... loading ...
رفیق پٹیل
عالمی سطح پر دنیا بھر میں ملکوں کی ترقی کا راز معلوم کرنے کے لیے جتنی بھی تحقیقات کی گئی ہیں اس میں یہی کلیہ یا اصول سامنے آیا ہے کہ دنیا کا کوئی ملک بھی عوام کو با اختیار اور خوشحال بنائے بغیر ترقی نہیں کرسکتا ہے یہی بات اقوام متحدہ کی جانب سے اچھی حکمرانی کے لوازمات کے لیے دنیا بھر کے محققین کے ذریعے کرائی جا نے والی تحقیقا تی رپورٹ میں بھی سامنے آئی ہے اقوام متحدہ کی قانون کی حکمرانی کی ایک اور رپورٹ کے مطابق معاشی ترقی، سیا سی ا ستحکام ، صاف ستھرے بہتر سماج ، اور انسانی حقوق کے لیے بھی قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ ملائیشیا انتہائی مسائل کے باوجود ان اصولوں پر ایک حد تک عمل کرکے حیرت انگیز معاشی ترقی کر رہا ہے ، بھارت نے تمام مسائل اور موجودہ انتہا پسندی کی کیفیت میں بھی آئین کو بالادست رکھ کر مسلسل انتخا با ت کے ذریعے کسی بڑے انتشار سے محفوظ رکھا۔ بنگلہ دیش تما م تر مسائل کے باوجو آئین ، جمہوریت اور انتخابی عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے بر خلاف پا کستان قا نون کی حکمرانی ، جمہو ریت اور آئین کی بالادستی سے انحراف کی جانب گامزن ہے جس کی وجہ سے ملک سیا سی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ پا کستا ن کو اس راہ پر گامزن کرنے میں پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ تحریک عد م اعتما د کے بعد وہ کسی بہتر سمجھوتے کی راہ ہموار کرکے انتخا با ت کے انعقاد کو یقینی بنا تے تو وہ شکست کے باوجود سرخرو ہوتے اور شاید آئندہ انتخا با ت میں ان کی پوزیشن بہتر ہوتی لیکن گز شتہ حکومت کی ناقص کارکردگی اور عمران خان کا راستہ روکنے کی انتقامی کارروائیو ں کا منفی ا ثر ہوا خود حکومتی جماعتوں کی ساکھ اس حد تک خراب ہوگئی۔ وہ الیکشن سے خوفزدہ ہیں جب تک وہ عوام کی خواہشات کا احترام نہیں کریں گی اور اس سلسلے کو جا ری رکھیں گی تو وہ اپنا وجود کھو دیں گی۔
اس وقت پاکستان اور خود ان سیاسی جماعتوںکے حق میں بہتر ہے کہ ایک وسیع سمجھوتے کی جانب اس امید سے آگے بڑھا جائے کہ عمران خا ن اور ان کی جماعت راضی ہوجا ئے گی۔ پی ٹی آئی مخالفین کے الزامات ہیںکہ عمران خان مان نہیں رہا ہے ، وہ ضدّ ی ہے سمجھوتے پر آمادہ نہیں ہے ۔اس سے نظام کو خطرہ ہے ،وہ ایک فتنہ ہے ۔اس نے نوجوانوں کو خراب کردیا ہے۔ وہ عالمی قوتوں سے تعلقات خراب کر رہا ہے۔ اس کی وجہ سے معیشت کو خطرہ ہے۔ اس کا نکاح نامہ ٹھیک نہیں۔ اس نے گھڑی چوری کی ، الخیر یونیورسٹی کی زمین خیرات میں کیسے ملی۔ اس نے نو مئی کو بعض حساس مقامات پر حملہ کرادیا ان الزامات کو عوام کی اکثریت تسلیم نہیں کررہی ہے ۔اب جب ان الزامات کو عوامی پزیرائی نہیں ملی اور پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھتی ہی جا رہی ہے جس کے بعد اب اس مطالبے پر زور دیا جا رہا ہے ۔عمران خان کو سسٹم سے باہر کرنا ہوگا ۔اس کی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر کردیا جائے ۔ایسے انتخابات کی بھی خواہش کی جا رہی ہے کہ نتا ئج بھی پی ٹی آئی کے مخالفین کی مرضی کے مطابق تیار ہوں اور اقتدار آصف زرداری ، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر ا تحادیوں کے حوالے کردیا جا ئے ۔اس خواہش کے پورا ہونے کی صورت میں بھی سیا سی اور معاشی استحکا م کی صورت ممکن نہ ہوگی ۔