... loading ...
میری بات/ روہیل اکبر
ملک میں اگر غریب آدمی کاسب سے بڑا مسئلہ ہے تو وہ صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی کا مسئلہ ہے۔ ہسپتال ہیں تو علاج نہیں ۔ڈاکٹرز ہیں تو تشخیص نہیں۔ نظام ہے مگر عملدرآمد نہیں۔ ہسپتالوں میں سینکڑوں ڈاکٹر ز اور ملازمین ہیں لیکن اخلاق نہیں۔ مگر اس کے باوجودبھی شکر ہے محکمہ صحت میں راجہ منصورجیسا خوبصورت اور ملنسار انسان سیکریٹری ہے ،ڈاکٹر ندرت جیسی خاتون ایم ایس ہے،ڈاکٹر مسعود شیخ جیسا پیارا انسان اے ایم ایس ہے اور ڈاکٹر سید جعفر حسین جیسا خوش اخلاق اے ایم ایس ہے مگر سب انسانوں کی فطرت الگ الگ اور ایک دوسرے سے منفرد ہوتی ہے۔ کچھ لوگ کسی کی بھلائی کرنا بھی چاہیں تونہیں کرتے کیونکہ وہ اپنی عادت سے مجبور ہوتے ہیں اور سینکڑوں میں سے چند لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر وقت مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں ۔شاید انہیں زندگی کا فلسفہ سمجھ آگیا ہویا پھر ان کے والدین کی تربیت کا اثر ہوتا ہوگا۔ اچھے والدین کی جھلک بلاشبہ اولاد میں نظر آتی ہے جن کے نیک اعمال کی جزا ان تک پہنچتی رہتی ہے اور جو مخلوق خدا کو تنگ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے بزرگ پریشان ضرور ہوتے ہونگے، ویسے بھی انسان اپنی مرضی سے دنیا میں آتا ہے اور نہ ہی اپنی خوشی سے واپس جاتا ہے۔ اس مختصر سی زندگی کو اللہ تعالی کا انعام سمجھتے ہوئے عجز وانکساری میں بسر کردی جائے تو یہی غنیمت ہے۔
محکمہ صحت کا ذکر اس لیے آگیا کہ ہر غریب انسان نے زندگی میں ایک بار سرکاری ہسپتال کا رخ ضرور کرنا ہوتا ہے۔ کبھی بزرگ والدین کو لیکر کسی نہ کسی کھڑوس ڈاکٹر کے متھے لگنا ہوتا ہے تو کبھی کسی اکتائے ہوئے لیبارٹری والے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور تو اور ہسپتالوں کے اندر بننے والی کینٹین کے ڈاکوئوں سے اپنی جیب بھی صاف کروانی پڑتی ہے جو بڑی بے خوفی سے بیمار مریضوں اور انکے لواحقین کو لوٹنے میںمصروف ہیں۔ نگراں وزیراعلیٰ کے ہسپتال میں دوروں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ ماحول بہتر ضرور ہوا ہے لیکن مکمل بہتری کے کوئی آثار نہیں کیونکہ اس نظام کو بگڑے76سال ہوچکے ہیں ایک نسل کے بعد دوسری نسل اور اب تیسری نسل ملازمتوں پر آنے کی وجہ سے لوٹ مار ،بے دردی ،استحصال ،اقربا پروری اور بدمعاشیاں انکے خون میں رچ بس چکی ہیں ہسپتالوں میںموجود اکثر ڈاکٹروں میں سے تو سفید کوٹ پہنے ڈاکو بن چکے ہیں جو سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کروانے آتے ہیں وہ انہیں اپنے پرائیوٹ کلینکوں پر بلا کر انکی کھال تک اتار لیتے ہیں۔ ایسے ڈاکٹروں نے سرکاری ملازمت کو موج مستی کا زریعہ اور نئے گاہک تاڑنے کا ایک اڈہ بنایاہوا ہے جبکہ محکمہ صحت کے وزیر کے بارے میںایک دوست بتا رہے تھے کہ انہوں نے ملک صاحب کو ایک کام کے بارے میں کہا تو انہوں نے آگے سے جواب دیا کہ آپ بھی کوئی سفارش ڈھونڈیں میں بھی دیکھتا ہوں حالانکہ وہ کام انہی کے زیر سایہ محکمہ صحت کے متعلق ہی تھا خیر اس محکمہ کا مجھ سے بڑھ کر ایک عام انسان کو زیادہ اندازہ ہے کیونکہ ان بے چارے درد کے ماروں کا یہی علاج معالجے کا ٹھکانہ ہے اپنے نظام صحت کا کیا کیا رونا روئیں یہ صرف
