وجود

... loading ...

وجود

عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمے کی سماعت

اتوار 14 جنوری 2024 عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمے کی سماعت

ریاض احمدچودھری

عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقدمے پر سماعت شروع ہو گئی ہے۔جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں 84 صفحات پر مشتمل ایک قانونی درخواست جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے اقدامات ‘نسل کشی کے مترادف’ ہیں کیونکہ ان کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے ایک اہم حصے کو تباہ کرنا ہے۔حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔سات اکتوبر 2023 کو حماس کے سینکڑوں جنگجو غزہ سے جنوبی اسرائیل میں داخل ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیلی ردعمل کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک غزہ میں 23000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں ان میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر درخواست میں پیش کیے گئے دلائل کے مطابق، زیر بحث قتل و غارت گری کی کارروائیوں میں فلسطینیوں کو قتل کرنا، شدید جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچانا، اور جان بوجھ کرایسے حالات پیدا کرنا شامل ہیں جن کا مقصد ‘ایک گروہ کے طور پر ان کی جسمانی تباہی کو حاصل کرنا’ ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام کے عوامی بیانات ہیں جن میں تباہی کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔
مقدمے میں غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی آپریشن کو ہنگامی طور پر معطل کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے۔ انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر تباہ کرنے والے حالات پیدا کر کے نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ جنوبی افریقہ کی وکیل عدیلہ ہاشم نے عدالت میں کہا کہ غزہ کی 23 لاکھ آبادی پر فضا، زمین اور سمندر سے اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں لوگوں کے گھر اور اہم تنصیبات تباہ ہو گئی ہیں۔ غزہ کے فلسطینیوں کو ہر جگہ بے رحمانہ بم باری کا سامنا ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا جا رہا ہے۔ حملوں میں 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور معذور ہو گئے ہیں۔ اسرائیل نے بھوک اور بیماری کے نتیجے میں موت کے خطرے سے دوچار لوگوں کے لیے انسانی امداد کی فراہمی بھی روک رکھی ہے۔ متواتر بم باری کے باعث ان لوگوں تک مدد پہنچانا ممکن نہیں رہا۔عدیلہ ہاشم نے کہا کہ لوگوں کو ان گھروں، پناہ گاہوں، ہسپتالوں، سکولوں، مساجد، گرجا گھروں میں اور خوراک و پانی ڈھونڈنے کی کوشش میں ہلاک کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ انخلا کے احکامات پر عمل کرنے میں ناکام رہیں تو انہیں ہلاک کر دیا جاتا ہے، اگر وہ اسرائیل کی طے کردہ محفوظ راہداریوں کے ذریعے نقل مکانی کریں تو تب بھی ان کے لیے سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں۔
جنوبی افریقہ نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے حملوں کے جواب میں غزہ پر اسرائیل کی عسکری کارروائی کے پہلے ہفتے میں 6,000 بم برسائے گئے۔ اس میں غزہ کے جنوبی علاقوں میں کم از کم 200 موقع پر 2,000 پاؤنڈ سے زیادہ وزنی بم بھی گرائے گئے جبکہ ان جگہوں کو محفوظ قرار دیا گیا تھا۔ ایسے ہی حملے شمالی میں پناہ گزینوں کے کیمپوں پر بھی کیے گئے۔جنوبی افریقہ کی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسرائیل کے یہ اقدامات انسداد نسل کشی کے کنونشن کی خلاف ورزی ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے دوسری عالمی جنگ کے بعد انسانیت کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے اس کنونشن کی منظوری دی تھی۔ پاکستان نے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقا کے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق قانونی موقف کا انتظار ہے۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام مستقل مندوب عثمان جدون نے جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقا کے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں غزہ نسل کشی کیس کی حمایت کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔مالدیپ اور نمیبیا نے بھی آئی سی جے میں اسرائیل کے خلاف مقدمے کی حمایت کی ہے۔
جنوبی افریقہ چاہتا ہے کہ عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو غزہ کے اندر اور اس کے خلاف تمام عسکری کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے کا حکم دے۔ لیکن یہ عملی طور پر یقینی ہے کہ اسرائیل اس طرح کے حکم کو نظر انداز کرے گا اور اس کی تعمیل بھی نہیں کروائی جا سکے گی۔کہنے کو تو عالمی عدالت انصاف کے فریقین عدالت کے فیصلوں پر قانونی طور پر پابند ہیں لیکن عملی طور پر انھیں لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ اور جنوبی افریقہ آئی سی جے کے رکن ہیں۔2022 میں عدالت نے روس کو حکم دیا تھا کہ وہ یوکرین میں ‘ فوری طور پر فوجی آپریشن کو معطل کرے’ لیکن اس حکم کو نظر انداز کیا گیا۔اسرائیل نے مقدمے میں اپنے دفاع میں دلائل دیتے ہوئے غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار حماس کو قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل نے اپنا حق دفاع استعمال کیا۔ حماس اسپتالوں اور دیگر شہری مقامات کو استعمال کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں عالمی قوانین کے مطابق ہیں۔اسرائیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ غزہ میں نسل کشی نہیں کی جارہی۔جنوبی افریقا مکمل کہانی نہیں سنا رہا، اسرائیل حماس کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
مسلم ممالک کو باور ہونا چاہیے کہ یہ جنگ جس طرح سے لبنان اور شام تک چلی گئی ہے، اسرائیل کسی اور مسلم ملک کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ جنگ کا دائرہ کار یونہی توسیع پذیر ہوتا رہا تو یہ جنگ مشرق وسطیٰ تک ہی محدود نہیں رہے گی، اس کے شعلے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔اسرائیل کا ہاتھ نہ روکا گیا تو اس سے بھی کہیں زیادہ بڑی تباہی ہو سکتی ہے۔ اس کا ادراک ان ممالک کو بھی ہونا چاہیے جو اسرائیل کی ناجائز پشت پناہی کرتے ہیں۔ کیا صرف اسرائیل کی انا کی تسکین کی خاطر کروڑوں لوگوں کو خاک اور خون میں ملنے دیا جائے۔ مسلم امہ کو خصوصی طور پر جاگنا ہوگا اور اقوام متحدہ کو بھی انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قراردادوں پر عمل کروانے کی طرف آنا چاہیے ورنہ اس کا حشر بھی اپنی پیشرو انجمنِ اقوام یا لیگ آف نیشن جیسا ہی ہوگا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر