وجود

... loading ...

وجود

امریکا ،ایران تعلق اور خطے میں نیاکھیل

اتوار 07 جنوری 2024 امریکا ،ایران تعلق اور خطے میں نیاکھیل

حمیداللہ بھٹی

کئی عشروں سے دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات معمول ہیں لیکن بدھ تین جنوری کا دن ایران کے لیے ڈرائونا خواب ثابت ہوا ہے۔ یہ رواں برس کے آغازپر دہشت گردی کی ہونے والی ایسی واردات ہے جس میں 103افراد جاں بحق جبکہ 150 زخمی ہوئے۔ دہشت گردوں نے ایسے دن کا انتخاب کیا، جب ایرانی شہر کرمان میں پاسدارانِ انقلاب کے مرحوم جنرل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی تھی اور جنرل کے مقبرے میں شہریوں کی کثیر تعداد جمع تھی۔ قبرستان کے داخلی دروازے پر بارودسے بھرے بیگ رکھے گئے اور دھماکوں میںبے گناہ اور معصوم شہریوں کوموت کے گھاٹ اُتار دیا گیاجس پر پورے ملک کی فضا سوگوارہے ۔بلاشبہ یہ خوف و ہراس پھیلانے کی ایسی سوچی سمجھی سازش ہے جس کا مقصد ایران کو غیر مستحکم کرنا ،انتشار و افراتفری پھیلانا اور اشتعال دلانے کے سوا کچھ نہیں۔ دہشت گردی کے اِس واقعے کی پاکستان،سعودی عرب ،چین ،روس ،ترکی سمیت کئی ممالک اور عالمی رہنمائوں نے شدید مذمت کی ہے مگر تاحال امریکی انتظامیہ کی طر ف سے مذمت میں کوئی ایک لفظ تک نہیں بولا گیا جس کا بظاہر یہ پیغام لیا جارہا ہے کہ دہشت گردی کی اِس واردات کے پسِ پردہ ممکن ہے اُسی کے حمایت یافتہ گروہ ہوں۔ کیونکہ ایران میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کوحاصل امریکی حمایت کسی سے پوشیدہ نہیں مگر ابہام نہیں اِس میں کہ امریکہ نے کئی عشروں سے ایران سے کبھی سختی نہیں کی بلکہ بعض اوقات نرمی کامظاہرہ کیا ہے اسی بناپر تفرقہ بڑھانے جیسی سازشوں کی طرف دھیان جاتا ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی ایک واجبی سی تعلیم رکھنے والے ایک ایسے سخت گیر جنرل تھے جنھیں امریکا کے لیے مسلسل خطرہ تصور کیا جارہا تھا جنھیں جان سے مارنے کی امریکی خواہش کواُس وقت کامیابی ہوئی جب بغداد ائیرپورٹ سے نکلتے ہوئے اُنھیں تین جنوری2020کو امریکہ نے ڈرون حملے کے ذریعے مار دیا۔ اسرائیل نے ا اِ س واقعہ کوامریکہ کا دفاعی اقدام قرار دیتے ہوئے تحسین کی مگر حالیہ واقعہ پر ابھی تک اُ س کی خاموش معنی خیز ہے؟ ایران نے اپنے جنرل کی شہادت پرنہ صرف شدید احتجاج کیا بلکہ بدلہ لینے کا بھی اعلان کر دیا جس پر خطے میں تشویش کی لہر پیداہونا فطری عمل تھا مگر کچھ فہمیدہ حلقوں کو یقین تھا کہ دونوں ممالک ہرگز مد ِ مقابل نہیں آئیں گے کیونکہ دونوں کا مفاد ایک دوسرے کی بقا میں ہے۔ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کو یقین دلا رکھاہے کہ انھیں اسرائیل سے زیادہ ایران سے خطرہ ہے تووہ بھلا کیوںکرایران کو کمزور کر سکتاہے؟ کمزور ایران اُس کے مفادات کے حصول کے لیے کارگر ہی نہیں۔ جنرل قسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایرانی اشتعال انگیزی پر امریکہ نے ناصرف خلاف توقع صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا بلکہ ایران کی طرف سے میزائل حملے کی معلومات ملتے ہی عراق میں موجود اپنے اڈوں سے فوجی دیگر جگہوں پر منتقل کر لیے۔ اِس طرح ایرانی حکومت نے بدلہ لینے کے اعلان کو بھی عملی جامہ پہنا دیا۔اپنے عوام کی نظروں میں سرخروہوگئی اور امریکہ کو کچھ خاص نقصان بھی نہ ہوا ۔یہاں تک کہ کسی فوجی کی ہلاکت تو درکنا ر کوئی ایک زخمی تک نہ ہوسکا ۔اسی بناپر نکتہ دان اِن میزائل حملوں کو دوستانہ قرار دیتے ہیں۔ امریکی حکومت کا عرصہ سے منصوبہ ہے کہ مسلم ممالک کو مسلکی اختلافات میں الجھا کر کمزور کیا جائے۔ اِس طرح نہ صرف اُن کے وسائل ہتھیائے جا سکتے ہیں بلکہ جب چاہے کسی کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ایران اور عراق آٹھ سالہ جنگ کو اسی سوچ کا نتیجہ کہہ سکتے ہیں۔ اب افغانستان کے ذریعے پاکستان اور ایران پر دبائو بڑھایا جارہا ہے جس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔
