... loading ...
ایم آر ملک
سوچ ایک منہ زور چشمہ ہے جو ابلتا ہے تو شعور کی گہرائیوں تک پہنچ کر ان کی حقیقت پالیتا ہے اور وقت ریت کی طرح ہوتا ہے ہاتھ میں آجائے تو گنوائے جانے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ”جج” کا المیہ بھی یہی ہے کہ اختیارات سے زیادہ بااختیار بننے کی تگ ودو میں ہے۔جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن نے بغاوت کے ایک نئے احساس کو جنم دیا ہے کہ اب سر اٹھانے کا وقت ہے سر جھکانے کا نہیں،جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
وطن عزیز میں حادثات کی ایک تاریخ ہے جن کی پرورش ماضی میں اقتدار پسند فطرت کرتی رہی اور اس منہ زور گھوڑے کی ٹاپوں سے ہمارا کل بھی محفوظ نہیں اس 78سالہ تاریخ کے پیچھے عوامی بے چینیاں اور مقتدر طبقہ کی مفاداتی پالیسیوں کی تلخیاں ہیں اور بخدا یہ بحران جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کے لفظ ”انکار ”سے پیدا ہوا۔
تاریخ انسانی کے ماتھے کا جھومر ایسے واقعات ہیں جو اس طرح کی” نہیں” کے نتیجے میں جنم لیتے رہے۔ بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی نفسیات ایک طرح کی ہوتی ہے خواہ پتھر کے زمانے میں حکومت کرتے تھے یا آج کے ترقی یافتہ دور میں مسند ِ اقتدار پر بر اجمان ہیں ان کیلئے دنیا کا ہر نقصان قابل برداشت ہے مگر یہ گوارا نہیں کہ ان کی حکمرانی کیلئے کوئی چیلنج بن جائے وہ ہر ایک سے ”ہاں”سننے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کے آگے پیچھے،دائیں بائیں جی حضوریوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ تاریخ میں ”ہاں”کہنے والوں کی تعداد اس لئے زیادہ رہی کہ ”ہاں” کہنا آسان بھی ہے اور دنیاوی فوائد و ثمرات کا موجب بھی ”ہاں”سمجھوتا ہے اور ”نہیں”چیلنج ۔”ہاں” میں آرام و آسائش ہے لیکن ”نہیں”میں انقلاب کی چنگاریاں!
یہ عجیب اتفاق ہے کہ قدرت نے ”نہیں”کہنے والوں کو تاریخ میں امر کردیا اور ”ہاں”کی رٹ لگانے والے فنا کے گھاٹ اتر گئے ۔فرعون کے عہد میں کتنے ہوں گے جو دل سے اس کی خدائی کو پسند نہیں کرتے ہوں گے مگر تاریخ کی پیشانی پر صرف موسیٰ کا نام زندہ و تابندہ ہے۔
واقعہ کربلا کا سبب بھی یہی لفظ ”نہیں”تھا جس نے قیامت تک کفر و منافقت کے پردے چاک کردیے۔ جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفیٰ ایک” منظورِ نظر ” کے خلاف عدم اعتماد ہے۔ سچ پر کھڑا ہونا ایک انقلاب ہے جو بظاہر چھ حروف پر مبنی ہے مگر در حقیقت ایک ایسا تصور ہے جو انسان کو بے شمار تصورات سے بے گانہ کردیتا ہے۔ ایک ایسا فلسفہ جو انسانی زندگی کی ترجیحات کو بدل دیتا ہے۔ ایسی امنگ جو انسان کو ایک نہ ختم ہونے والی ترنگ سے آشنا کردیتی ہے،تجزیہ نگار کچھ بھی کہیں لیکن میرا مدعا یہ ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ کے دو معزز منصفوں کی جرات ِ انکار قو م کیلئے مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ہے،حکمرانوں کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف ڈٹ جانے کا نتیجہ اخذ ہوچکا ہے کہ سچائی کا ساتھ دینے والے ابھی موجود ہیں۔
فیصلہ کن اور نتیجہ خیز مزاحمت ن لیگی موقف کو تمام تر کمزوریوں کے ساتھ ہر خاص و عام پر کھول رہی ہے ،لے پالک اور بکائو میڈیا جس طرح کا چاہے بیانیہ گھڑے مگر عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ نظام کے خلاف جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی مزاحمت یقیناً اُس حاکمانہ روش کے خلاف فرد ِ جرم ہے جو 78برسوں سے ہم پر ایک مافیا کی شکل میں مسلط ہے ان کی مزاحمت پر حاکمِ وقت کے شہر سے لیکر خیبر تک ہر خاص و عام ان کے حق میں مظاہروں کی شکل میں ہراول ہونے والے ہیں ۔سول آمریت کے گھڑے کی مچھلی بننے والوں کے چہروں سے نقاب اُتر چکے،عدل کے سب سے بڑے ایوان سے”عدلیہ ”کے خلاف ہونے والی سازش کو ایک خود ساختہ فاتح کی جعلی جیت قرار دیا جاسکتا ہے،مفادات کے تحفظ کو قانونی شکل دینے کی ناکام خواہش کبھی پروان نہیں چڑھا کرتی،اسے ہم ایک اور این آر او کہہ سکتے ہیں جو ”جوڈیشل آمریت”کے ہاتھوں میں محبوس لا محدود اختیارات کے حصول کی خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب بھی ہم نے اخلاقی اور نظریاتی تباہی کی حدود کو چھوا اسی وقت چنگیز خان اور ہلاکو خان آئے،کئی بغداد تباہ و برباد ہوئے،کئی قرطبہ ہماری دسترس سے نکل گئے۔
غیر آئینی حکمرانوں کی منشا پر آئین کی پامالی شاید حکمرانوں کے ترکش کا آخری تیر ہے،اقتدارکے ظلم کی دراز رسی ٹوٹنے والی ہے۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی ہوس کی تکمیل کے دوران اندھی فتوحات پر اترارہا ہوتا ہے اور قدرت دور کہیں یقین کی ہلاکت کے دھاگے
بُن رہی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