... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
وطن عزیز کی موجودہ سیاسی صورتحال پر گفتگو سے قبل اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ فی الحال ملک میں ایک غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے ۔ اس منظر نامہ کی قریب ترین مشابہت اندرا گاندھی کے ذریعہ نافذ کردہ ایمرجنسی سے ہو نی چاہیے ۔25 اور 26 جون 1975کی درمیانی شب میں اس وقت کے صدر فخر الدین علی احمد نے ایمرجنسی کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے اور اگلی صبح وزیر اعظم اندرا گاندھی نے آل انڈیا ریڈیو پر ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا تھا۔ اس کے ساتھ بیشتر انسانی حقوق سلب کرلیے گئے ۔ اس دھاندلی کوانتظامیہ کی کسلمندی کو دور کرنے اور بدعنوانی کے خاتمہ جیسے لنگڑے لولے جواز سے ڈھانپنے کی کوشش کی گئی حالانکہ بچہ بچہ جانتا تھا کہ اگر الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ اندرا گاندھی کے خلاف نہیں آتا تو اس طرح کی حماقت کا ارتکاب کبھی نہ کرتیں جس سے آگے چل کر انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تمام گمراہ کن دعووں کے باوجود یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے اقتدار بچانے کے لیے وہ ایمرجنسی لگائی تھی اور موجودہ وزیر اعظم نے بھی اپنی جو غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کررکھی ہے اس مقصد بھی صرف اور صرف اپنی کرسی کو محفوظ رکھنا ہے ۔ اس لیے کہ الہ باد ہائی کورٹ نے ان کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
موجودہ ایمرجنسی سے مایوس ہونے والوں کو سابقہ ایمرجنسی کی تاریخ سے سبق لینا چاہیے ۔ دو سال کی ایمرجنسی کے بعد اندرا گاندھی نے 18 جنوری 1977کو اچانک دو ماہ بعد ایوانِ پارلیمان کے انتخابات کا اعلان کرکے سب کو چونکا دیا تھا۔ بظاہر ایسا محسوس ہورہا تھا جیل سے نکلنے والے پریشان حال سیاسی رہنما اور منتشر حزب اختلاف وسائل سے لیس اندراگاندھی کے سا منے بہ آسانی پسپا ہوجائے گا لیکن موقع کی نزاکت کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے تمام ہی نظریات کے حاملین اپنے سارے اختلافات کو مٹاکر حکومتِ وقت کے سامنے سینہ سپر ہوگئے ۔ یہ حسنِ اتفاق تھا جنتا پارٹی کے ساتھ اشتراکی بھی تھے سنگھ پریوار بھی تھا ۔ جماعتِ اسلامی ہند کی بھی اسے حمایت حاصل تھی اور شاہی امام بھی اس تحریک میں پیش پیش تھے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایک نہایت ہی کمزور نظر آنے والی نوزائیدہ جماعت نے وزیر اعظم مودی سے کہیں زیادہ طاقتور اندراگاندھی کے اقتدار کو اکھاڑ کر پھینک دیا۔ 16 مارچ 1977 کو منعقد ہونے والے انتخاب میں خود اندرا گاندھی اپنے ولیعہد بیٹے سنجے کے ساتھ الیکشن ہار گئیں ۔اس کے بعد 21 مارچ کو ایمرجنسی ختم ہوگئی۔
1977کے یہ چونکانے والے انتخابی نتائج دراصل ایمرجنسی سے ‘ناراضگی’ سے پیدا ہونے والی’ جنتا لہر’ کا نتیجہ تھا۔ اس نے نہ صرف کانگریس کا صفایا کر دیا بلکہ تین دہائی سے ملک پر حکومت کر نے والی پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا ۔25 جون 1975 سے 21 مارچ 1977 کے درمیان ایمرجنسی کے دوران شہری حقوق کو ختم کئے جانے کے خلاف لوک نائک جے پرکاش نارائن کی قیادت میں اٹھے طوفان میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بھی جڑ سے اکھاڑ دیا اور کانگریس کو عام انتخابات میں پہلی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سچ تو یہ ہے جنتا لہر پہلے چلی اور جنتا پارٹی انتخابات کے بعدعالمِ وجود میں آئی۔ تکنیکی طور سے بھارتیہ لوک دل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا گیا تھا ۔اندرا گاندھی کو عدالت میں شکست فاش سے دوچار کرنے والے راج نارائن نے اندرا گاندھی پشتینی سیٹ رائے بریلی میں انہیں پہلی بار شکست سے دے دی ۔ لوک دل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے راج نارائن ایک لاکھ 77 ہزار 719 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ مسز گاندھی 122512 ووٹ لاکر الیکشن ہار گئیں ۔ یہی حال اندرا گاندھی چشم و چراغ سنجے گاندھی کاہوا جو امیٹھی میں شکست کھا گئے اور آگے چل کر وزیر اعظم بننے کا ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔
ایمرجنسی کے خلاف کشمکش نے ایک ایسی نئی قیادت کو جنم دیا جس نے نہ صرف قومی سیاست کو متاثر کیا بلکہ وہ لوگ اقتدار کی چوٹی پر بھی پہنچے۔ان میں چودھری چرن سنگھ اورشیکھر تو وزیر اعظم بھی بنے ۔ اس کے علاوہ مرکزی وزراء کی تو بہت لمبی قطار تھی مثلاً لالو پرساد، چندر ، رام ولاس پاسوان، مدھولمیے ، جارج فرناڈیز ، کرپوری ٹھاکر، مرلی منوہر جوشی، رام مورتی، جنیشور مسر وغیرہ ۔ چونکانے والی بات یہ رہی کہ مستقبل کی سیاست کی شناخت میں ماہر مانے جانے والے جگ جیون رام اور ہیموتی نندن بہوگنا نے لوک دل کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا اور کامیاب ہوگئے تھے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ نئی اور دلیر قیادت سکون کی حالت میں نہیں بلکہ اضطراب کی کیفیت میں جنم لیتی ہے ۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں بھی یہی ہوا تھا اور دوسری بار ملک کے لوگ جبر واستبداد کے خلاف میدان میں اترے تو اسی کا اعادہ ہوا۔ اس وقت پورے ملک میں نعرہ گونج رہا تھا ‘سنگھاسن کو خالی کرو اب جنتا آئی ہے ‘ اور اندرا گاندھی کو اس کے آگے جھکنا پڑا۔چھٹے لوک سبھا الیکشن کے جملہ 542 سیٹوں میں سے کانگریس نے 492 سیٹ پر الیکشن لڑا تھا جبکہ کانگریس (او) 19، سی پی آئی 91، سی پی ایم 53 اور لوک دل نے 405 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے تھے ۔اس الیکشن میں لوک دل کو کل 41.32 فیصد ووٹ ملے تھے اور اس کے سب سے زیادہ 295 امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ کانگریس کو 34.52 فیصد ووٹ ملے اور اس کے 154 امیدوار انتخابات جیتے تھے ۔ سی پی آئی کا پہلے کے مقابلے میں ووٹ فیصد کم ہوا تھا اور اس کے سات امیدوار الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے . سی پی ایم کی پوزیشن ووٹ فیصد کے حساب سے پہلے مستحکم ہوئی تھی اور اسے 4.29 فیصد ووٹ ملے اور اس کے 22 امیدوار لوک سبھا پہنچنے میں کامیاب رہے تھے ۔ کانگریس (او) کو 1.72 فیصد ووٹ ملا اور اسے تین سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ریاستی سطح کی پارٹیوں کو 8.80 فیصد ووٹ ملے اور وہ 49 مقامات پر منتخب ہوئے جبکہ آزاد امیدوار نے 5.50 فیصد ووٹ لاکر نو سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔یہ ملک کا ایک تاریخی انتخاب تھا اور اب اس اسے دوہرانے کا وقت آگیا ہے ۔مذکورہ بالا اعدادو شمار گوہی دیتے ہیں کہ جب تبدیلی کی آندھی آتی ہے تو کس طرح بظاہر مضبوط نظر آنے والے خیمے کی طنابیں اکھڑ جاتی ہیں۔
ملک کا سیاسی جسد فی الحال بیمار ہے ۔ اس حقیقت کا اعتراف سارے نظریات کے حاملین کرتے ہیں لیکن علاج کے تعلق سے ان میں اختلافات ہیں۔ یہ اختلاف یونہی نہیں ہے بلکہ ا س کے پیچھے ٹھوس وجوہات ہیں۔ پہلا سبب مرض کی تشخیص کے حوالے سے ہے ۔ عام طور
پیچیدہ بیماریاں مختلف علامات کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہیں ۔ ناتجربہ کار ڈاکٹر ان علامات کو بیماری سمجھ لیتا ہے اور اپنی ساری توجہات ان کو قابو میں کرنے پر مرکوز کردیتا ہے ۔ اس طرح علاج کے باوجود اندر ہی اندر ‘مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘ والی کیفیت رونما ہوجاتی ہے اور اس کے بعد ساری دوائیاں بے اثر ہوکر رہ جاتی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامات بھی توجہ کی مستحق ہوتی ہیں۔ ان کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے بھی کچھ دوائی دینی پڑتی ہے لیکن اول تو انہیں کو سب کچھ سمجھ لینا اور دوم ان کو قابو میں کرنے کی خاطر اصل بیماری کو بڑھانے والی دوا کا استعمال کرنا خسارے کا سودہ ہے ۔
وطن عزیز کے سیاسی منظر نامہ میں انتشارکی سب سے بنیادی وجہ جڑ کو بھول کر شاخوں پر پتیوں کی تراش خراش پر اپنی ساری توانائی صرف کردیناہے ۔ اصل مرض کو نظر انداز کردینے سے وہ تندرست و توانا ہوکر مریض کو کمزور و نحیف کردیتاہے ۔آگے بڑھنے سے قبل اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ کسی فرد یا انسانی سماج پربیک وقت کئی امراض کا حملہ ہوسکتا ہے ۔ ماہر حکیم یہ دیکھتا ہے کہ ان سارے امراض میں سب سے خطرناک بیماری کون سی ہے اور اس کے علاج کو اولیت دیتا ہے ۔ درمیان میں اگر کوئی چھوٹی موٹی بیماری بہت زیادہ ابھر جائے تو عارضی طور پر اس کاخیال کرنے کے بعد پھر سے بڑے مرض کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے ۔ حالیہ سیاسی منظر نامہ کو سمجھنے اور بدلنے کے لیے اس پہلو سے صرفِ نظر سمِ قاتل ہے ۔
ملک کے موجودہ سیاسی منظر پر بحث و مباحثے کا مقصدبھی واضح رہنا چاہیے ۔ان کو بیان کرنے کا مقصد اگر اپنی علمی فوقیت جھاڑ کر مخاطبین کو مرعوب کرنا ہوتو یہ بے فائدہ سعی ہے ۔ اس کے ذریعہ عوام کو ڈرا کر اپنا کوئی ذاتی یا تنظیمی فائدہ حاصل کرنا نہایت مضر فعل ہے ۔ یہ اگر اخلاص کے ساتھ کی جانے والی محض علمی اور تحقیقی مشق ہو تو اس کے فوائد بہت محدود ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ اگر اس میں گفت و شنید کے پسِ پشت مثبت تبدیلی لانے کا داعیہ موجود نہ ہو تو یہ ساری بحث بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہے ۔ اس لیے اصلاحِ حال سے بے نیاز ہوکر اس موضوع پرکلام و قلم کی ساری محنت ایک لایعنی کوشش پر وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔ اس دورِ پر فتن میں وہ نفوس مبارکباد کے مستحق ہیں جو اخلاص کے ساتھ اپنی دینی ذمہ داری سمجھ کرمعاشرے میں بیداری اور تبدیلی لانے کا بیڑہ اٹھائیں تاکہ فسطائیت کے اس ناسور سے سارے عوام کو باالعموم اور ملت اسلامیہ کو بالخصوص نجات مل سکے ۔ خالص رضائے الٰہی کی خاطر اس مقصد کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے قرآنِ حکیم میں یہ بشارت موجود ہے :”جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے ، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے ”۔