... loading ...
میر افسر امان
عظیم مسلم طبیب، کیمیا دان اور فلسفی ابوبکر بن زکریا رازی 250ہجری بمطابق864عیسوی میں ایران کے مشہور شہر تہران کے نزدیک واقع رے کے مقام پر پیدا ہوئے۔ اسی لیے مشرق میں رازی اور مغرب میںRhazes کے لقب سے شہرت پائی۔ ابتدائی تعلیم ابن اسحق کے ایک شاگرد سے حاصل کی جو یونانی، فارسی اور ہندوستانی طب میں مہارت رکھتا تھا۔بعد ازاںبغداد میں فلسفہ، ریاضی، فلکیات اور کیمیا کی تعلیم حاصل کی۔جب تیس(30)کی عمر کو پہنچے تو بغداد میں غصہ الدولہ کے بنوائے ہوئے مشہور شفاخانہ میں گئے۔ اس شفاخانہ سے مختلف طبی امور کے متعلق معلومات اخذ کیا کرتے، جس سے رفتہ رفتہ طبی امور کے ماہر ہو گئے۔ اس مہارت کی وجہ سے”جالینوس العرب” کا لقب پایا۔ اسی شفاخانہ کے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے۔ اس زمانے میں متعدد بیماریوں اور علمِ جراحی میں وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیے جو آنے والے زمانے میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر گئے۔ ان کے علم طب میں ایجادات نے ایسی ایسی عجیب و غریب بیماریوں کی تحقیق و تشخیص کی، کہ لاعلاج بیماریوں کے علاج دریافت ہو گئے۔ جدید علم طب کے موجد کے طور پر مشہور ہوئے۔ اسی بنیاد پر آج دنیائے طب نہ صرف ناز کرتی ہے بلکہ بڑے بڑے آپریشن اور جسمانی اعضاء کی تبدیلی تک ممکن ہوسکی ہے۔ رازی دنیائے طب کے وہ پہلے جراح یا سرجن ہیں جنہوں نے زخم کا منہ کھولنے کی ترکیب اور اس گھائو کو بھرنے یعنی اُس کا علاج دریافت کیا۔ میڈیکل یونیورسٹی پیرس میں آج بھی رازی کی تصویر آویزاں ہے۔یحییٰ بن عدی نے فلسفے کی تحصیل کا آغاز رازی سے کیا تھا۔ رازی ہمہ گیر مصنف تھے جنہوں نے متعدد مضوعات پر اپنی غیر فانی مطبوعات چھوڑی ہیں۔ میکس میر ہاف لکھتا ہے کہ ان کا تجربہ ہمہ گیر تھا اور اُن کی دو سو سے زیادہ سائنسی تصانیف کو ممتاز حیثیت حاصل ہے ان میںنصف طب کے بارے میں ہیں۔اکیس کتابیں کیمیا کے متعلق ہیں۔ اپنے وقت کے عظیم طبیب ہوئے ہوئے ”الحوی”، ” کتاب المنصوری” اور کتاب ”المجدی ری والحصبہ” ایس یاد گار اور عظیم طبی کتابیں تصنیف کیں۔ کثرت مطالعہ سے ان کی بصارت جاتی رہی۔ جوانی میں دوا ساز کی حیثیت سے کام کیا اور پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ بعد میں اپنے آپ کو نظریاتی اور عملی طبی سائنس کی ترقی کے لے وقف کر دیا۔ ”کتاب المنصوری” دس جلدوں پر مشتمل ہے۔ بعد میں اس کا ترجمہ لاطینی میں کیا گیا۔ اس کے بعد جرمن اورفرانسیسی زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہوا۔ طب پر اور بھی بہت رسالے لکھے۔رازی اسلامی عہد کے دوسرے عظیم ترین کیمیا دان تھے۔ رازی سے پہلے اطباء کیمیا کے نسخوں اور رازوں کو چھپاتے تھے۔ اور اس طرح بیان کرتے تھے کہ دوسرے کی سمجھ نہ آسکے۔ مگر رازی نے اسے عملِ بخل اور بددیانتی تصور کیا اور کیمیا کے علم کو نہایت آسان اور عام فہم طریقے سے بیان کیا۔امراض نسواں پر بھی کتاب لکھی۔ مثانہ اور گردے میں پتھری پر کتاب لکھی۔ ان کا رسالہ ”برالساعت”۔ یا”گھڑی بھر میں صحت یاب ہوجائو” دنیا کے گوشے گوشے میں پڑھا گیا اور اس کا فارسی اور فرانسیسی میں ترجمہ ہوا۔ بچوں کی بیماریوں کے بارے میں ان کی تصنیف پر ان کو”بابائے امراضِ اطفال” کے خطاب سے نواز گیا۔ طب پر ان کے متعدد مقالے لاطینی میں ترجمہ ہوئے۔ انہیں یکجا کر کےparra aburbetr کے نام سے شائع کیا گیا۔ چیچک اور خسرہ پر رازی کی کتاب”الحدری و لحصبہ” پر سب سے پہلی تصنیف ہے اور اپنے موضوع کے اعتبار سے آج تک انتہائی مستند خیال کی جاتی ہے۔اس کتاب کا لاطینی اور یورپ کی دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوا۔1498ء اور1866 اور کے درمیانی عرصہ میں چالیس(40) بار سے زیادہ مرتبہ شائع ہوئی۔ نیو برجر نے اس کے بارے میں لکھا” سچ تو یہ ہے کہ اسے عربوں کی طبی روایت کا زیور تصور کیا جاتا ہے”۔چیچک کی سمیاتی پھنسیوں کے علاج کے متعلق اس میں تمام تفصیلات دی گئی ہیں۔ اٹھارویں صدی میںمشرق و مغرب کی بیش تر یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل رہی ہے۔ فلپ کے حتی اپنی تصنیف”عربوں کی تاریخ” میں رقم طراز ہے” اس رسالہ کی بناء پررازی کو نہ صرف اسلام بلکہ قرون وسطی کے ایک عظیم مفکر اور طبیب کی حیثیت سے شہرت ملی” ۔اس کے اسباب علامات اور علاج سے متعلق جو اصول بیان کیے گئے ہیں وہ آج بھی صحیح مانے جاتے ہیں۔ جدید علم نے آج تک ان علامات کے علاوہ کوئی مزید اضافہ نہیں کیا۔ رازی کی کتاب ”الحوی” جس کا لاطینی زبان کا نامcontinens ہے ،متعدد بار شائع ہوئی۔یہ عربی کا عظیم طبی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس کی تکمیل میں رازی نے پندرہ(15) سال لگائے۔ رازی نے ہر بیماری کے سلسلے میں یونانی،شامی،عربی، ایرانی اور ہندوستانی ماخذ پیش کیے۔ رازی کی کتاب ”الحوی” بیس(20) پر مشتمل، یورپ کی لائبریریوں میں اب بھی موجود ہے۔اس کے علاوہ رازی کی کتب طب الملوکی، کتاب طب الفقرائ، کتاب براء الساعتہ اور کتاب الجدری و الحدبہ بھی بہت مشہور ہیں۔طب میں دوا سازی، علم نوریات،مادہ، زماںومکاں اور موسمیات شامل ہیں۔ دواسازی میں ”کتاب الاسرار” نامی کتاب تصنیف کی، جس میں کیمیاوی مادوں کی تیاری اور ان کے استعمال سے بحث کی گئی ہے۔ دواسازی کے بارے میں ایک کتاب حال ہی میں ہندوستان کے ایک شہزادے کے کتب خانے سے برآمد کی گئی ہے، کا لاطینی ترجمہ قسطین نےliber experimenttorum کے نام سے کیا ہے۔ دوا سازی میںرازی اپنے تمام پیش روئوں بشمول جابر بن حیان پر سبقت لے گئے۔ رازی نے بہت سی اشیاء کا وزن معلوم کیا اور اس غرض کے لیے ایک خاص قسم کے ترازو سے کام لیا۔ رازی کی ”کتاب الاسرار” کا ترجمہ بہت سی زبانوں میں ہوا۔ مغربی ممالک میں اس پر بیش تر مقالے لکھے گئے۔ رازی کی تجربہ گاہ میں اہم اور ضروری سامان موجود تھا۔ انہوں نے ان آلات کو بڑے بنانے کی بھی تفصیل دی۔ مابعدالطبیعات، فلسفہ اور اخلاقیات سے متعلق ان کی بیشتر تصانیف تلف ہو گئیں اور ان کے محض چند اجزا باقی رہ گئے ہیں۔البیرونی نے رازی کی زندگی اور تصانیف پرایک مکمل رسالہ لکھا ہے ۔رازی مابعد الطبیعیات میں پانچ دائمی اصولوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ خالق، روح، مادہ، زماں اور مکان ہیں۔ رازی رہبانیت کے خلاف ہیں۔ سقراط کی مانند زندگی میں عملی حصہ لینے اور عوام کی بہبودی کے لیے کام کرنے کے قائل ہیں۔ ارسطو کے مقولہ پر عمل کرتے ہوئے وہ انسانی جذبہ کے بجائے حدِ اعتدال سے بڑھی ہوئی عیاشی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ان کی اخلاقی تعلیم میں خوشی اور تکلیف کے نظریہ کو بڑا دخل ہے۔رازی کا مغربی اور مشرقی طب پر گہرا اثر تھا۔ مغربی نشاة ثانیہ کی اہم شخصیت راجر بیکن نے رازی کی کتاب” الااسرار” کا اکثر جگہ حوالہ دیا ہے۔سرل ایل گڈ لکھتا ہے کہ سترہویں صدی تک مغرب میں رازی کو جالینوس اور بقراط سے بھی افضل خیال کیا جاتا تھا۔ ابوبکر محمد بن زکریہ رازی اپنی زندگی کا نچوڑ ان چند الفاظ میں بتا گئے۔ ان کاقول ہے کہ:۔ جو شخص علم طبیعات، فلسفہ اور منطق کا ماہر اور ان پر عامل نہیں بلکہ دنیاوی لذت میں منہمک ہوا ان کو کبھی عالم نہ سمجھو اور خاص کر طبیب تو بغیر ان علوم کے واقفیت و مہارت کے طبیب ہو ہی نہیں سکتا۔