وجود

... loading ...

وجود

سیاسی جماعتیں اور منشور

پیر 01 جنوری 2024 سیاسی جماعتیں اور منشور

حمیداللہ بھٹی
ملک میںعام انتخابات کے انعقاد میں ایک ماہ اور آٹھ دن رہ گئے ہیں۔ یہ کچھ زیادہ وقت نہیں مگر انتخابی گہما گہمی کافقدان ہے کیونکہ کسی حدتک قیادت تومتحرک ہے مگر کارکنوں میں اِس حوالے سے کوئی جوش وجذبہ نہیں۔ اکثرجماعتیں اُمیدواروں کا تعین تک نہیں کر سکیں بلکہ دیگر جماعتوں کے مضبوط امیدواروں کاکا نتظارکررہی ہیں کہ کسی طرح اُنھیں شامل کرلیں ۔یہ طرزِ عمل غیر منظم اور غیر فعال ہونے کی طرف اشارہ ہے جسے مشاورت کا نام دیکر امیدواروں کے اعلان میں تاخیر کی جارہی ہے ۔یہ سیاسی قیادت کے لیے کوئی اچھا تاثر نہیں۔ سیاسی جماعتوں کی مضبوطی سے ہی جمہوری اقدار مستحکم ہوتی ہیں جو کارکنوں کی فکری تربیت کے بغیر ممکن نہیں لیکن اِس فریضے کوسیاسی جماعتیں نظر انداز کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی خاندان کی ملکیت بنالیا گیاہے۔ اگر جماعتیں منظم اور کارکنوں کی فکری تربیت پرتوجہ دیں تو نہ صرف امیدواروں کا مسئلہ ختم بلکہ الیکٹ ایبلز بھی غیر اہم ہوجائیں اورسیاسی جماعتوں کی ٹوٹ پھوٹ کاعمل بھی رُک جائے۔
ملک میں جمہوراور جمہوریت کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں جس کی ذمہ دار سیاسی قیادت ہے جوسیاسی فیصلوں کرتے ہوئے بھی اِدھر اُدھر دیکھتی اور مقتدر حلقوں کی مرضی معلوم کرنے پر توجہ دیتی ہے۔ یہ عمل عوامی حلقوںمیں قیادت کاکردارمشکوک اور ناقابلِ اعتبار بنانے کے ساتھ جماعتوں کی مقبولیت کوبھی متاثرکرتاہے جس پر سیاسی قیادت کوتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پی پی اور ن لیگ کی قیادت نے جلاوطنی کے دوران میثاقِ جمہوریت سے کچھ راہوں کا تعین کیا تھا لیکن حالات بدلتے ہی نہ صرف اپنی ہی طے کردہ راہوں سے ہٹ گئیں بلکہ اقتدار کے حصول کی دوڑ میں بُری طرح شامل ہو گئیں۔ بدعنوانی کے الزامات نے جلتی پر تیل کا کام کیاجس سے عوام متنفرہوئی اورانجام کارتحریک انصاف جیسی غیر مقبول جماعت نے پی پی اور ن لیگ جیسی مقبول ترین جماعتوں کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔ اب بھی اگرمذکورہ دونوں جماعتوں کے طرزِ سیاست پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے توکچھ خاص فرق معلوم نہیں ہوتابلکہ اُسی روش پرہی گامزن لگتی ہیں جس پر چلنے سے عوامی مقبولیت سے محروم ہوئیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھیں جمہوراور جمہوریت سے نہیں محض اقتدار سے غرض ہے اور اِس کے لیے کسی بھی انتہا کو جانے کے لیے آمادہ و تیار ہیں۔ یہ تاثر اچھا نہیں عین ممکن ہے آٹھ فروری کے انتخابات میں دیگر جماعتوں کے مضبوط اُمیدوار لے کرپی پی اور ن لیگ اقتدار حاصل کرلیں لیکن یہ طرزِ عمل جماعتوں کی تطہیر کاعمل بڑھادے گا۔ استحکام پاکستان پارٹی کی مالدار قیادت خطرے کی گھنٹی توپہلے ہی بجا چکی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے بہتر یہ ہے کہ یہ اپنے کارکنوں پر بھروسہ کریں اور دیگر جماعتوں کے مضبوط امیدواروں کوٹکٹ دیکرتحریک ِ انصاف والی غلطی نہ دُہرائیں۔ اسی غلطی کی وجہ سے عدمِ اعتماد کی تحریک کے دوران راجہ ریاض جیسے لوگوں کے الگ ہونے سے نقصان سے دوچارہوئی اب یہ فیصلہ سیاسی قیادت نے کرنا ہے کہ وہ مستقبل میںایسے کسی نقصان سے بچنا چاہتی ہے یا نہیں۔
عوام اور ملک کے مفادمیں کام کرنے کی بجائے وطنِ عزیز میںہر جماعت کی اولیں تمنا اقتدار ہوتی ہے۔ حالانکہ عوامی اور ملکی مفاد کے تحفظ سے ہی دیرپا مقبولیت ملتی ہے مگر ہمارے وطن کی سیاسی جماعتیں ہمیشہ شارٹ کٹ کے چکر میں رہتی ہے۔ یہ جمہوری طرزِ عمل نہیں جو جماعتیں اپنے اغراض و مقاصد کے منافی حرکات کی مرتکب ہوتیں ہیں وہ جلد عوام کی نظروں سے گرجاتی ہیں ۔دور کیوں جائیں ملک میں مثالی نظم و ضبط کی حامل جماعت اسلامی نے اپنے امیرقاضی حسین احمد کی امارت میں اسلامی تشخص چھوڑ کر سیاسی بننے کا تجربہ کیا۔ ظالمو قاضی آرہا ہے جیسے نعرے بلند کیے۔ ملک کے طول و عرض میں عجب ہڑبونگ مچایا مگر جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو یہ جماعت عرصہ دراز سے حاصل ہونے والی نشستوں سے بھی محروم ہو گئی۔ سیاسی بنتے بنتے یہ جماعت نہ توسیاسی بن سکی البتہ اپنا اسلامی تشخص بھی کھو بیٹھی ہے۔ اب یہ ملک کی واحد جماعت ہے جس سے اتحاد بنانے میں کسی بھی سیاسی جماعت کو کوئی دلچسپی نہیں اور سیاسی میدان میں یکہ وتنہاہے۔ اِس مثال میں ایک سبق ہے کہ اقتدار کی ہوس میں اغراض و مقاصد کو نظر انداز کرنا مقبولیت کا باعث نہیں بنتا مگر سمجھایا اُسے جاتا ہے جو سمجھنے پر آمادہ ہو۔ ہمارے ملک کی قیادت میں بڑی خامی یہ ہے کہ یہ نرگسیت کا شکارہے۔ یہ کچھ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتی صرف اقتدار حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اسی لیے باربار نقصان اُٹھاتی ہے لیکن اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی نہیں کرتی۔
ملک و قوم کو مسائل سے نکالنے کے لیے کسی جماعت کے پاس کیا طریقہ کار ہے؟یہ سمجھانے کے لیے جماعتیں منشور پیش کرتی ہیں دنیا بھر میں یہی طریقہ رائج ہے۔ منشور کو دیکھ کرہی لوگ ووٹ دیتے ہیں لیکن ہمارے وطن میں سیاسی جماعتوں کے اطوار ہی نرالے ہیں۔ ملک و قوم کو مسائل سے نجات دلانے کے بلند وبانگ دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن منشور کوغیر اہم سمجھا جاتا ہے۔ اب جبکہ عام انتخابات میں چھ ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیاہے۔ ابھی تک دوجماعتیں پی پی اور جماعت ِاسلامی ہی منشور پیش کر سکی ہیں خیر جماعت ِ اسلامی کے منشور میں کئی ایسے وعدے ہیں جو ملک کی خراب معاشی صورتحال کی بناپر پورے ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہیں جبکہ پی پی نے منشور میںتنخواہیں دوگنا،بجلی اور علاج مفت دینے کے ساتھ بے گھروں کو بہتر رہائشی سہولتیں دینے کے لیے تیس لاکھ گھر بنا کر دینے کے جو وعدے کیے ہیںاِن کی تکمیل کے متعلق بھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔صاف ظاہر ہے عشق میں آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے وعدے کیے گئے ہیںجبکہ دیگر سیاسی ،مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے منشور پیش کرنے کی زحمت ہی نہیں کی بلکہ کوئی مذہب کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے تو کوئی قومیت کے نعرے پر پارلیمان میں پہنچنے کی جدوجہد میں مصروف ہے جبکہ کوئی غیر جمہوری طریقوں کے زریعے اقتدار میں آنے کی خواہشمند ہے۔ آٹھ فروری کے بعد اقتدار حاصل کرنے کی تیاریوں میں مصروف ن لیگ نے منشور کے نکات مرتب کرنے کے لیے ایک قلمکار کی سربراہی میں کمیٹی تو بنائی لیکن یہ کمیٹی اپنی زمہ داری پوری کرنے میں ابھی تک ناکام ہے جس سے ایسا تاثر پختہ ہورہاہے کہ سیاسی جماعتوں کو ملک و قوم کے مسائل حل کرنے سے زیادہ اقتدار سے غرض ہے اور یہ جوملک خوشحال بنانے اور عوام دوستی کے نعرے لگائے جاتے ہیں،یہ ووٹ بٹورنے کی چالیں ہیں۔ ایسے اطوار سے ہی عوام متنفر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی کو غیر جمہوری طریقے سے اقتدار سے بے دخل کیا جاتا ہے تو عوام احتجاج کے لیے نکلنے کے بجائے لاتعلق رہتی ہے ۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں ناصرف کارکنوں کی تربیت کریں بلکہ تنظیم سازی پر بھی توجہ دیں تاکہ امیدواروں کا مسئلہ ختم ہو ۔ عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے ایسا منشور پیش کریں جس سے ووٹروں کو پیغام ملے کہ قیادت کو عوامی مسائل کانہ صرف ادراک ہے بلکہ حل کرنے کے لیے بھی سنجیدہ ہے۔ بار بار الیکٹ ایبلز پر تکیہ کرنے اور غیر جمہوری قوتوں کے سہارے وقتی طورپر اقتدار تو مل سکتا ہے لیکن دیرپا مقبولیت حاصل نہیں ہو سکتی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر