے اشارے کے بغیردمیں ہلتیں اورزبانیں نکلتی دیکھیں ہیں۔
آپ کسی غیرت مند کوگالی دے سکتے ہیں لیکن جس کی آنکھوں کی شرم ہی مرچکی ہو،جسے پارٹی بدلتے،وفاداری تبدیل کرتے،نظریہ اورمنشوربھلاتے اتنے دیربھی نہ لگتی ہوجتنی بنیان بدلنے یاجرابیں تبدیل کرنے میں لگتی ہے تو آپ اس کو کتنابرابھلاکہہ دیں گے۔یارو!ان سے تووہ شخص بہترتھاجس نے یہ کہاتھاکہ میں انکارمیں اتناآگے جاچکا ہوں کہ میرے لئے واپسی ممکن نہیں۔باباجی!آپ خودسوچیں!بدبوکے اس جوہڑپرکیالکھاجائے؟ان غلاظت اورسڑاندبھرے کچراگھروں سے کون ساسورج طلوع ہوگا،یہ لوگ کس مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔کرپشن کی کوکھ میں پروان چڑھنے والے لوگ اپنی انا،اپنا ضمیراوراپنی زبان گروی رکھ کرجنم لیاکرتے ہیں۔وہ جمہوریت جوآمریت کے پیٹ میں ہلکورے لے رہی ہواس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟جولوگ اپنے نظریئے پرقائم نہیں رہ سکے،جواپنے لیڈروں کے نہیں ہوسکے وہ میرے یاآپ کے کیاہوں گے۔وہ میرے نظریات، میرے احساسات اورمیرے جذبات کی کیا ترجمانی کریں گے۔وہ میرے لئے تبدیلیوں کے کون سے سورج تراشیں گے،وہ انقلاب کے کن سویروں کی پنیریاں لگائیں گے؟
ہمارے یہ سیاستدان کشمیرکے مظلوم اوربیکس لوگوں کوکیاپیغام بھیج رہے ہیں جوپچھلے76سالوں سے بھارتی فوج کے نافذکردہ پابندیوں کے باوجوداپنے حق کے حصول کیلئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں اوراس تحریک کوہرحال میں اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اپناسب کچھ داؤپرلگاچکے ہیں۔بھارتی فوج86سالہ ضعیف مردِ حریت جناب سید علی گیلانی سے اس قدر خوفزدہ رہی کہ برسہابرس ان کواوران کے دوسرے کئی ساتھیوں کوجیل کی اذیت ناک کوٹھڑیوں میں بندرکھا اوران کی پاکستانی جھنڈے میں ملبوس کفن سے اس قدر خوفزدہ ہوگئے کہ سارے کشمیرمیں کرفیونافذکرنے کے باوجودان کی میت کو فوری طورپراپنے قبضے میں لیکران کی وصیت کے خلاف انتہائی عجلت میں حیدرپورہ کے قبرستان میں تدفین کردی۔کوئی ان ظالم درندوں کوتاریخ سے سبق حاصل کرنے کاکیوں نہیں کہتے کہ کہ بھلاجیل کی سلاخیں یاایسے ظالمانہ اقدامات کشمیر کی آزادی کا راستہ روک سکتے ہیں؟کیا کشمیریوں کے محبوب لیڈرسید علی گیلانی کو عوام کے دلوں سے الگ کیاجاسکاہے؟کیامجاہدہ سیدہ آسیہ ا ندرابی کے عزم کوکمزورکیاجاسکتاہے؟تاریخ گواہ ہے کہ ایسانہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہی اب ممکن ہے!پھرہمارے مقتدراشرافیہ کوبھی کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ کل ان کواورہمارے سیاستدانوں کوکل کلاں تاریخ کس نام سے یادکرے گی؟
خدا کی قسم!میں اپنے وجودپرشرمندہ ہوں،مجھے شرم آتی ہے،میں کس دور،کس عہدمیں جی رہاہوں۔میں اپنے بچوں،اپنی آئندہ نسل کوکس عہد،کس دورمیں چھوڑکرجاؤں گا۔ میں توہواکے اس جھونکے سے بھی ہلکاہوگیاہوں جواگرچلتی ہے تودنیا سے بدبوکاایک تولہ،سڑاندکاایک آدھ ماشہ کم ہوجاتاہے اورباباجی کہتے ہیں کہ میں ان سیاستدانوں پرلکھوں، شیطان کوبد دعائیں دوں،یہ جانتے ہوئے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ سیاپوں،بینوں اورچیخوں سے مردے جاگاکرتے ہیں اورنہ ہی بد دعاؤں سے شیطان مراکرتے ہیں۔
ہم سیاست سے،محبت کاچلن مانگتے ہیں
شبِ صحراسے مگرصبح ِچمن مانگتے ہیں
وہ جوابھرابھی توبادل میں لپٹ کرابھرا
اس بچھڑے ہوئے سورج سے کرن مانگتے ہیں
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجزاذنِ کلام
ہم توانسان کابے ساختہ پن مانگتے ہیں
ایسے غنچے بھی توگل چیں کی قبامیں ہیں
اسیربات کرنے کوجواپناہی دہن مانگتے ہیں
ہم کومطلوب ہے تکریم قدوگیسوکی
ہم تواہل وطن دردِوطن مانگتے ہیں


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر