... loading ...
جاوید محمود
عمران کا خط اڈیالہ جیل سے ”دی اکانومسٹ” میں بطور مہمان شائع ہوا۔ اس خط پر امریکن میڈیا بحث چھیڑ گئی ہے کہ آخر اس عالمی شہرت یافتہ جریدے نے عمران خان کا خط شائع کیوں کیا ؟ وہ بھی ایک قیدی کا جس پر سینکڑوں مقدمات قائم ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ عمران خان اپنے موقف پر قائم ہیں اور اس میں کتنا سچ ہے ؟ اس خط کے شائع ہونے کے بعد امریکن اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے پاکستان میں جمہوری قوتوں کو آزادی سے کام کرنے پر زور دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران کا یہ کہناکہ امریکا نے ان کی حکومت گرائی ہے، ایک معمہ بن گیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکا اور پاکستان اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے شفاف تحقیقات کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیوں نہیں کرتے ؟
آئیے امریکا کی خارجہ پالیسی پر نظر ڈالتے ہوئے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکا نے سرد جنگ کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں 72 بار حکومتیں بدلنے کی کوشش کی ہے اور اس کا پہلی بار انکشاف وکی لیکس میں سامنے آیا تھا۔ 1947ء سے 1989 ء کے دوران امریکا نے 72 حکومتوں کو بدلنے کی کوشش کی۔ وکی لیکس کے مطابق ان میں سے 66 آپریشنز خفیہ تھے جبکہ 6 ایسے تھے جہاں امریکا نے سر عام حکومتیں گرانے کی کوششیں کیں۔ یہ تمام کے تمام آپریشنز سرد جنگ کے دوران کیے گئے تھے ۔ جس میں ایک جانب اگر روس کوئی حکومت بنا رہا تھا تو دوسری جانب امریکا اسی حکومت کو گرانے کی کوشش میں شریک تھا۔ امریکا نے جن حکومتوں کے تختے الٹے، ان میں سے شاید سب سے معروف واقعہ ایران میں ڈاکٹر مصدق کی منتخب حکومت کی معزولی ہے ۔ اس آپریشن کے سربراہ روز ویلٹ نے جب اپنے مشن کی کامیابی کی خبر امریکی صدر آئزن ہاور کو دی تو صدر جو دوسری جنگ عظیم میں متحدہ فوج کے سپریم کمانڈر تھے حیرت زدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ انھوں نے روز ویلٹ سے کہا کہ جو کام فوجیں بے پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھا کر کرتی ہیں، وہ سی آئی اے نے ایک بھی امریکی جانی نقصان کے بغیر صرف چند ملین ڈالر میں کر دکھایا ہے ،ایسا نہیں کہ ہر بار امریکافاتح رہا ہو۔ وکی لیکس کے مطابق 72 میں سے صرف 26 حکومتوں کو بدلنے میں امریکا کو کامیابی ملی جبکہ 40 میں وہ ناکام رہا۔امریکا کی جانب سے 36 حکومتیں گرانے کی کوششیں مختلف عسکری و سیاسی گروپوں کی مدد سے کی گئیں ،سیاسی طور پر صرف 5 میں کامیابی ملی۔ جبکہ براہ راست فوج کی مدد سے اسے 14 حکومتیں گرانے میں کامیابی ملی جبکہ حکومتیں گرانے کے 16 واقعات ایسے تھے جہاں انتخابات کے ذریعے من پسند پارٹیوں کو فنڈز دے کر اور مختلف حکومتوں کے خلاف پروپیگنڈا کرکے انہیں ختم کیا گیا۔ تاہم یہ کہنا کسی حد تک درست ہے کہ اگر امریکا ان امیدواروں کی بروقت امداد نہ کرتا تو وہ انتخابات جیت پاتے ؟ اس حوالے سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر اے ایس کلائن نے ایک موقع پر کہا تھا کہ حکومتیں بدلنے میں کامیابی کا انحصار صحیح وقت اور درست حکمت عملی پرہے ۔ مختار مسعود جب آرسی ڈی کے سیکریٹری جنرل تھے تو وہ تنظیم کے ہیڈ کوارٹر واقع تہران میں ان دنوں تعینات رہے جب شاہ ایران کا تختہ الٹا جا رہا تھا۔ انھوں نے ایران میں اپنے قیام کی یاداشتوں پر مشتمل ایک کتاب لوح ایام لکھی۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیںکہ آرسی ڈی کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے انھیں شہنشاہ ِایران نے ایک بار خصوصی دعوت پر اپنے خاص جزیرے پر مدعو کیا۔ تہران سے جو جہاز انھیں اس جزیرے پر لے کر جا رہاتھا اس کا پائلٹ پاکستان ائیر فورس کا سابق آفیسر تھا۔ اس نے راستے میں مجھے اس جزیرے کی خاصیت اور یہاں ٹہرائے جانے والے خاص مہمانوں کے بارے میں بتانا شروع کیا کیونکہ یہ اس کے فرائض منصبی کا حصہ تھا۔ جب وہ یہ سب کچھ بتا چکا تو کہنے لگا کہ اس جزیرے پر شہنشاہ کے پچھلے مہمان سی آئی کے چیف تھے۔ جب میں انھیں یہ ساری باتیں بتا رہا تھا تو ان کے منہ سے نکل گیا کہ اب یہ شان و شوکت تھوڑی دیر کی ہے ، پائلٹ نے کہا کہ بظاہر شاہ مضبوط ہے اور ابھی تو اس نے اپنی شہنشاہیت کا اڑھائی ہزار سالہ جشن بھی منایا ہے پھر سی آئی اے چیف یہ کیوں کہہ رہا تھا ؟ لیکن بعد کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں کہ ایران میں شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہاں ایک اسلام پسند حکومت بر سر اقتدار آگئی لیکن یہ سوال بہر حال موجود ہے کہ امریکا کا شہنشاہ کی حکومت ختم کرانے میں اگر کوئی کردار تھا تو اس کے بعد جو حکومت برسر اقتدار آئی اس نے تو اب تک ہر جگہ امریکا کو چیلنج ہی کیا ہے ۔امریکا کے معروف جریدے فارن پالیسی میگزین نے اپنی ایک اشاعت میں لکھا کہ امریکا نے حکومتیں بدلنے کی روش کا آغاز ایران سے کیا جو بعد میں رُکانہیں بلکہ اب تک جاری و ساری ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے شام میں 1949 میں فوجی حکومت کے قیام کے پیچھے بھی امریکی ہاتھ ہی بتایا جاتا ہے۔تاہم ایرانی وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق سرد جنگ کے دوران امریکا کا پہلا نشانہ بنے ۔ 1963 میں جب ایران کے وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق نے شاہ کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے ایران کی تیل کی صنعت جس کا انتظام پہلے برطانوی کمپنیاں چلا رہی تھیں،اسے قومیا لیا تو انھیں نہ صرف حکومت سے بے دخل کر دیا گیا بلکہ گرفتار بھی کر لیا گیا جہاں ان کی باقی زندگی نظر بندی میں گزری۔ بعد ازاں اس حوالے سے امریکا نے جو خفیہ دستا ویزات افشاں کیں ان میں کہا گیا تھا کہ اگر اس وقت یہ قدم نہ اٹھایا جاتا تو ایران روسی بلاک میں چلا جاتا۔ یہ وقت تھا جب سرد جنگ عروج پر تھی اور امریکا کو ریا میں روسی اور چینی فوجوں کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ جنگ میں شریک تھا۔ امریکا 1954 کی ابتدا میں گوئٹے مالا کے صدر جیکب آربنز کی مدد کر رہا تھا تا ہم جب گوئٹے مالا کے صدر نے زرعی اصلاحات کیں تو امریکی کمپنیوں کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو گیا اس کے بعد امریکا نے گوئٹے مالا کے صدر کے مخالف باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا جس پر صدر آربنز اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔اس طرز پر 1958 میں انڈوشیا، 1959 میں کیوبا ، 1960 کانگو 1960 سے 1963 عراق ، 1961 ڈومینیکن ریپبلک ،1963 میں جنوبی ویتنام ، 1964میں برازیل کے صدر کا تختہ الٹ دیا گیا۔ دوران سی آئی اے نے صدر کے خلاف مظاہرین کو پیسہ اور اسلحہ دیا اور حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ۔1973 میں جب ایک سوشلسٹ رہنما سالواڈور انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے صدر بن گئے تو صدر رچرڈ نکسن نے سی آئی کو ہدایت کی کہ چلی کی معیشت کو تباہ کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سی آئی اے نے چلی کے تین گروپوں کے ساتھ کام کیا اور انھیںاسلحہ فراہم کیا مگر یہ سازش کا میاب نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد جنرال اگستو پنوشے کے ذریعے صدر کے خلاف 1973 میں بغاوت کروائی گئی جس نے اپنے مخالفین کو چن چن کر قتل کیا مگر سی آئی اے نے نئی حکومت کی مدد جاری رکھی ۔ 1979 ـ 89 میں کمیونسٹ نظریات رکھنے والی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی آف افغانستان اقتدار میں آگئی ۔اس دوران افغانستان امریکا اور روس کے در میان میدان جنگ بن گیا۔ امریکا نے پاکستان کے ذریعے افغان مجاہدین کو اربوں ڈالرز دیے جس کی وجہ سے سرخ فوج کو افغانستان میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ترکی میں 12 ستمبر 1980ء کی فوجی بغاوت سے ایک روز پہلے 3000 امریکی فوجی ترکی پہنچے ۔1981کے اختتام پر ترکی میں کامیاب فوجی بغاوت کے بارے میں انقرہ میں سی آئی اے کے چیف پال ہنر ے نے تسلیم کیا کہ ترکی کی حکومت کا تختہ الٹنے کا کارنامہ ہمارے لوگوں کے سر جاتا ہے ۔ 1981ء میں پولینڈ ، نگارا گوا میں 1981-90 میں سی آئی اے کی مدد سے تختے الٹے گئے ۔ 1980 کمبوڈیا میں امریکا نے روسی مخالفین کو مدد فراہم کی ۔ اس دوران خانہ جنگی میں 4لاکھ دس ہزار لوگ مارے گئے ۔ 1980میں انگولا میں حکومت کے خاتمے کی کوشش کے دوران خانہ جنگی میں 10 لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے۔ فلپائن میں 1986 ء سے امریکا نے کئی دہائیوں تک صدر مار کوس کی حمایت کی لیکن پھر اچانک اس نے مارکوس کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا اور اکی بینو کے حق میں دستبردار کروایا۔ امریکا نے 11ستمبر کے حملوں کو جواز بناتے ہوئے طالبان کی حکومت ختم کردی اور اقتدار شمالی اتحاد اور دیگر اتحادی رہنماؤں کے سپر د کیا ۔ تا ہم 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد طالبان نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 2002 میں عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بنا کر امریکام اور اس کے اتحادیوں نے صدام حسین حکومت کا خاتمہ کر دیا اور بعد ازاں صدام حسین کو نئی عراقی حکومت کی جانب سے پھانسی دے دی گئی۔ 2004 میں ہیٹی کے صدر چین برٹرینڈ جب دوسری بار صدر منتخب ہوئے تو اس کے خلاف بغاوت کروائی گئی اور انھیں گرفتار کروا کر امریکی جہاز میں ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ 2006 میں فلسطین میں ہونے والے انتخابات میں حماس اور الفتح نے کامیابی حاصل کر کے متحدہ حکومت بنائی جس کی سر برا ہی اسماعیل ہنیہ کر رہے تھے ۔ 2007 میں حماس نے کنٹرول سنبھال لیا اور الفتح کے حکام کو برطرف کر دیا جس میںہونے والی جھڑپوں میں 118 افراد مارے گئے۔ اسی سال امریکا نے الفتح کے رہنما صدر عباس کو 8.4 کروڑ ڈالرز فراہم کیے تاکہ وہ اپنی دفاعی صلاحتیوں میں اضافہ کر سکے۔ امریکا نے حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کی مدد کی۔ امریکا 2004 سے صومالیہ کے اسلام مخالف جنگی کرداروں کی مدد کر رہا ہے۔ 2005 سے امریکا ایرانی حکومت کے خلاف کرنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے لوگوں کو سالانہ 30 لاکھ ڈالرز دے رہا ہے جو ایران اور ایران سے باہر حکومت کے خلاف سماجی میڈیا اور دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ امریکی کانگریس نے 2006 میں ایرانی حکومت مخالف گروپوں کی مدد کے لیے فریڈم اینڈ سپورٹ ایکٹ منظور کیا جس کے تحت انھیں سالانہ ایک کروڑ ڈالرز کی امداد دی جاتی ہے ۔ امریکی چینل اے بی سی نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ 2007 میں صدربش نے ایران میں بغاوت کے لیے 240 کروڑ ڈالرز خرچ کرنے کی منظوری دی تھی۔ 2011میں لیبیامیں عرب بہار کے دوران جب لیبیا میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تو امریکا نے وہاں اپوزیشن کی مدد کے لیے اسلحہ فراہم کیا اور قدافی کی فوجوں پر بمباری کی جس کی وجہ سے کرنل قذافی کی حکومت ختم ہو گئی اور انھیں ہلاک کر دیا گیا۔ صدر اوباما نے شام میں حکومت کی تبدیلی کے لیے اداروں کو احکامات دیے ۔ 2012 میں ”فری شام” نام کی ایک فوجی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور انھیں ہتھیاروں اور دیگر امداد کی مد میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی رقم فراہم کی گئی۔ باغیوں کو سی آئی اے نے ہرطرح کی مدد فراہم کی تمام امریکی حمایت یافتہ باغی گروہ شام کی خانہ جنگی میں مسلسل شکست سے دوچار ہیں لیکن امریکا ان کی مسلسل مدد جاری رکھے ہوئے ہے ۔ پاکستان امریکا کا اتحادی رہا ہے روس کی افغانستان میں مداخلت سے سے لے لیے کر 11 ستمبر کے حملوں کے بعد سے افغانستان میں امریکی مفادات کو جب جب خطرہ ہوا پاکستان نے ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا۔ ان دونوںمرحلوں پر اقتدار براہ راست فوجی حکمرانوں کے پاس رہا ہے ۔اس لیے ایک عام تاثر ہے کہ پاکستان میں فوجی اقتدار کو امریکی مدد حاصل ہوتی ہے لیکن اس بات کا اعتراف امریکا کی کسی دستاویز میں سامنے نہیں آیا بلکہ 11 ستمبر کے بعد ہونے والی جنگ میں پاکستان پر الزام ہے کہ اس نے در پردہ امریکی مخالفین کو مدد فراہم کی ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے پاک امریکا تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں لیکن روس یوکرین جنگ کے بعد سے پاکستان پر امریکا کا شدید دباؤہے کہ وہ اس جنگ میں مغرب کا ساتھ دے۔ اسی پس منظر میں عمران خان نے اپنی حکومت کو گرائے جانے کے پیچھے امریکی ہاتھ کی موجودگی کا الزام عائد کیا ہے، اس بات میں کتنی صداقت ہے ،وقت اس کا فیصلہ کرے گا؟