... loading ...
ریاض احمدچودھری
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے کردار کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اسلام کے سچے پرستار تھے۔ مسلمانوں کے ہمدرد اور بہی خواہ تھے۔ چنانچہ ان کے کلام کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام اور مسلمان کے متعلق ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کی کھوئی ہوئی عظمت یاد دلانا اور اس کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ مسلمانوں کو مختلف اصولوں اور پیرایوں میں آپ نے خطاب کیا ہے’ اْن کی بانگ درا نے مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا۔
عالمی مجلس بیداری فکر اقبال کی فکری نشست میں زندہ رکھتی ہے زمانے کوحرارت تیری”کے موضوع پرپروفیسرعلی اصغرسلیمی نے بغیرکسی تمہید کے اپنے خطاب کاآغازکرتے ہوئے کہاکہ تین الفاظ کے گردآج کامصرع گردش کرتاہے۔ زندگی،حرارت اورزمانہ، تپش سے تحرک جنم لیتاہے جوزندگی کااستعارہ ہے اوراسی حیات سے زمانے کاچلن ہے۔مسلمان کی حرارت سے زمانہ متحرک ہے اور زمانہ تب ہی صحیح سمت میں چلے گاجب مسلمان کے اندر حرارت ہوگی۔ امام غزالی کے بعدسے جہاں امت پرجمودطاری ہے وہاں زمانہ بھی خداسے دورہوتاگیاہے۔ مسلمانوں میں تحقیق کافقدان،جامدتقلیداورذہنی غلامی نے حرارت کا گلا دبا دیاہے اوردوسری اقوام مسلمانوں سے آگے نکل گئی ہیں۔ جب دوسری دنیاؤں میں جامعات کی تاسیس ہورہی تھی تب مسلمانوں کے ہاں بڑے بڑے مقبرے تعمیرہورہے تھے اسی کانتیجہ نکلاکہ اہل مغرب علم کے اعلی مقام امات پرفائزہوگئے اورمسلمانوں میں مزارات کے تتبع میں خودمٹائی،نفی ذات،کسرنفسی اورخاک نشینی نے گھرکرلیااوریوں حرارت ختم ہوگئی۔ کائنات توحیدپرشاہدہے اورمسلمان توحید کا نگہبان بناکربھیجاگیاہے۔اقبال مسلمان میں ایک بارپھرحرارت پیداکرکے باورکراناچاہتے ہیں دنیاکو تیری ضرورت ہے اورتواس زمانے میں خداکاآخری پیغام ہے۔ علامہ کے مطابق تصورخودی میں ایمان دعوی ہے اورعمل اس کاثبوت ہے۔ علامہ کی نظم جگنواورپروانے کے درمیان مکالمے میں حرارت اورترقی کارازپوشیدہ ہے۔ تحرک کامنبع توحیدخداوندی ہی ہے اوراگر زندگی بامقصدہے توحرارت حیات موجودہے اوربے مقصدزندگی موت کی طرح یخ بستہ ہوتی ہے۔
اس کائنات کی تمام مخلوقات پر انسان کو بزرگی بخشی گئی ہے۔ انسان کے کردار اور اس کے وجود میں لانے والی قوت خود اس کے جذبات اور تخیل ہوتے ہیں۔ جذبات کو اعلیٰ تخیلات اور بلند افکار کے تابع کرنے کا نام دراصل تربیت ہے کیونکہ جب افکار اور تخیل پختہ ہو جاتے ہیں تو اعمال کی صورت میں ظہور پزیر ہوتے ہیں اور جب عمل بار بار کیا جاتا ہے تو عادت بن جاتی ہے۔ عادتوں ہی سے انسان کا کردار یا سیرت بنتے ہیں۔ چنانچہ اقبال نے ہمیشہ عمل پر زور دیا اور مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہی بتایا کہ وہ اعمال سے گریز کرنے لگے ہیں۔ جب کوئی قوم عمل سے جی چراتی ہے تو اس کی قسمت کا ستارہ ہمیشہ ڈوب جایا کرتا ہے۔یہی نکتہ اقبال نے مندرجہ ذیل اشعار کے ذریعہ مسلمانوں کو سمجھانے کی کوششیں کی ہیں۔
