... loading ...
سمیع اللہ ملک
باباجی کے دونوں اعتراض درست تھے،میں خود بڑے عرصے سے محسوس کررہاہوں،میری تحریرمیں ایک بیزاری،ایک لاتعلقی سی آچکی ہے۔وہ تلخی،وہ آگ اوروہ سلگتاہوادردختم ہوتاجارہاہے جواس تحریرکی پہچان تھا۔ایساکیوں ہورہاہے؟میں اکثرخودسے سوال کرتاہوں۔ہربارمیں خودکویہی جواب دیتاہوں،کوئی نیاموضوع،کوئی نیاایشونہیں۔میں نے بابا جی کوبھی یہی جوازپیش کیا۔میں نے انہیں بتایا”باباجی!مہنگائی پرکتنے کالم لکھے جاسکتے ہیں؟بیروزگاری،جہالت،لاقانو نیت اوربیماری پرکوئی کہاں تک لکھ سکتاہے؟بد امنی،حکومتی رٹ،حکومتی بے حسی،لوٹ کھسوٹ،کرپشن، دفتری تاخیر،سرخ فیتہ اور سیاسی مکروفریب پرکتنے ٹن مضامین چھاپے جاسکتے ہیں؟آخرانسانی دماغ کی بھی ایک حدہوتی ہے،آپ سیاپابھی ایک حد تک کرسکتے ہیں،بچہ ماں کوکتناپیاراہوتاہے،بچہ مرجائے توماں بین کرتی ہے،روتی ہے چلاتی ہے لیکن کتنی دیر؟ایک گھنٹہ،ایک دن یاایک ہفتہ،آخربین چیخوں، چیخیں سسکیوں اورسسکیاں آہوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں،دلِ مضطرب کوچین آجاتا ہے۔ایک ہلکی سی کسک،دردکی ایک تھوڑی سی آہٹ باقی رہ جاتی ہے”۔
کالم نویسوں کے کالم بھی ایک بین،ایک چیخ ہوتے ہیں۔یہ چیخ یہ بین بتاتے ہیں کہ لوگو!تمہارے ساتھ ظلم ہوگیا،تم لٹ گئے، تم برباد ہوگئے۔اس چیخ ،اس بین پرلوگ متوجہ ہو جائیں اورظالم ٹھٹک کررک جائے توکالم اورکالم نویس کافرض پوراہوگیا لیکن اگرظالم ان چیخوں،ان بینوں کے باوجودظلم کرتارہے،ایک لمحے کیلئے اس کا ہاتھ نہ رکے،اس کے ماتھے پرندامت کاپسینہ تک نہ آئے،تووہ چیخ،وہ بین ایک فضائی آلودگی کے سواکچھ نہیں ہوتی۔لوگ بھی اگراس چیخ اوراس بین کو معمولی سمجھیں اورایک روٹین کادرجہ دے دیں تو بھی یہ چیخیں یہ بین آوازوں کے جنگل میں ایک جھاڑی،سوکھی سڑی اورایک کچلی گھاس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔چوکیدارکے”جاگتے رہو”کے اعلان سے اگرچورگھبرائیں اور نہ ہی اہلِ محلہ کی آنکھ کھلے توچوکیدارکیاکرے گا؟اس کی پتلیوں میں بھی نیندہچکولے لے گی،اس کاضمیربھی جمائیاں لینے لگے گا۔
یقین کیجئے میں جب لکھنے بیٹھتاہوں توخودسے سوال کرتاہوں،کس کیلئے لکھ رہاہوں؟ان لوگوں کیلئے جوغلامی سہنے کی عادت،زیادتیاں برداشت کرنے کی خوجن کی نس نس میں بس چکی ہے،جواپنے اوپرہونے والے ظلم کی داستان کوبھی ایک افسانہ سمجھ کرپڑھتے ہیں،جواپنے قتل کے گواہ پرہنستے ہیں یااس حکومت کیلئے جوخداترسی کی اپیل کوپاگل اور قنوطیوں کا ”واویلا”سمجھتی ہے۔میں اس نتیجے پرپہنچ چکاہوں،آپ بیل کولیکچرکے ذریعے چیتانہیں بناسکتے۔بھیڑیئے کے دل میں بھیڑکیلئے ہمدردی بھی نہیں جگاسکتے،لہنداصاحبو!سچی بات ہے سیاپے کی یہ نائین(پیغام دینے والی مائی)تھک چکی ہے۔آخرقبرستانوں میں اذان دینے کی ایک حدہوتی ہے!رہادوسرااعتراض تومیں نے پچھلی تین دہائیوں میں سیاستدانوں کے وہ رنگ دیکھے کہ لفظ سیاست سے مجھے بدبوآتی ہے ۔مجھے محسوس ہوتاہے کہ میں کسی کچراگھرکی دیوارپربیٹھا ہوں ،ایسی دیوارجس میں اصول،انصاف،وفاداری،ایمانداری اورضمیرنام کی ہروہ خوبی ،ہروہ وصف گل سڑرہاہے،جس کی وجہ ایک درندہ اشرف المخلوقات کہلاتاہے،مجھے ان اوصاف، ان خوبیوں کے لاشوں میں کیڑے رینگتے نظرآتے ہیں۔میں نے ان پچھلی تین دہائیوں میں ان لوگوں کواپنے محسنوں کوگالیاں دیتے دیکھا۔میں نے فوجی حکمرانوں پر تنقید کرنے والوں کوان کے تلوے چاٹتے دیکھا۔آپ کویادہوگاکہ جنرل ضیا الحق نے جب کہاتھاکہ میں ان سیاستدانوں کواشارہ کروں تویہ دم ہلاتے میرے پاس آنے میں ایک لمحے کی تاخیرنہ کریں۔میں اس وقت بھی سیاسی تجزیے کے عنوان سے لکھتاتھا،اس لئے میں اشارے ہوتے اوردمیں ہلتی باآسانی دیکھتابھی رہااوراپنی بساط کے مطابق لکھتابھی رہا لیکن مشرف کادورِاقتدارتوکل کی بات ہے،ہم سب نے کھلی آنکھوں سے اشارے کے بغیردمیں ہلتیں اورزبانیں نکلتی دیکھیں ہیں۔