ایک محکمے کا حال نہیں بلکہ ہمارے ہر ادارے کا یہی حال ہے اور ان اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد نے ہی عوام کے استحصال کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ہماری پولیس بھی کسی سے پیچھے نہیں جن میں ضمیر اور اخلاقیات نام کی چیز تو شائد قریب سے بھی نہیں گزری۔ عوام کو بے عزت کرنا کپڑے اتارنا ان کا پسندیدہ مشغلہ بھی ہے۔ پچھلے ایک سال میںجو کچھ پولیس نے عوام کے ساتھ کردیا وہ بھی تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اس سے جو نفرت پھیلی وہ بھی ناقابل بیان ہے اورعوام کی درگت بنانے میں یہ محکمہ سب سے آگے ہے ۔محکمہ پولیس میں آکر بڑے سے بڑا درد دل رکھنے والا بھی چند سالوں میں پتھر دل انسان بن جاتا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں تقریبا391,364 پولیس کے جوان اور 5,731 خواتین پولیس 1668 تھانوں میں موجود ہے، جہاں انصاف بکتا ہے شرفا کے کپڑے اتارے جاتے ہیں بدمعاشوں اور دلالوں کو عزت دی جاتی ہے کسی بھی منڈی سے زیادہ خریدو فروخت ہوتی ہے۔ بولیاں لگتی ہیں اور نیلامی ہوتی ہے۔ نہیں یقین تو ہر تھانے کی ریڈ بک اٹھا کردیکھ لیں کہ انکی سرپرستی میں کتنے بستہ الف اور ب کے بدمعاش ہیں کہاں کہاں زنا کے اڈے ہیں اور انہیں کس کی سرپرستی حاصل ہے، کون منشیات فروش ہے، کہاں سے لیتا ہے اور پھر کون کون اس کے خریدار ہیں، ملک بھر کے شہروں سے خرید کر لائی جانے والی لڑکیا ں کہاں رکھی جاتی ہیں اور پھر انہیں کس کس کی عیاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کون سے ہوٹل میں کتنی لڑکیاں رہتی ہیں اور کس گیسٹ ہائوس میں شباب وکباب کی رنگین محفلیں سجتی ہیں یہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود آج تک کسی ہوٹل ،کسی اڈے ،کسی منشیات فروش، کسی بدمعاش اور بھتہ خور کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی کیوں؟کیونکہ ہر کسی کو اس کا حصہ آرام و سکون سے پہنچ رہا ہے ہاں اس کرپٹ ترین محکمہ میں بھی چند لوگ اچھے ،ایماندار اور بھلے مانس موجود ہیں مگر انکے نام نہیں لے سکتا مخالفت بڑھ جائیگی، لیکن اس محکمہ سے جانے والے دو ہیرے اور خوبصورت انسانوں کاذکر ضرور کرونگا ایک طاہر انوار پاشا اوردوسرے مرحوم شیخ اسرار احمد اللہ تعالی انہیںجنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے (آمین)۔ دونوں پولیس میں آئی جی کے عہدے تک پہنچے مگر اپنے آپ کو پولیس سے کوسوں دور رکھاوالدین کی دعائوں اور انکی تربیت کا اثر تھا یا دوستوں کی صحبت کا اثر شائداسی وجہ سے یہ لوگ پولیس والے نہ بن سکے ذکر پولیس کا ہورہا ہے توقلعہ گجر سنگھ کے علاقے عبدالکریم روڈ کا کا قصہ بھی پڑھ لیں جہاں ایک غریب والدین کابچہ عمر شہزاد تین ماہ قبل گداگرعورت اغوا ء کرکے لے گئی اور مقامی پولیس نے اس گھر کو اپنی روزی کا زریعہ بنا لیا بچے کی تلاش کے بہانے آتے ہیں اور گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے کے پیسے لیکر غائب ہوجاتے ہیںانکا بچہ اس لیے ابھی تک بازیاب نہ ہوسکا کہ پیٹرول کے علاوہ دینے کے لیے انکے پاس پیسے نہیں ہیں اور نہ ہی انکی آئی جی تک رسائی ہے یہی حال ملک بھر کی غریب عوام کا ہے جو ہسپتال سے لیکر پولیس تک ذلیل و خوار ہورہی ہے اور اوپرسے پرانے شکاری پھر سے نیا جال لیکر الیکشن لڑنے آرہے ہیں۔ کوئی پیٹرول سستا کرنے کا لولی پاپ ہاتھ میں تھامے ہوئے ہے تو کسی نے مفت علاج کا جھانسہ دینا شروع کردیا ہے اور تو اوربے روزگاروں کی مجبوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملازمتیں اور ڈھیروں تنخواہوںکا لالچ بھی دے رکھا ہے۔ میرا یقین ہے کہ اگر یہ الیکشن ہوا تو عوام ان سب نوسربازوں کا اپنے ووٹ سے احتساب ضرور کرینگے لیکن اگر سلیکشن ہوئی تو پھریہی ڈاکو عوام کا جینا مشکل کردینگے۔