... loading ...
امریکا سے
۔۔۔۔۔
جاوید محمود
فلسطین میں اس وقت جو معرکہ جاری ہے ، وہ اپنے طویل ماضی اور مستقبل کے حوالے سے نہ صرف عرب دنیا بلکہ عالم اسلام اور پوری دنیائے انسانیت کا مشترکہ مسئلہ ہے جس کے تینوں دائروں سے کوئی بھی ملک اور قوم لا تعلق نہیں رہ سکتے ۔ باقی ساری تفصیلات سے قطع نظر اس وقت مشرقِ وسطی میں جن قوتوں کے درمیان کشمکش جاری ہے، اس کے بنیادی فریق چار ہیں، ایک فریق اسرائیل ہے جس کا بطور ریاست اب سے ایک صدی پہلے کوئی وجود نہیں تھا بلکہ فلسطین خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا جسے پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے اپنی نو آبادی بنا کر دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لا کر بسانے کی مہم چلائی تھی۔ اس مہم میں برطانیہ نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے محروم کر کے ان کی جگہ یہودیوں کو باہر سے سے لا کر بسانے کی عالمی سازش کی قیادت کی تھی جس کے نتیجے میں پون صدی قبل اسرائیل بطور ریاست کے دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا ۔ اقوام متحدہ کی تقسیم کے مطابق قائم ہونے والے اسرائیل کو فلسطینیوں کے علاوہ پاکستان،سعودی عرب اور دیگر بہت سے ممالک نے اب تک تسلیم نہیں کیا، جس کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے فرمایا تھا کہ اسرائیل ایک نا جائز ریاست ہے جسے ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے ۔ اقوام متحدہ کے تحت قائم ہونے والی اس نا جائز ریاست میں “بیت المقدس” اور غزہ اسرائیل کا حصہ نہیں تھے اور ان علاقوں پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کرکے وہاں تسلط جما لیا تھا۔ اسرائیل کا اس خطہ میں اصل ہدف ”گریٹر اسرائیل” ہے یعنی حضرت سلیمان علیہ اسلام کے دور کی عالمی حکومت کو دوبارہ یہودی اقتدار کے تحت قائم کرنا اسرائیل کا اصل مقصد ہے جس کی طرف وہ مسلسل بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لیے وہ سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔ اس کشمکش کا دوسرا فریق ایران ہے جس کا ٹارگٹ وہ دولت فاطمہ ہے جو خلافت ِعباسیہ کے خاتمہ کے بعد قائم ہوئی تھی اور اس خطہ کے بہت سے ممالک کو اس نے اپنی حدود میں شامل کر لیا تھا حتی کہ کچھ عرصہ حرمین شریفین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی اس کے دائرے میں شامل رہے ہیں۔ ایران اپنے پورے وسائل کے ساتھ اس ”دولت فاطمہ” کے احیا کی طرف بڑھ رہا ہے اور یمن، عراق، شام، لبنان اور خطہ کے بعض دیگر علاقوں میں اس کی حالیہ موجود گی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ اس مہم کا بہت ساحصہ عبور کر چکا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے صرف پر عزم ہی نہیں بلکہ مصروف کار بھی ہے ۔ اس کشمکش کا تیسرا بڑا فریق ترکیہ ہے جس کا ماضی خلافت عثمانیہ کی صورت میں اب پھر اس کے پیش نظر ہے۔ اس کے لیے اسکا وژن اور ایجنڈا توواضح دکھائی دے رہا ہے البتہ ابھی اس کے لیے بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ اپنے اس ہدف کی طرف بڑھنے کی پوزیشن میں ہوگا اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے دھیرے دھیرے تیاری کر رہا ہے ۔ اس کشمکش کی چو تھی فریق عرب دنیا ہے جس کا مجموعی ایجنڈا اور وژن ابھی تک واضح نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل مصر نے اس سمت پیش رفت کا آغاز کیا تھا مگر وہ عرب حکمرانوں کے باہمی تحفظات کی نذر ہو گیا تھا۔ عرب دنیا کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اس خطہ کے حکمران سارے معاملات چند خاندانوں کے دائرے میں طے کرنے پر اصرار کر رہے ، اور ان خاندانوں کا تحفظ ہی اس وقت عرب حکمرانوں کا سب سے بڑا ہدف دکھائی دیتا ہے جس کے لیے وہ کسی بھی طاقتور فریق کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دینے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں۔ غزہ کے حوالے سے فلسطین کے حالیہ بحران کا وقتی پس منظر بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مذاکرات کا ایک نیا دور سامنے آیا اور یوں لگا کہ اس راونڈ کے بعد اسرائیل پہلے سے زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے گا جسے روکنے کے لیے فلسطینی حریت پسندوں نے وہ انتہائی اقدام کر ڈالا جسے بہت سے لوگ خود کش حملہ سے تعبیر کر رہے ہیں مگر ہمارے خیال میں اگر وہ اس سے اسرائیل کو بعض اہم مسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو گئے توان کا یہ وار رائیگاں نہیں گیا اور وہ اپنے اس مقصد میں بہت حد تک سر خرو نظر آ رہے ہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو آمین ۔ اس میں فلسطینیوں کو بہت زیادہ قربانیاں دینی پڑی ہیں۔ 1948ء سے فلسطینی اسرائیل کی بربریت کا سامنا کر رہے ہیں۔ تقریباً 400 سے 500 فلسطینی دیہات مکمل طور پر تباہ ہو گئے جبکہ اس دوران سات ہزارسے لے کر13ہزارفلسطینی مارے گئے اور سات لاکھ پچاس ہزارفلسطینی اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے۔ اس دور کو فلسطینیوں کے لیے نکبہ یا تباہ کے نام سے جانا جاتا ہے، تب سے بے گھر فلسطینیوں اور ان کی اولادوں کو اپنے گھروں کو واپس آنے پر پابندی یا ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔7 اکتوبر کے واقعہ سے پہلے بھی اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام اور ان کے گھروں کو بلڈوز کرتا تھا۔ اسرائیل گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کرنے کے لیے کسی بھی واقعہ کو بنیاد بنا کر فلسطینیوں کی نسل کشی کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اور بڑی طاقتیں اور اسلامی ممالک کی اکثریت صرف مذمتی بیانات دے کر اپنی ذمہ داری پوری کر لیتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اسرائیل نے حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل اپنی دفاع کی جنگ لڑ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ایک نا جائز ریاست ہے جو بڑی طاقتوں کی بے ساکھیوںکے سہارے کھڑی ہے۔ تصور کریں امریکا اسرائیل کو سالانہ 4 بلین ڈالرز امداد فراہم کرتا ہے اس کے علاوہ جدید اسلحہ بھی دیا جاتا ہے۔ اکتوبر سے اب تک اسرائیل نے غزہ پر بمباری کر کے اسے کھنڈر میں بدل دیا ہے ۔ اس بمباری کے دوران تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تقریباً نو ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے ، اس سے بڑھ کر اور کیاظلم ہو سکتا ہے کہ اس دوران اسرائیل نے غزہ میں پانی، بجلی اور گیس کو بند کر دیا اور غزہ میں 1.4ملین سے زیادہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ اسرائیل اپنے پروپیگنڈے سے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے کہ یہ جنگ7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے شروع کی ہے اور حقائق پر پردہ ڈال رہا ہے کہ وہ تو 75برسوں سے فلسطینیوں کی زمین پر قابض ہے اور ان پر مظالم ڈھا رہا ہے۔
پر مظالم ڈھا رہا ہے صرف رواں برس میں اسرائیل نے 30 فلسطینی بچوں کو بے دردی سے مارا۔ یو این اونے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اسرائیل گزشتہ 75 برسوں سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے۔ ان کا قتل عام کیا جاتا ہے ۔روزانہ کی بنیاد پرانسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، حد تو یہ ہے کہ یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ فلسطینی انتہائی گھٹن کے ماحول میں بھی جی رہے ہیں جبکہ فلسطین کے پاس نہ فوج اور نہ لڑنے کے وسائل ہیں ۔اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل کی اپنی فوج ہے اور وہ خطے کی بڑی طاقت ہونے کے ناطے نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھاکر وار کرائمز میں ملوث ہے جو اسرائیل برسوں سے کر رہا ہے۔ اسرائیل کی تنظیم”بریک دی سائلنس”جو ریٹائرڈ فوجیوں پر مشتمل ہے ،نے کہا ہے کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کی تذلیل کرتے تھے، انھیں گن پوائنٹ پر خوفزدہ رکھتے تھے ۔ انھیں ہم اسکول جاتے ہوئے روکتے تھے اور یہی رویہ ہمارا فلسطینی ٹیچروں کے ساتھ تھا۔ المیہ یہ ہے کہ اسرائیلی اعداد و شمار پر بات کرنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ اعدادو شمار پر بات کرنے سے انکا چہرہ بے نقاب ہوتا ہے۔ ان کے ظلم اور بربریت کے اعدادو شمار گواہی دیتے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری جو کہ 27اکتوبر سے زمینی کارروائیوں کے ساتھ جاری ہے ، کے نتیجے میں کم از کم 21,978 افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک 57697 افراد زخمی ہو چکے ہیں ۔اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں زیادہ تر ہسپتال تباہ یا غیر فعال ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے غزہ کی پٹی کی 2.4 ملین آبادی کے 85 فیصد سے زائد کے بے گھر ہونے کی تصدیق کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اعداد و شمار پر بات کرنے سے بھاگتا ہے ۔کیونکہ اعداد و شمار اسرائیل کودہشت گرد در قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ ہر سال اسرائیل فلسطینیوں پر مسجد اقصیٰ میں جانے کی پابندی لگاتا ہے اور ہر سال مسلمان ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوتے ہیں کیونکہ وہ نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ تصور کریں یہودی آبادی 10 ملین کے قریب ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی کے دو بلین ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اسرائیل کے مظالم کے خلاف متحد ہو کر آواز نہیں اٹھاتے ؟ آخر کو نسا خوف ہے جو انھیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے روکتا ہے ؟ اور کیا عالمی ضمیر بھی مردہ ہو گیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