آپ کسی غیرت مند کوگالی دے سکتے ہیں لیکن جس کی آنکھوں کی شرم ہی مرچکی ہو،جسے پارٹی بدلتے،وفاداری تبدیل کرتے،نظریہ اورمنشوربھلاتے اتنے دیربھی نہ لگتی ہوجتنی بنیان بدلنے یاجرابیں تبدیل کرنے میں لگتی ہے تو آپ اس کو کتنابرابھلاکہہ دیں گے۔یارو!ان سے تووہ شخص بہترتھاجس نے یہ کہاتھاکہ میں انکارمیں اتناآگے جاچکا ہوں کہ میرے لئے واپسی ممکن نہیں۔باباجی!آپ خودسوچیں!بدبوکے اس جوہڑپرکیالکھاجائے؟ان غلاظت اورسڑاندبھرے کچراگھروں سے کون ساسورج طلوع ہوگا،یہ لوگ کس مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔کرپشن کی کوکھ میں پروان چڑھنے والے لوگ اپنی انا،اپنا ضمیراوراپنی زبان گروی رکھ کرجنم لیاکرتے ہیں۔وہ جمہوریت جوآمریت کے پیٹ میں ہلکورے لے رہی ہواس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟جولوگ اپنے نظریئے پرقائم نہیں رہ سکے،جواپنے لیڈروں کے نہیں ہوسکے وہ میرے یاآپ کے کیاہوں گے۔وہ میرے نظریات، میرے احساسات اورمیرے جذبات کی کیا ترجمانی کریں گے۔وہ میرے لئے تبدیلیوں کے کون سے سورج تراشیں گے،وہ انقلاب کے کن سویروں کی پنیریاں لگائیں گے؟
ہمارے یہ سیاستدان کشمیرکے مظلوم اوربیکس لوگوں کوکیاپیغام بھیج رہے ہیں جوپچھلے76سالوں سے بھارتی فوج کے نافذکردہ پابندیوں کے باوجوداپنے حق کے حصول کیلئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں اوراس تحریک کوہرحال میں اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اپناسب کچھ داؤپرلگاچکے ہیں۔بھارتی فوج86سالہ ضعیف مردِ حریت جناب سید علی گیلانی سے اس قدر خوفزدہ رہی کہ برسہابرس ان کواوران کے دوسرے کئی ساتھیوں کوجیل کی اذیت ناک کوٹھڑیوں میں بندرکھا اوران کی پاکستانی جھنڈے میں ملبوس کفن سے اس قدر خوفزدہ ہوگئے کہ سارے کشمیرمیں کرفیونافذکرنے کے باوجودان کی میت کو فوری طورپراپنے قبضے میں لیکران کی وصیت کے خلاف انتہائی عجلت میں حیدرپورہ کے قبرستان میں تدفین کردی۔کوئی ان ظالم درندوں کوتاریخ سے سبق حاصل کرنے کاکیوں نہیں کہتے کہ کہ بھلاجیل کی سلاخیں یاایسے ظالمانہ اقدامات کشمیر کی آزادی کا راستہ روک سکتے ہیں؟کیا کشمیریوں کے محبوب لیڈرسید علی گیلانی کو عوام کے دلوں سے الگ کیاجاسکاہے؟کیامجاہدہ سیدہ آسیہ ا ندرابی کے عزم کوکمزورکیاجاسکتاہے؟تاریخ گواہ ہے کہ ایسانہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہی اب ممکن ہے!پھرہمارے مقتدراشرافیہ کوبھی کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ کل ان کواورہمارے سیاستدانوں کوکل کلاں تاریخ کس نام سے یادکرے گی؟
خدا کی قسم!میں اپنے وجودپرشرمندہ ہوں،مجھے شرم آتی ہے،میں کس دور،کس عہدمیں جی رہاہوں۔میں اپنے بچوں،اپنی آئندہ نسل کوکس عہد،کس دورمیں چھوڑکرجاؤں گا۔ میں توہواکے اس جھونکے سے بھی ہلکاہوگیاہوں جواگرچلتی ہے تودنیا سے بدبوکاایک تولہ،سڑاندکاایک آدھ ماشہ کم ہوجاتاہے اورباباجی کہتے ہیں کہ میں ان سیاستدانوں پرلکھوں، شیطان کوبد دعائیں دوں،یہ جانتے ہوئے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ سیاپوں،بینوں اورچیخوں سے مردے جاگاکرتے ہیں اورنہ ہی بد دعاؤں سے شیطان مراکرتے ہیں۔
ہم سیاست سے،محبت کاچلن مانگتے ہیں
شبِ صحراسے مگرصبح ِچمن مانگتے ہیں
وہ جوابھرابھی توبادل میں لپٹ کرابھرا
اس بچھڑے ہوئے سورج سے کرن مانگتے ہیں
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجزاذنِ کلام
ہم توانسان کابے ساختہ پن مانگتے ہیں
ایسے غنچے بھی توگل چیں کی قبامیں ہیں
اسیربات کرنے کوجواپناہی دہن مانگتے ہیں
ہم کومطلوب ہے تکریم قدوگیسوکی
ہم تواہل وطن دردِوطن مانگتے ہیں