مہساامینی کی پولیس تشدد سے ہلاکت کے بعدسے ایران مظاہروں اور احتجاج کی ایسی شدید لہر کی لپیٹ میں ہے جس میں بڑی تعداد میں شہریوں کی اموات ہو چکیں۔ مظاہرین سے ایرانی حکومت نہ صرف سختی سے پیش آرہی ہے بلکہ جانی نقصان کے باوجود لباس کے معاملے میں کسی کو کسی قسم کی رعایت دینے پر تیار نہیں جبکہ مظاہرین اِسے شہری آزادیوں کو سلب کرنے کی حکمت ِعملی کاحصہ قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے احتجاج اور مظاہرے پُرامن نہیں رہے بلکہ پُرتشددہو چکے ہیں۔ اِس دوران درجنوں افراد جانوں سے محروم ہوگئے جبکہ کچھ کوپھانسی بھی دی جا چکی ہے مگر کسی طرف سے ابھی تک لچک کے کوئی آثارہویدا نہیں۔ یہ درست ہے کہ مظاہرین کی امریکہ اور مغربی ممالک پُشت پناہی کررہے ہیں مگر بات اتنی سادہ نہیں جیسی پیش کی جا رہی ہے بلکہ ایرانی جوہری پروگرام ہو یا پراکسی وار ،امریکہ اور مغربی ممالک نے ہمیشہ چشم پوشی کی ہے۔ اسرائیل بھی ایران کے خلاف کارروائی کا عندیہ تو دیتا رہتا ہے مگر عملی طورپرکبھی حرکت میں نہیں آیاجس سے ماہرین نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کمزور ایران کسی طورامریکہ ،مغربی ممالک اور اسرائیل کے مفاد میں نہیں۔ اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ یمن کے حوثی ہوں ،شامی حکومت کی کارروائیاں ،یا غزہ اور لبنان کے جنگجو،سب کو ایران کی حمایت حاصل ہے مگر جنگجوئوں کے خلاف کارروائیاں تو کی جاتی ہیں لیکن ایران سے اِن کی حمایت اور وسائل فراہم کرنے کے منصوبوں پر نظر ثانی کا مطالبہ نہیں کیا جا تا ۔یہ نرمی اور چشم پوشی ظاہر کرتی ہے کہ کچھ طاقتیںخطے کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ایران کو وسائل سے محروم نہیں کرنا چاہتیں ۔اسی لیے حملوں کے جواب میں ناصرف خاموش رہا جاتا ہے بلکہ ایران کی پراکسی وار سے بھی چشم پوشی کی جاتی ہے ۔
ایران و سعودیہ کے تعلقات بحال ہونے سے بھی کچھ طاقتوں کی ناخوشی عیاں حقیقت ہے مزیدیہ کہ تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ چینی کاوشوں سے ممکن ہوا۔ چین کے اثرورسوخ میں اضافہ ہویہ امریکی انتظامیہ کو کسی طور گوارہ نہیں۔ اسی لیے ڈھکے چُھپے لفظوں میں ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کی بجائے و اضح الفاظ کا چنائو کیا جاتا ہے مگر یہ تاثر لینا کہ امریکہ اور ایران ایک دوسرے کے مخالف ہیں کسی طور درست نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور اکثر اوقات دونوں ہی ایک دوسرے کی ضرورتیں بھی پورا کرتے رہتے ہیںجس میں کوئی ابہام نہیں ۔
ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنائی نے بم دھماکوں کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے سخت جواب دینے کا اعلان کیا ہے مگر تاحال کرمان واقعہ کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دھماکوں کا امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرانے کے دعوئوں کو ہم مسترد کرتے ہیں ۔نیز واقعہ کے ذمہ داروں کا فوری تعین کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔ انھوں نے اِس واقعہ کو ماضی سے ملتا جلتا قرار دیتے ہوئے داعش کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا جس سے ایسے قیاسات کو تقویت ملتی ہے کہ خطے میں ایک بار پھر ازسر نو مسلکی اختلافات کی بنیا دپر مسلم ممالک کوایک دوسرے کے مدِ مقابل لانے کی کوشش ہو رہی ہے مگر ایسے واقعات علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے ایسا خطرہ ہیں جن سے نمٹنے کے لیے مسلم ممالک میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے، وگرنہ اِس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ خطے میں مسلکی آگ بھڑکانے سے مسلم ممالک کمزور اور اُن کے وسائل ضائع ہوں گے۔ افغانستان کودہشت گردی کا منبع و مرکز بننے سے روکنے کے لیے پاکستان اور ایران کو دوطرفہ تعاون بڑھانا چاہیے تاکہ شدت پسند عناصر مسلم ممالک کے وسائل کو ضائع نہ کر سکیں ۔اِ س میں پاک و ایران کا ہی بھلا نہیں مسلم اُمہ کی بھی مضبوطی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر