وجود

... loading ...

وجود

ملک میں سیکولر ازم کو فروغ دینے کی سازش !

پیر 01 جنوری 2024 ملک میں سیکولر ازم کو فروغ دینے کی سازش !

ریاض احمدچودھری

قوم کی بدقسمتی ہے کہ اسلام کے نام پر ظہور پذیر ہونے والے پاکستان کو سیکولر بنانے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔ اگلے روز جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ملک میں قرآن و سنت کا نظام قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ شکر الحمد للہ کہ اس مرحلے پر مولانا فضل الرحمن کو اسلامی نظام کے نفاذ کا خیال آیا ورنہ وہ جب بھی حکومت میں شامل رہے بلکہ سولہ ماہ پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران انہوں نے کبھی نفاذ اسلام کی بات نہیں کی۔ وہ صرف اپنے عزیز و اقارب کو سرکاری عہدوں پر براجمان کرنے کیلئے سرگرم رہے۔ وطن عزیز میں نگران حکومت کی نگرانی میں خوفناک نظام چل رہا ہے۔ جب سے پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہوئی ہے تو لوگوں نے شکرانے کے نوافل ادا کئے کہ پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتوں نے سولہ ماہ کے دوران میں عوام کو جتنا پریشان کیا شاید گزشتہ 74 برسوں میں عوام کو اتنی تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ شہباز شریف کے زیر قیادت پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتوں نے عوام کا جینا حرام کر دیا تھا۔گیس پٹرول بجلی کے علاوہ اشیائے ضرورت اور اشیائے خوردنی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ سولہ ماہ کے دوران میں پی ڈی ایم کی حکومت اپنے مقدمات ختم کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں ایسے کام کرتی رہی ۔ انہو ں نے بہت سے قوانین میں ترمیم کی اور نیب اور دوسرے اداروں پر دباؤ ڈال کر اپنے مقدمات ختم کرائے۔ اس کے بعد نگران حکومت آئی تو ن لیگ نے قومی اداروں اور نگران حکومت سے ڈیل کر کے تین دفعہ اقتدار سے بے آبرو ہو کر نکلنے والے ایک شخص کو لندن سے واپس بلایا اور اس دوران میں ججوں اور سابق چیف جسٹس کے خلاف نہ صرف بیان بازی کی بلکہ دیگر ججوں کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔
اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ نگران حکومت کی نگرانی میں خوفناک نظام چل رہا ہے۔ بیگناہوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے اور ایک سیاسی جماعت سے وابستہ امیدواروں کو کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے روکا گیا۔پی ڈی ایم کے سولہ ماہ اور اب نگران حکومت کی زیر نگرانی قائد اعظم کے ارشاد کے برعکس پولیس کو مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں مخالفین کو ذلیل و خوار کرنے کی کھلی آزادی دے دی ہے حالانکہ پولیس بھی عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لے رہی ہے۔ پاکستان بننے کے ڈیڑھ دو سال کے عرصے کے بعد ہی پولیس اور دوسرے اداروں کومخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا۔
سابق فوجی آمر ایوب خان نے فوج کا سربراہ بننے اور اقتدار میں آنے کیلئے ہر قسم کی گھناؤنی سازش کا ارتکاب کیا۔ ایوب خان نے لیاقت علی خان سے تعلقات کا فائدہ اٹھا کر اس وقت کے سب سے سینئر فوجی افسر میجر جنرل اکبر رنگروٹ کو کسی ایک مقام پر ٹکنے نہ دیا بلکہ ان کو رولنگ سٹاک بنا دیا گیا۔ قائد اعظم جب کوئٹہ گئے تو اس وقت میجر جنرل اکبر کوئٹہ میں تعینات تھے۔انہوں نے قائد اعظم سے ملاقات کر کے شکایت کی کہ ایوب خان ان کیلئے ہر جگہ روڑے اٹکا رہا ہے اور انہیںکسی ایک مقام پر رہنے نہیں دیتا۔ قائد اعظم نے یہ شکایت سن کر فی البدیہہ فرمایاکہ تم میر جعفر کے پوتے سکندر مرزا سے ڈر گئے ہو، تمہیں چاہیے تھا کہ تم شکایت کرتے اور احتجاج ریکارڈ پر لاتے۔
1954ء میں جب آئینی ڈھانچہ تیار ہو چکا تھا تو اس میں دستور ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے اختیارات محدود کردیئے تھے۔ چنانچہ ایوب خان نے ملک غلام محمد پر دباؤ ڈال کر دستور ساز اسمبلی تحلیل کرادی۔ ایوب خان جب جالندھر میں لیفٹیننٹ کرنل تھے تو مشرق پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام رکوانے میں ناکام رہے۔ ایوب کے خلاف اس زمانے میں کئی اخبارات میں اس بارے میں شکایات بھی شائع ہوئیں۔ قائد اعظم نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ ریمارکس تحریر کئے کہ ایوب خان اپنے فرائض منصبی اداکرنے کی بجائے سازشوں میں مصروف رہتاہے اس لئے وہ فوج کا سربراہ بننے کے قابل نہیں۔ ایوب خان کی ملازمت ختم ہو رہی تھی تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین سے درخواست کی کہ انہیں ملازمت میں توسیع دے دی جائے۔ خواجہ ناظم الدین مرحوم نے ایوب خان کی یہ درخواست قبول نہ کی اور توسیع دینے سے انکار کر دیا چنانچہ ایوب خان نے غلام محمد کے ذریعے خواجہ ناظم الدین کی کابینہ برطرف کرادی۔ اب بعض سرکاری حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں دو بار اسلامی ریاست قائم ہوئی ۔ پہلی بار مدینہ طیبہ میں رسالت مآب ۖ کی زیر قیادت اسلامی ریاست وجودمیں آئی۔ اور دوسری بار کلمہ طبیہ کی بنیاد پر قائد اعظم کی زیر قیادت 14 اگست 1947ء کے مطابق 27 رمضان المبارک ، نزول قرآن کی شب پاکستان وجود میں آیا۔
پاکستان تو اسلام کے نفاذ کیلئے قائم ہوا تھا اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کے آرزو مند تھے مگر ان کی رحلت کے بعد سرکاری اداروں ، بیوروکریسی اور لوٹ مار میں ملوث سیاستدانوں نے پاکستان کو اسلام سے دور لے جانے کی کوشش کی۔ ابھی ایک ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنا وجود کھوتا جا رہا ہے۔ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ 1971ء میں ملک کی بڑی آبادی کا حصہ مشرقی پاکستان اپنوں اور بھارتی حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان سے علیحدہ ہوا۔ ہمارے اداروں کے سربراہوں ، بیوروکریسی اور محب وطن سیاستدانوں اور تحریک پاکستان کے زندہ کارکنوں کو اس بات پر بڑی تشویش ہے کہ پاکستان میں اسلام کے نفاذ کی بجائے منظم طریقے سے سیکولرازم کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
1973ء کے آئین کے مطابق پاکستان میں اردو کو قومی زبان بنانا چاہیے تھا لیکن عدالت عظمیٰ کے اس بارے فیصلے کے باوجود اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے دفاتر میں رائج کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے سرکاری ادارے اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث سیاستدان پاکستان کو اسلام سے دور لے جانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور قیامت کی صبح تک قائم دائم رہے گا اور اللہ نے ہی نزول قرآن کی شب پاکستان قائم فرمایا اور اور انشا ء اللہ ذات باری تعالیٰ ہی دشمنوں کی سازشوں کے باوجود پاکستان کو قائم و دائم رکھے گا۔ ہمارے لادینیت کے علم بردار اور بعض سرکاری اداروں کے حکام کو اس بات کی تحقیقات کرنی چاہیے کہ پاکستان کو سیکولر ازم کی طرف لے جانے میں کون لوگ ملوث ہیں۔ اس بارے میں کوئی اعلیٰ سطح کا کمشن قائم ہونا چاہیے جس میں مختلف اداروں کے لوگ اور نظریہ پاکستان پر پختہ یقین رکھنے والے ارکان شامل ہونے چاہئیں جواس بات کا جائزہ لیں کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو پاکستان کو سیکولر ازم کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر جنا ب سراج الحق صاحب نے کہا ہے کہ ستر سال سے غریب عوام تعلیم صحت اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہے بلکہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ اشرافیہ کی دولت اور جائیدادوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ آج تک اس ملک میں قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب نہیں ہوا۔ بلکہ بڑی جماعتوں کے کرتا دھرتا قومی لوٹنے میں مصروف ہیں۔ وہ برسر اقتدار آکر ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کرتے ہیں ۔ ملک میں احتساب کمشن اور نیب کے ادارے بھی وجود میں آئے اور کرپٹ مافیا کے خلاف مقدمات قائم ہوئے لیکن کرپٹ لوگوں کی دھونس اور ان کے باربار اقتدار میں آنے سے وہ اپنے خلاف مقدمات ختم کرانے میں سرگرم رہے۔
ملک کے بہت سے بدعنوان سیاستدانوں کے دنیا کے پانچ براعظموں کے مختلف ممالک کے بینکوں میں منی لانڈرنگ کے پیسے پڑے ہوئے ہیں۔ اب نگران حکومت جس جانبداری کے ساتھ ایک لوٹ مار کرنے والے شخص کو اقتدار میں لانا چاہتی ہے اور دوسری طر ف ایک بڑی پارٹی کے لوگوں کو انتخاب لڑنے سے روکا جا رہا ہے۔ عوام بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ الیکشن کمشن بھی آزادانہ انتخابات کرانے میں تاحال ناکام نظر آتا ہے۔ اس بارے میں عدلیہ کے ججوں کے فیصلے اور ریمارکس سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ نہ نگران غیرجانبدار ہیں اور نہ ہی الیکشن کمشن و دوسرے ادارے آزاد منصفانہ اور شفاف انتخابات کراتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر ووٹ کے ذریعے وجود میں آیا ہے۔ 1945-46ء کے انتخابات کے بعد پاکستان میں کبھی بھی شفاف انتخابات نہیں ہوئے۔پاکستان میں گزشتہ 35 برسوں سے لوٹ کھسوٹ کرنے والے سیاسی عناصر اقتدار میں آئے لیکن ان کا کبھی احتساب نہیں ہوا۔ اب مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اگر اس ماحول میں الیکشن ہوئے تو زیادہ اچھی امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر