... loading ...
ریاض احمدچودھری
خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں فلسطین میں چند یہودی خاندان آباد تھے۔ اس کے برعکس آج وہ پورے فلسطین پر غالب ہیں۔ فلسطین پر قبضہ کے پس منظر میں ان کے مذہبی تعصب کی قوت کا اثر ہے۔ یہودیوں نے اہل مغرب کی اسلام دشمنی میں نمایاں رول ادا کیا اور انہیں اس امر کا یقین دلایا کہ ”خدا کی منتخب و پسندیدہ قوم یہود کی ارض موعود(فلسطین)میں واپسی اور اس کا استقرار حضرت مسیح کی واپسی کا ضامن ہے”اس دینی میلان نے امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر کو تل ابیب یونیورسٹی میں اپنے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ میں یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ”میں بحیثیت ایک عیسائی مومن یہ ایما ن رکھتا ہوں کہ اسرائیلی حکومت کا قیام یقینا ایک الہیٰ وعدہ ہے” اس مذہبی نظریہ کی بنیا د پر یورپ اور روس سے یہودیوں کو لا کر فلسطین میں آباد کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ برطانیہ نے ان کو قانونی تحفظ دیا اور قومی ریاست اسرائیل قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اسی لئے صلیبی حکم ران ایک دوسرے سے بڑھ کر اسرائیل کی عسکری حمایت کرتے ہیں کیونکہ مسیحی صیہونیت کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ ”جب یہودی یروشلم میں ہیکل سلیمانی کی تیسری بار تعمیر میں کامیاب ہو جائیں گے تو اس کے بعد ہی نجات دہندہ مسیحا کا ظہور ہوگا”موجودہ دور کے صلیبی حکمران اس مذہبی نظریہ کے تحت اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور حماس کو چیلنج کر رہے ہیں کہ غزہ کا علاقہ چھوڑ کر چلے جاؤ۔
مسلم حکمران طبقہ مجبور و بے بس ہے کہ وہ غزہ میں محصور بھائیوں کی عسکری حمایت نہیں کر سکتا۔ امت مسلمہ، خلافت عثمانیہ کے پرچم تلے متحدتھی تو اس نے یورپ میں داخل ہو کر اللہ اکبر کی صدا بلندکی، وسطی علاقہ میں جا کر اسلام کا پرچم بلند کیا تو یہودو نصاریٰ کی ملی بھگت نے خلافت عثمانیہ کو سبوتاژ کر دیا۔ یورپی اقوام نے مسلم ریاستوں پر قبضہ جما لیا۔ جب انہیں مغربی نظام میں ڈھال دیا تو ان کو ظاہری طورپر آزاد کر دیا مگر ان کو اقوام متحدہ کے پنجرہ میں مقیدکر دیا۔ کسی علاقہ میں مسلم ظلم کی چکی میں پس رہے ہوں تو مسلم حکمران ان کی عسکری حمایت نہیں کر سکتے۔ مداخلت کرنے پر اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گردوں میں شامل ہونے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ قرون اولیٰ کے مسلمان عابد بھی تھے اور مجاہد بھی۔ جب کسی اسلامی سرحد پر باقاعدہ فوج کو مزید کمک کی ضرورت پڑتی تو عام مسلمان بھی فوج کے شانہ بشانہ جہاد میں شریک ہوتے تھے لیکن عصر حاضر میں ایک طرف اکثر و بیشتر مسلمان حکمران دینی و ملی غیرت سے محروم ہو چکے جبکہ غیر مسلم عوام کو لہو و لعب میں مبتلا کر دیا۔ انہیں کر کٹکا دیوانہ بنا دیا گیا یا موبائل کا۔ کائنات کا حاکم حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ ا س کے حکم کے بغیر درخت کا پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا۔ اللہ نے چاہا تو دریائے نیل نے موسیٰ کے لشکر کو سلامتی کا راستہ دے دیا، جب اس نے حکم دیا تو اسی دریا نیل نے فرعون کے لشکر کو غرق کردیا جبکہ آج کے مسلمان حکمران اللہ تعالیٰکی اس حاکمیت سے بے بہرہ امریکہ سے خوفزدہ ہیں۔ روس نے افغانستان پر چڑھائی کی تو اکثر مسلم حکمرانوں نے امریکہ کے حکم پر مجاہدین کو افغانستان بھیجا۔ آج حماس دفاع اسلام کیلئے جہاد کر رہے ہیں، اسرائیلی طیاروں کی بمباری کی وجہ سے عورتوں ، بچوں سمیت ہزاروں مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ یہ درندگی اور بیہیمت امریکہ کی پشت پناہی کے باعث جاری ہے۔ کسی مسلم حکمران کی جرات نہیں کہ وہ امریکہ کی ناراضگی مول لے کر حماس کی عملی طورپر عسکری مدد کرے۔
طاغوتی قوتوں نے ترکوں کے خلاف عربوں میں قوم پرستی کے جرثومہ کو تقویت دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے خلاف جہاد میڈیا میں عرب اسرائیل جنگ کے نام سے معروف ہے جبکہ حالیہ جنگ کو غزہ اسرائیل کشمکش کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ ملت اسلامیہ کے دینی راہنما مسلم امہ کو صیہونی منصوبہ سے آگاہ کریں۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں ان کی تعداد ڈیڑھ کروڑ ہے جن میں سے 35 لاکھ اسرائیل میں آباد ہیں۔ صیہونی باقی یہودیوں کو وہاں آباد کرنے کی غرض سے گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے کوشاں ہیں جس کی سرحد دریائے فرات سے لے کر نیل تک ہے جس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ مسجد اقصیٰ، قبتہ الصخرہ کو گرا کر تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنا بھی ان کا ہدف ہے۔ لہٰذا مسلمان عالم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور اپنے اندر اعلانیہ طورپر پیدا ہونے والی برائیوں کو ختم کر کے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دین اسلام پر عمل پیرا ہو جائیں اور متحدہو کر ملت کفر کے خلاف جہاد کا عزم کرلیںتو ذلت و ہزیمت کی جس حالت سے دوچار ہیں ، وہ بدل جائے گی۔ یہودی گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے عسکری محاذ پر سرگرم عمل ہیں۔ طاغوتی قوتیں اس کی پشت پر ہیں۔ چنانچہ ملت اسلامیہ کے مخلص راہ نماؤ کا فرض منصبی ہے کہ وہ او آئی سی کے ملکوں اور ان کے حکمرانوں کو ذمہ داریوں کا احساس دلائیں کہ مسجد اقصیٰ کا تحفظ مذمتی قرارداد پاس کرنے سے ممکن نہیں بلکہ جہاد ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کا حکم ہے،
”اور تم ممکن حد تک دشمنوں سے مقابلہ آرائی کی قوت اکٹھی کرو اور جنگی گھوڑے تیار کرو جن سے اللہ اور اپنے دشمنوں کو ڈراؤ”(الانفال، 60:8)
تاریخ کے اس نازک موڑ پر او آئی سی کے ممالک متحد ہو کر طاغوتی قوتوں کی ڈکٹیشن قبول کرنا ترک کردیں اور اقصیٰ کی پکار الجہاد، الجہاد کا نعرہ لگا کر حماس کے شانہ بشانہ مجاہدانہ کردار ادا کریں تو یقینا اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہوگی۔
”اگرتم اللہ (کے دین) کی مدد کروگے تو ا للہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو جما دے گا”
خدانخواستہ دست و بازو نہیں بن سکتے تو کم از کم اسرائیل اور اس کے پشت پناہ ممالک سے معاشی لین دین کا بائیکاٹ کریں، یہی وقت کا اہم تقاضا ہے۔