تحریک انصاف پر پابندی کی صورت میں اگر پی ٹی آئی نے کسی اور جماعت کی حمایت کردی تو نتائج تباہ کن ہونگے اور ملک افراتفری اور انتہا پسندی کی جانب چلا جائے گا۔ عمران خا ن کو منانا انتہائی آسا ن ہے وہ اس بات پر بھی آماد ہ ہوسکتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم کے امید وار نہیں ہونگے۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن بھی نہیں ہونگے۔ وہ جیل سے بھی باہر نہیں آئیں گے۔ اگر ملک میں قانون کی حکمرانی ، غیر جا نب دار الیکشن کمیشن کے ذریعے ا زادا نہ منصفانہ انتخابات ، بنیادی انسا نی حقوق کے احترام، آزاد و غیر جانب دار عد لیہ ، اور غیر سیاسی قو توں کی مد ا خلت کے خا تمے اور معا شرے کے کمزور طبقات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے معا ملات کے سمجھوتے پر آگے بڑھا جا سکتا ہے، نو مئی پر عدالتی کمیشن بنایا جاسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے کسی کے خلاف بھی انتقامی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہا نی بھی ہو سکتی ۔اس طرح کے معا ہدے کو بعض حلقے نا قا بل یقین اور تصوراتی معاہدہ سمجھ سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ من و عن یہی معاہدہ ہو۔ اس سے قریب تر معاملا ت پرسمجھوتہ ہو سکتاہے۔ اصل میں پی ڈی ایم کی جما عتوں اور کسی حد تک پیپلز پا رٹی کو بھی خطرہ لاحق ہے کہ ان کی اہم شخصیات آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں شکست سے دو چار نہ ہوجائیں۔ پا کستا ن اس وقت جس انتشار کا شکا ر ہے، اسے عوامی خواہشات کے خلاف جبر اً مسلط کر دہ حکومت کے ذریعے بحران سے نہیں نکا لا جا سکتا ہے۔ گز شتہ 20 ماہ سے پی ٹی آئی کے خلاف جاری آپریشن کا نتیجہ یہ ہوا کہ عد لیہ کی ساکھ ختم ہوگئی ، ا نتظامیہ بے لگام ہوگئی ، مقنّنہ اپنی اہمیت کھو بیٹھی، میڈ یا کی غیر جا نبداری بری طرح متا ثر ہوئی ، سیاسی و معاشی عدم استحکام بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ملک میں غیر آئینی حکومت کا تسلط قائم ہے ۔امن و امان کی صورت حال بھی خراب ہورہی ہے۔ لاقانونیت بڑھ رہی ہے۔ بد عنوانی عام ہے۔ معا شرہ اخلاقی زوال کا شکار ہے۔ اگر مسلم لیگ ن، پی پی پی اور مولانا فضل الرحمان کے ان مطالبات کو تسلیم کرلیا جائے پی ٹی آئی پر پا بندی لگادی جائے اور اس کے کرتا دھرتا افراد کو جیلوں میں بند کردیا جائے۔ اس کے باوجود مسلم لیگ ن، پی پی پی اور مولانا فضل الرحمان کے خلاف جاری عوام کے منفی جذبات میں مزید اضافہ ہوجا نے کی صورت ان جماعتوں کومزید زوال کا شکار کرسکتی ہیں ۔سا بقہ تجر بہ شاہد ہے کہ ان جماعتوں کے پاس ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانے کا کوئی فارمولہ موجود نہیں ہے ۔اگر ان کے پاس کوئی فارمولہ ہوتا تو وہ اپنی سولہ ماہ کی حکومت میں اس پر عمل کرکے عوامی پزیرائی حاصل کرتے ناقص کار کردگی کی وجہ سے یہ جماعتیں مسلسل زوال پزیر ہیں اور عوام میں اپنی مقبو لیت کھو رہی ہیں۔ اقتد ا ر پر قبضے کی خا طر غیر سیا سی قوتو ں کی آلہ کا ر بن کر ملک میں جاری عدم استحکا م میں اضا فہ کر رہی ہیں۔ دا نش کا تقاضہ ہے کہ وسیع البنیا د سمجھوتے سے ملک کو اس گرداب سے نکا لا جائے۔ اس میں کس کا وقتی نقصا ن ہو تا ہے تو اس کو برداشت کر کے آگے بڑھا جائے۔