وجود

... loading ...

وجود

جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کے نام

اتوار 14 جنوری 2024 جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کے نام

ایم آر ملک

سوچ ایک منہ زور چشمہ ہے جو ابلتا ہے تو شعور کی گہرائیوں تک پہنچ کر ان کی حقیقت پالیتا ہے اور وقت ریت کی طرح ہوتا ہے ہاتھ میں آجائے تو گنوائے جانے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ”جج” کا المیہ بھی یہی ہے کہ اختیارات سے زیادہ بااختیار بننے کی تگ ودو میں ہے۔جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن نے بغاوت کے ایک نئے احساس کو جنم دیا ہے کہ اب سر اٹھانے کا وقت ہے سر جھکانے کا نہیں،جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
وطن عزیز میں حادثات کی ایک تاریخ ہے جن کی پرورش ماضی میں اقتدار پسند فطرت کرتی رہی اور اس منہ زور گھوڑے کی ٹاپوں سے ہمارا کل بھی محفوظ نہیں اس 78سالہ تاریخ کے پیچھے عوامی بے چینیاں اور مقتدر طبقہ کی مفاداتی پالیسیوں کی تلخیاں ہیں اور بخدا یہ بحران جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کے لفظ ”انکار ”سے پیدا ہوا۔
تاریخ انسانی کے ماتھے کا جھومر ایسے واقعات ہیں جو اس طرح کی” نہیں” کے نتیجے میں جنم لیتے رہے۔ بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی نفسیات ایک طرح کی ہوتی ہے خواہ پتھر کے زمانے میں حکومت کرتے تھے یا آج کے ترقی یافتہ دور میں مسند ِ اقتدار پر بر اجمان ہیں ان کیلئے دنیا کا ہر نقصان قابل برداشت ہے مگر یہ گوارا نہیں کہ ان کی حکمرانی کیلئے کوئی چیلنج بن جائے وہ ہر ایک سے ”ہاں”سننے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کے آگے پیچھے،دائیں بائیں جی حضوریوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ تاریخ میں ”ہاں”کہنے والوں کی تعداد اس لئے زیادہ رہی کہ ”ہاں” کہنا آسان بھی ہے اور دنیاوی فوائد و ثمرات کا موجب بھی ”ہاں”سمجھوتا ہے اور ”نہیں”چیلنج ۔”ہاں” میں آرام و آسائش ہے لیکن ”نہیں”میں انقلاب کی چنگاریاں!
یہ عجیب اتفاق ہے کہ قدرت نے ”نہیں”کہنے والوں کو تاریخ میں امر کردیا اور ”ہاں”کی رٹ لگانے والے فنا کے گھاٹ اتر گئے ۔فرعون کے عہد میں کتنے ہوں گے جو دل سے اس کی خدائی کو پسند نہیں کرتے ہوں گے مگر تاریخ کی پیشانی پر صرف موسیٰ کا نام زندہ و تابندہ ہے۔
واقعہ کربلا کا سبب بھی یہی لفظ ”نہیں”تھا جس نے قیامت تک کفر و منافقت کے پردے چاک کردیے۔ جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفیٰ ایک” منظورِ نظر ” کے خلاف عدم اعتماد ہے۔ سچ پر کھڑا ہونا ایک انقلاب ہے جو بظاہر چھ حروف پر مبنی ہے مگر در حقیقت ایک ایسا تصور ہے جو انسان کو بے شمار تصورات سے بے گانہ کردیتا ہے۔ ایک ایسا فلسفہ جو انسانی زندگی کی ترجیحات کو بدل دیتا ہے۔ ایسی امنگ جو انسان کو ایک نہ ختم ہونے والی ترنگ سے آشنا کردیتی ہے،تجزیہ نگار کچھ بھی کہیں لیکن میرا مدعا یہ ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ کے دو معزز منصفوں کی جرات ِ انکار قو م کیلئے مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ہے،حکمرانوں کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف ڈٹ جانے کا نتیجہ اخذ ہوچکا ہے کہ سچائی کا ساتھ دینے والے ابھی موجود ہیں۔
فیصلہ کن اور نتیجہ خیز مزاحمت ن لیگی موقف کو تمام تر کمزوریوں کے ساتھ ہر خاص و عام پر کھول رہی ہے ،لے پالک اور بکائو میڈیا جس طرح کا چاہے بیانیہ گھڑے مگر عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ نظام کے خلاف جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی مزاحمت یقیناً اُس حاکمانہ روش کے خلاف فرد ِ جرم ہے جو 78برسوں سے ہم پر ایک مافیا کی شکل میں مسلط ہے ان کی مزاحمت پر حاکمِ وقت کے شہر سے لیکر خیبر تک ہر خاص و عام ان کے حق میں مظاہروں کی شکل میں ہراول ہونے والے ہیں ۔سول آمریت کے گھڑے کی مچھلی بننے والوں کے چہروں سے نقاب اُتر چکے،عدل کے سب سے بڑے ایوان سے”عدلیہ ”کے خلاف ہونے والی سازش کو ایک خود ساختہ فاتح کی جعلی جیت قرار دیا جاسکتا ہے،مفادات کے تحفظ کو قانونی شکل دینے کی ناکام خواہش کبھی پروان نہیں چڑھا کرتی،اسے ہم ایک اور این آر او کہہ سکتے ہیں جو ”جوڈیشل آمریت”کے ہاتھوں میں محبوس لا محدود اختیارات کے حصول کی خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب بھی ہم نے اخلاقی اور نظریاتی تباہی کی حدود کو چھوا اسی وقت چنگیز خان اور ہلاکو خان آئے،کئی بغداد تباہ و برباد ہوئے،کئی قرطبہ ہماری دسترس سے نکل گئے۔
غیر آئینی حکمرانوں کی منشا پر آئین کی پامالی شاید حکمرانوں کے ترکش کا آخری تیر ہے،اقتدارکے ظلم کی دراز رسی ٹوٹنے والی ہے۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی ہوس کی تکمیل کے دوران اندھی فتوحات پر اترارہا ہوتا ہے اور قدرت دور کہیں یقین کی ہلاکت کے دھاگے
بُن رہی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر