... loading ...
سمیع اللہ ملک
اسلام کوعلامہ اقبال نے دورِحاضرمیں ایک ایسے ضابطہ حیات کی حیثیت سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے جس میں فکری،علمی اورعملی ہرحیثیت سے ہردورمیں انسان کی ہدایت کی صلاحیت اورتوانائی موجودہے۔انہوں نے اسلام کو ایک زندہ نظامِ حیات کی حیثیت سے پہلے خودازروئے ایمان وعلم سمجھااورپھراسی فکرکواپنے فن کے وسیلے سے عام کرنے کی جہد ِمسلسل میں مصروف ہوگئے۔شعراکے افکار کے بارے میں عام طورپرایک تاثریہ ہوتاہے کہ ان میں کشش تو ہوتی ہے لیکن زندگی کے حقائق کامقابلہ کرنے کی تاب و توانائی عطا کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔علامہ اقبال نے اس کلیے کوغلط ثابت کردیا۔وہ نہ صرف بہت بڑے شاعرتھے بلکہ بہت بلندسطح کے مفکربھی تھے لیکن اللہ تعالی کی عطاکہ انہوں نے اپنے فکروفن کوکلیتاًاپنے ایمان کی توانائی کے تابع کرلیاتھا۔
مسلمانوں کی تاریخ میں پاکستان کے قیام کاواقعہ غیرمعمولی اہمیت کاواقعہ ہے اورقیامِ پاکستان میں فکرِاقبال کی توانائی اور قائداعظم کی قیادت کی صداقت اوردیانت نے کلیدی کردار اداکیاہے۔برصغیرکے مسلمانوں کوآزمائشوں سے گزرناپڑالیکن وہ آزمائشیں ان کیلئے پست ہمتی کانہیں بلکہ عزمِ تازہ پیداکرنے کاوسیلہ بنتی چلی گئیں۔مسلمانوں میں دینی شعوربیداررکھنے میں علما،اہل علم ودانش اورسیاسی رہنماؤں سمیت مثراورمثبت کردارسب نے اداکیاہے لیکن منزل کاتعین کرنے اورپھر جذبہ ایمان کے تحت وحدت فکروعمل کے وسیلے سے اسے حاصل کرلینے میں فکرِاقبال کابڑاکلیدی کردارہے۔اقبال جہاں بہت بڑے شاعراور اسی سطح کے مفکرتھے وہاں ان کے خطبات نے خصوصا خطباتِ مدارس نے ہماری فکری بیداری کی تاریخ میں بہت مؤثرکرداراداکیاہے،اورپھریہ بھی حقیقت ہے کہ”دل سے جوبات نکلتی ہے اثررکھتی ہے”۔اقبال کی قلبی بے قراری کاان کے فکروفن میں بھرپور اظہار موجودہے!
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوزوسازرومی کبھی پیچ وتاب ورازی
ان کی بے چینی محدودنوعیت کی نہیں تھی۔وہ دیکھ رہے تھے کہ بھرپورمادی ارتقاکے مراحل طے کرنے والاانسان اس حقیقی روشنی سے محروم ہے جواسے رازِحیات سے آشناکرتی ہے۔
ڈھونڈھنے والاستاروں کی گزگاہوں کا
اپنے افکارکی دنیامیں سفرکرنہ سکا
اپنی حکمت کے خم وپیچ میں الجھاایسا
آج تک فیصلہ نفع وضررکرنہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کوگرفتارکیا
زندگی کی شبِ تاریک سحرکرنہ سکا
دورِحاضرکے انسان کایہ سب سے بڑاالمیہ ہے کہ:
ہوفکراگرخام توآزادی افکار
انساں کوحیران بنانے کاطریقہ
ایمانی توانائی نے اقبال کوساری انسانیت کیلئے فوزوفلاح کااندازِفکرعطاکیاتھالیکن اس کیلئے ایک عملی مثال کی بھی ضرورت تھی اوروہ ازروئے ایمان یہ سمجھتے تھے کہ انسانیت کواسلام کے سواکہیں اورامن وسلامتی نہیں مل سکتی،اسی لئے دورِحاضرمیں ایک ایسے نظامِ اجتماعی کے قیام کے آرزومندتھے جوبلامذہب وملت ساری انسانیت کیلئے امن وسلامتی کاوسیلہ بن جائے اوراس مقصدکیلئے برصغیرمیں مسلمانوں کی ایک آزادوخودمختارحکومت کے قیام کی آرزوان کامقصدبنی کیونکہ انہیں اس حقیقت کاادراک تھالیکن اسلام کی وحدت خیرقوت کا بہترین اظہاربرصغیرمیں ہواہے۔اقبال کی فکروفن کی بنیادکیونکہ ایمانی توانائی پر تھی اس لئے اس میں بڑاگہراداخلی ربط پایاجاتاہے۔وہ احترامِ آدمیت کے علمبردارہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امکانی طورپرہرانسان کومحض آزاد ہی”قابلِ تکریم”پیداکیا۔اس اصول کے تحت وحدتِ نسلِ انسانی پرایمان ضروری ہوجاتاہے اورمردہ فکروعمل جواس وحدت کے برعکس ہیں وہ باطل طاقتوں کے مقاصدکی تکمیل کاوسیلہ بن جاتاہے۔
علامہ اقبال محض جذباتی بنیادپراسلام سے وابستہ نہیں،وہ وابستگی گہرے علم اورتاریخی شعورکی بنیادوں پرہے۔علامہ اقبال نے بالکل درست کہاہے کہ اسلام مذہب نہیں ہے بلکہ ایک ریاست ہے اورغورکیاجائے تویہ بنیادی اہمیت کی بات ہے۔دنیاکے دیگرمذاہب کے ماننے والے زندگی کے سارے معاملات کواپنے مذہبی عقائدسے الگ رکھتے ہیں،یہ ان کی مجبوری ہے۔ان افکارواعمال سے جن کووہ مذہب کی بنیادسمجھتے ہیں،ان لوگوں کوزندگی کے معاملات اورمسائل میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی،اس لئے انہوں نے زندگی کودوحصوں میں تقسیم کرلیاہے،مذہب الگ اورریاست الگ….!یہ روش غیرمسلمانوں کیلئے درست ہوسکتی ہے لیکن مسلمانوں کیلئے ہرگزدرست نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہادی برحق رسول کرمۖ نے اسلام کوایک مکمل ریاستی نظام کی صورت میں عطاکیاہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں پیشوائیت نہیں ہے کیونکہ جہاں پیشوائیت ہوگی وہاں سیکولرازم لازمی طورپرآئے گا۔
معاشرتی زندگی نظامِ حکومت کے بغیربسرنہیں ہوسکتی۔قائد اعظم نے جب یہ کہاتھاتواس کامطلب یہی تھاکہ اسلام میں مذہبی پیشوائیت کا الگ کوئی تصورنہیں ہے بلکہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہونے کی حیثیت سے ایک نظامِ ریاست بھی ہے۔یہ حقیقت اسلام کے نظام کی تفہیم پرمبنی ہے اوراقبال کے خطبات اوران کی شاعری دونوں میں اس کی بھرپورجھلک موجود ہے۔قائد اعظم نے علامہ اقبال کیلئے”مائی گائیڈاینڈفلاسفر”کے جوالفاظ استعمال کئے تھے وہ حقیقی مفہوم رکھتے تھے۔قیامِ پاکستان کے ساتھ ہم سب پرچندخصوصی ذمہ داریاں عائدہوگئیں ہیں۔قیامِ پاکستان کوئی تاریخ کا”حادثہ یااتفاق”نہیں ہے۔اس ملک کا قیام دورِحاضرمیں حقیقی معنوں میں عالمگیرسطح اسلام کے احیاکی علامت ہے۔یہی ہماری توانائی بھی ہے اوریہی ہمارے مسائل کاسبب بھی۔ہمیں اس حقیقت کواوراس کے پس منظرمیں اپنی ذمہ داریوں کو نہ صرف سمجھنابلکہ ہمہ وقت ہرسطح پراپنے پیشِ نظربھی رکھنا چاہئے۔ہمارے فکری،علمی اورتاریخی اثاثے بہت ہیں۔ایسی
دولت دنیامیں کسی دوسری قوم کومیسرنہیں اوراس دولت کی خصوصیت میں ہے کہ وہ تاریخ کاحصہ نہیں،ہردورمیں ہمارے فکروعمل کیلئے مہمیزکاکام کرسکتی ہے۔خودپاکستان کاقیام،اس کااستحکام اوراس کی علاقائی اورجغرافیائی اہمیت اس حقیقت کاسب سے بڑاواضح ثبوت ہے۔
علامہ اقبال کایومِ پیدائش یایومِ وفات ہمارے لئے ایک محض رسم کی ادائیگی کی صورت اختیارکرتے جارہے ہیں۔رسم بھی اہم ہوتی ہے کیونکہ وہ حقیقت تک پہنچنے میں وسیلہ بنتی ہے لیکن یہ بات ہمارے لئے توجہ کاسبب بننی چاہئے کہ قائداعظم ،علامہ اقبال اوردیگرزعماکی یادیں رسم کیوں بن رہی ہیں۔جس طرح ہم اپنی جسمانی صحت کاخیال رکھتے ہیں ہمہ وقت اسی طرح ہمیں اپنی”ایمانی صحت”کاخیال بھی رکھناچاہئے،کیونکہ ایمان کے بغیرانسان اورحیوان کے جسدِخاکی ایک جیسے ہوتے ہیں۔رہے نام میرے رب کا جس نے عزت کامعیارتقوی میں رکھاہے!یہ افسردہ اورپریشان بابااقبال کہاں یادآگئے!
آزادکی رگ سخت ہے مانندرگ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے ما نندرگ تاک
محکوم کا د ل مردہ و افسردہ و نومید
آزادکادل زندہ وپرسوزوطرب ناک