... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزہ پراسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کو تین ماہ مکمل ہو گئے ۔اس دوران اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر ایک ہزار 876 حملے کیے اور شہر پر 65 ہزار ٹن بارود برسایا، جس سے شہر کھنڈر بن گیا ہے۔اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی مجموعی تعداد 22 ہزار 600 ہو گئی ہے جن میں 9 ہزار 700 بچے اور 6 ہزار 830 خواتین بھی شہید ہوئیں۔ 326 ڈاکٹر اور طبی عملے کے ارکان، 106 صحافی بھی جان سے گئے، 7 ہزار سے زائد فلسطینی لاپتا ہیں جن میں 70 فی صد بچے اور خواتین شامل ہیں۔تین ماہ کے دوران اسرائیل کے غزہ پر حملوں میں 57 ہزار 910 افراد زخمی اور 19 لاکھ بے گھر ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے 130 سرکاری عمارتوں، 93 یونیورسٹیوں اور اسکولوں کو ملیا میٹ کر دیا۔ حملوں میں 292 اسکولوں اور یونی ورسٹیوں کو جزوی نقصان پہنچا۔ 122 مساجد کو شہید کیا گیا، 3 گرجا گھروں پر بھی بمباری کی گئی، 30 اسپتالوں کو مکمل طور پر غیر فعال کر دیا گیا، آثار قدیمہ کے دو مقامات بھی اسرائیلی حملوں میں کھنڈر بن گئے۔ صہیونی فوج کی بمباری سے 90فی صد آبادی بے گھر اور کھلے آسمان تلے زندگی بسرکرنے پرمجبورہیں۔ غزہ کے پناہ گزینوں کے کیمپ رفح میں قائم نجی چڑیا گھر میں فلسطینیوں نے رہائش اختیار کی ہوئی ہے جبکہ چڑیا گھر میں موجود جانور بھی اسرائیلی مظالم کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے (اوسی ایچ اے)نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے زیلی ادارے اور انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والے دیگر ادارے تین دنوں سے غزہ کے شمالی حصے میں امداد پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ جس امداد کوشمالی غزہ میں داخل ہونے سے روکا گیا تھا اس میں 30 دنوں کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے لیے ادویات اور غذائی اشیاء کے 8 ٹرک بھی شامل ہیں۔غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے باعث پیدا ہونے والی غذائی قلت نے شیر خوار بچوں کی زندگی بھی مشکل بنادی جہاں فاقہ کشی پر مجبور مائیں بچوں کو دودھ پلانے قابل بھی نہ رہیں۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کا کہنا ہے کہ صالح العاروری کی شہادت کا بدلہ لیے بغیر اسرائیل سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ امریکی حکام کو سمجھ لینا چاہیے کہ قتل عام اور خوفناک تباہی سے امن و استحکام ممکن نہیں، خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ناگزیر ہے۔ امریکی انتظامیہ کے غلط مؤقف کے باعث اسرائیل غزہ میں بڑے جرائم کا مرتکب ہوا۔ امریکا غزہ کے خلاف جارحیت میں شراکت دار ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل غزہ کی مٹی میں ڈوب رہا ہے۔ امریکی انتظامیہ اپنی غلطی تسلیم کرے اور اپنے غلط مؤقف کا ازسرنو جائزہ لے ۔ حماس اسرائیلی قبضہ ختم کرنے کے لیے بہت مضبوط اور حماس فلسطینی عوام اور قوم کا لازمی حصہ ہے۔اسرائیل جارحیت کی قیمت ادا کرنے سے پہلے اپنے قیدی زندہ نہیں نکال سکے گا۔حماس رہنماڈاکٹر سامی ابوزہری کا کہنا تھا حماس اپنے فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت روکنے کے لئے کوشاں ہے۔ ہم اسرائیلی جارحیت کے خاتمے سے پہلے کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکتے۔ امریکی انتظامیہ بھی جان لے، آزادی کی تحریک میں حماس اپنے لوگوں کے حقوق سے دستبردار نہیں ہو گی۔ادھر اسرائیلی فوج نے لبنان میں شہید ہونے والے حماس کے نائب سربراہ صلاح العروری کے خاندان سے منسوب خان یونس کی رہائشی عمارت پر وحشیانہ بمباری کی جس میں ایک ہی خاندان کے 14 افراد شہید ہوگئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ خان یونس میں ریڈ کراس کے ہیڈ کوارٹر اور العمل ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ روز اسرائیلی ڈرون حملے سے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں شہید ہونے والے القسام بریگیڈز کے رہنماؤں شیخ صالح العاروری، عزام العقرا اور محمد الرئیس کو نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد سپردخاک کر دیا گیا۔
اسرائیلی قابض فوج نے غزہ کی پٹی پر 45000 سے زیادہ میزائلوں اور بموں سے بمباری کی جن کا وزن 65000 ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مواد تھا،جو 3ایٹمی بموں کے وزن اور طاقت سے زیادہ ہے۔ غزہ کی پٹی پر 45000 سے زیادہ میزائل اور دیوہیکل بم گرائے جن میں سے کچھ کا وزن 2000 پاؤنڈ دھماکہ خیز مواد تھا۔ بموں اور میزائلوں میں سے تقریباً دو تہائی بم نان گائیڈڈ تھے۔ صیہونی فورسز نے غزہ کے 30ہسپتالوں کومکمل طور پر غیرفعال کردیا ہے ، 6 ہزار شدید زخمیوں کو علاج کے لیے فوری سفر کرنے کی ضرورت ہے تاہم صرف 645 زخمی علاج کے لئے غزہ سے باہر لے جائے گئے ، کینسر کے 10 ہزار مریض زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاہیں۔ حماس کے ترجمان خالد قدومی نے کہا ہم مسلم ممالک سے اسرائیل کیخلاف میدان جنگ میں فوجیں اتارنے کا مطالبہ نہیں کرتے لیکن چاہتے ہیں جنگ خاتمہ کیلئے اپنے مؤقف پر عملددرآمد کرائیں۔ مسلم ممالک او آئی سی کے مخفی بیانات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر اقوام متحدہ اسرائیل کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لاتا اور اسکی پشت پناہی کرنیوالوں کو اسکی حمایت سے روکتا مگر اسکی حالت یہ ہے کہ سیکرٹری جنرل سمیت اسکے نمائندگان اسرائیل کی ننگی جارحیت اور فلسطین میں بدترین انسانی المیے پر تشویش کا اظہار تو کررہے ہیں مگر بااختیار ہونے کے باوجود اسکے جنونی ہاتھ روکنے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اگر فلسطین اور اسرائیل کی جنگ طول اختیار کرگئی تویہ جنگ پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن نے فلسطینیوں کو خوراک ، ادویات اور دیگر ضروریات پہنچانے کرنے کیلئے فنڈ قائم کیا ہے جس میں لوگ دل کھول کر مدد کر رہے ہیں۔ راقم الحروف یہاں دو بہنوں کے ایثار کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہے کہ ان دونوں بہنوں نے فلسطینیوں کی امداد کیلئے الخدمت کے فنڈ میں پچاس تولے سونا اور دو لاکھ روپے نقد فراہم کئے ہیں۔ان کا یہ جذبہ و ایثار دوسرے پاکستانیوں کیلئے باعث تقلید ہے۔ آج کے معاشرے میں اس کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