ہاں ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو
تاریخ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی
ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی
بر آں صفت تیغ وپیکر نظر اس کی
تاریخ شاہد ہے کہ کئی بار گنتی کے مسلمانوں نے کافروں کے لشکر پر فتح حاصل کی۔ قوت ایمان’ اتحاد’ خود اعتمادی ان کی سیرت کے عناصر تھے۔ ایسے کردار کے حامل مسلمان جس طرف بھی قدم بڑھاتے فتح ونصرت ان کے قدم چومتی۔ اقبال اس حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں کہ جب یہ خوبیاں مسلمانوں سے جاتی رہتی ہیں تو وہ کبھی بھی ترقی کے میدان میں دوڑ نہیں جیت سکتے۔ اس طرح مسلمان اپنے مقام کو کھو دیتے ہیں۔علامہ اقبال نے مسلمان سے فرمائش کی ہے کہ وہ قرآن میں غوطہ زن ہو جائے۔ بالآخر قرآن ہی اسے جدت فکر اور بلندی کردار عطا کرے گا۔ خودی کی تکمیل کرے بے خودی کا علاج’ اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمان خود آگاہ خود شناس بنے۔ اقبال نے ہمیشہ محبت اور فقر کا سبق دیا۔ محبت سے اس کی مراد دہن اور لگن کا ایسا جذبہ ہے جس پر عقل اور وسوسے رکاوٹیں اور بندش نہ لگا سکیں۔ فقر سے مراد اللہ کی اطاعت ہے۔ ایسا شخص جو سوائے اللہ کے اور کسی کے سامنے نہ جھکے یعنی مسلمان جب غور وفکر کے ساتھ عمل پر بھی کار بند ہو تو وہ کبھی زوال اور پستی میں نہیں گھر جاتا۔
خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم
عشق ہو جس کا جسور’ فقر ہو جس کا غیور
اقبال مغرب کی جس تقلید اور اندھی پیروی سے روک رہے تھے آج اسی نے اس خطہ کے مسلمانوں کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اقبال کے نزدیک روحانیت ہی بقائے انسانی کا واحد ذریعہ ہے۔ تقلیدِ غیر سے جہاں اپنی اخلاقی اقدار کا بیڑا غرق ہوتا ہے وہیں ایک ایسی تہذیب کی ترویج ہوتی ہے جو نہ صرف دینِ اسلام کے سراسر منافی ہے بلکہ انسانی فطرت سے بھی کسی طرح ہم آہنگ نہیں ہے۔ محض یہی وجہ ہے کہ اقبال یورپ کی اندھی تقلید کرنے والوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے نوجوان جو یورپ کی تقلید میں مشغول ہیں ان کے بارے میں اقبال کہتے ہیں
ترا وجود سراپا تجلی افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو، زرنگار و بے شمشیر
اقبال ہر دور کے شاعر ہیں۔ ان کے افکار اور ان کی تعلیمات کا ایک جاندار پہلو یہ بھی ہے کہ وہ فرد کی درست سمت میں رہنمائی اور اس کی اخلاقی و روحانی تشکیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ یہی انفرادی تربیت ان کے نزدیک اجتماعی تربیت کا باعث بنتی ہے۔ قوم، ملک یا معاشرہ افراد سے مل کر تعمیر پاتا ہے اور اگر فرداً فرداً قوم کے ہر شخص کی باطنی و اخلاقی تربیت عمدہ طور پر ہوگی تو آخر کار اس انفرادی تربیت کے اثرات اجتماعی شکل میں ظاہر ہونگے اور اس سے ایک مثالی معاشرہ تشکیل پائے گا۔