وجود

... loading ...

وجود

کیا جمہوریت آمریت میں بدل رہی ہے ؟

بدھ 27 دسمبر 2023 کیا جمہوریت آمریت میں بدل رہی ہے ؟

معصوم مرادآبادی

پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس تلخ یادوں کے ساتھ ختم ہوگیا ہے ۔اس اجلاس کے دوران پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہواتھا۔ پہلی بار دونوں ایوانوں کے تمام سرکردہ اراکین کومعطل کردیا گیا۔ معطل ممبران کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے گزشتہ 13دسمبر کو لوک سبھا میں ہوئی دراندازی کے سنگین مسئلہ پر وزیراعظم اور وزیرداخلہ سے بیان دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اپنے اس مطالبے پر زور دینے کے لیے انھوں نے ہاؤس میں کچھ پوسٹر بھی لہرائے تھے ۔ لوک سبھا اسپیکراور راجیہ سبھا چیئرمین کو ان کی یہ حرکت اس قدر ناگوار گزری کہ یکے بعد دیگرے اپوزیشن کے تقریباً تمام ہی سرکردہ اراکین کو پورے اجلاس کے لیے معطل کردیا۔ یہ معاملہ اس حد تک بڑھا کہ چیئرمین جگدیپ دھنکر کی نقل اتارنے والے ترنمول کانگریس کے ممبر کلیان بنرجی کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج ہوگیا اور حکومت نے اسے چیئرمین کے وقار سے جوڑ کر ایک بڑے موضوع میں بدلنے کی کوشش کی ہے ۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت راجیہ سبھا کے چیئر مین کی نقل اتارنے کو ایک بڑا موضوع اس لیے بنانا چاہتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں دراندازی کے مسئلہ سے عوام کی توجہ ہٹا سکے ۔ بہرحال جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان زبردست کھینچا تانی جاری ہے ۔ممبران پارلیمنٹ کی معطلی کے خلاف ا ‘انڈیا اتحاد’ کی طرف سے جنتر منتر پر ایک بڑی احتجاجی ریلی کی گئی، جس میں اپوزیشن لیڈران نے مودی حکومت کے اقدام کو جمہوریت کے قتل سے تعبیر کرتے ہوئے مودی حکومت کو اقتدار سے ہٹانے تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔ان لیڈروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کے بعد اب جمہوریت اور آئین کے سب سے بڑے مرکز پر بلڈوزر چلادیا ہے ۔اس سے قبل کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں سیکورٹی کے موضوع پر آواز اٹھانے والے ممبران کو معطل کرکے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا ہے اور وہ جمہوریت کو تباہ کرکے مکمل طورپر آمرکی طرح کام کررہی ہے ۔ اس سے پہلے کبھی اتنے اپوزیشن ارکان کو ایوان سے معطل نہیں کیا گیا۔
ایک اخبار نویس کے طورپر پارلیمنٹ سے میری وابستگی کا دورانیہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے کو محیط ہے ۔ میں نے اس عرصے میں یہاں بڑے سردوگرم حالات کا مشاہدہ کیا ہے ، لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران یہاں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، وہ کئی اعتبار سے منفرد اور یکتا ہیں۔ مجھے سب سے زیادہ پریشانی یہ دیکھ کر ہوتی ہے کہ یہاں جمہوری قدریں مسلسل پامال ہورہی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے ۔دونوں ہی ایوانوں میں اپوزیشن کی گرفت دن بہ دن کمزور ہوتی چلی جارہی ہے اورسرکاری حلقوں میں اپوزیشن کو دشمن جاں تصور کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے ، جبکہ اپوزیشن کے بغیر پارلیمانی جمہوریت کا تصور ہی محال ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ جو آج صاحب مسند ہیں، جب وہ اپوزیشن میں تھے تو ان کے لیے وہ سب کچھ جائز تھا، جو آج اپوزیشن کے لیے ناجائز اور غیر جمہوری قرار دے دیا گیاہے ۔ ایسا پہلی بار ہواہے کہ اپوزیشن کی کوئی بات نہیں سنی گئی اور اسے ایوان سے معطل کرنا ہی سب سے بڑا کام بن گیا۔جن146ممبران کو معطل کیا جاچکا ہے ،وہ لوک سبھا میں سیکورٹی کی زبردست چوک پر وزیراعظم اوروزیرداخلہ کے بیان کا مطالبہ کررہے تھے ۔ اس مطالبے پر زوردینے کے لیے اپوزیشن ممبران نے دونوں ہی ایوانوں میں پوسٹر لہرائے ۔حکومت کو اپوزیشن ممبران کی یہ حرکت اتنی گراں گزری ہے کہ اس کی پاداش میں ہی اتنی بڑی تعداد میں ارکان کی معطلی کا غیر معمولی فیصلہ لیا گیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ ایک مضبوط جمہوریت کے تسلسل کے لیے صحت مند اپوزیشن کا ہونا بے حد ضروری ہے ۔ اسی لیے ماضی میں اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی اور اسے اپنی بات کہنے کا پورا موقع دیا گیا، لیکن آج حکومت سے سوال پوچھنے والے اراکین کی جس بڑی تعداد میں معطل کیا گیاہے ، اس کی نظیر پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں نہیں ملتی۔بات صرف اتنی سی ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں گزشتہ13دسمبر کوپارلیمنٹ میں ہوئی دراندازی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے میں حکومت کی ذمہ داری طے کرنے کا مطالبہ کررہی تھیں۔اس میں غلط بھی کیا ہے ۔ جو کچھ 13دسمبر کو لوک سبھا میں ہوا ہے ، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔
13دسمبر کو پارلیمنٹ پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کی برسی تھی۔ سبھی جانتے ہیں کہ 13دسمبر2001کو جبکہ مرکز میں اٹل بہاری باجپئی کی قیادت والی این ڈی اے سرکار تھی، پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا۔ اس حملہ میں پارلیمنٹ کی سیکورٹی میں تعینات کئی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے ۔ حالانکہ حملہ آوروں کو وہیں ہلاک کردیا گیا تھا، لیکن ا س حملے نے پارلیمنٹ کی سیکورٹی پر بہت بڑا سوالیہ نشان قایم کردیا تھا۔جس وقت یہ حملہ ہوا تھا، اس وقت پارلیمنٹ کی کارروائی چل رہی تھی۔اطمینان بخش بات یہ تھی کہ اس حملے میں نہ تو کوئی وزیراور نہ ہی ممبرپارلیمنٹ زخمی ہوا، کیونکہ سیکورٹی دستوں نے حملہ آوروں کو اپنی جان پر کھیل کر باہر ہی مارگرایا تھا، لیکن اس مرتبہ13دسمبر کو جبکہ پارلیمنٹ پر ہوئے حملہ کی برسی کا دن تھا، دونوجوان لوک سبھا کی وزیٹر گیلری سے ممبران کے اوپر کود گئے اور انھوں نے وہاں ایک خاص قسم کی رنگین گیس چھوڑ دی۔اس سے لوک سبھامیں افراتفری مچ گئی اور کارروائی ملتوی کردی گئی۔ دراندازی کرنے والے نوجوانوں کو فوراً ہی پکڑ لیا گیااورپوچھ تاچھ کے بعد ان کے کچھ اور ساتھیوں کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ یہ نوجوان دراصل بے روزگار ی، مہنگائی اور غربت کے مسئلہ کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرانا چاہتے تھے ۔ نوجوانوں کا یہ گروپ پڑھ لکھ کر بے روزگار تھا اور چاہتا تھا کہ حکومت اس سنگین مسئلہ کی طرف متوجہ ہو، حالانکہ یہ مسئلہ پورے ملک کے نوجوانوں کا مسئلہ ہے ، لیکن انھوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا، وہ قطعی مناسب نہیں تھا، کیونکہ پارلیمنٹ میں اس طرح دراندازی کرنا کسی بھی طورقابل قبول نہیں ہے اور بلاشبہ یہ سیکورٹی میں زبردست چوک ہے ، جس کی ذمہ داری طے ہونی چاہئے ۔حکومت کی مختلف ایجنسیاں اس معاملے کی تہہ تک جانے کی کوشش کررہی ہیں۔پارلیمنٹ کی سیکورٹی میں تعینات دس اہل کاروں کو معطل بھی کیا گیا ہے ۔ جہاں تک اس کے فوری سبب کا معاملہ ہے تو وہ بے روزگاری اور غربت سے تعلق رکھتا ہے ۔کمال کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی اس بنیادی مسئلہ کی طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں کی ہے اور حکومت اس کے دہشت گردانہ پہلو پر ہی غور کررہی ہے ۔ خود
وزیراعظم نریندر مودی نے تسلیم کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی سیکورٹی میں سنگین چوک ہوئی ہے اور اس واقعہ کی گہرائی سے جانچ ہونی چاہئے ۔ وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس واقعہ کی سنگینی کو کم کرکے نہیں دیکھا جانا چاہیے اور اس کی تفصیلی تحقیقات کے ساتھ اس کے پس پردہ عناصر اور وجوہات کا سامنے آنا ضروری ہے ۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ لوک سبھا اسپیکر اوم برلا اس معاملے میں تمام ضروری اقدامات کررہے ہیں۔جانچ ایجنسیاں معاملے کی جانچ کررہی ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے پیچھے کون سے عناصر ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟
وزیراعظم نے مذکورہ باتیں ایک ہندی اخبار کے ایڈیٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہیں۔اگر وہ یہ باتیں پارلیمنٹ میں کہہ دیتے تو اپوزیشن کا مطالبہ بھی پورا ہوجاتا اور اس کی تسلی بھی ہوجاتی۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن اسی مطالبے پر تو احتجاج کررہا ہے کہ پارلیمنٹ پر حملے کے معاملے میں وزیراعظم یا وزیرداخلہ کو ایوان میں آکر بیان دینا چاہئے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر یہ سب باتیں ایوان میں کہتے ، مگر انھوں نے اپنی بات کہنے کے لیے ایک اخبار کا سہارا لیا۔ظاہر ہے جب پارلیمنٹ چل رہی ہوتی ہے تو روایت یہ ہے کہ کسی بھی حساسمسئلہ پر حکومت کا بیان ایوان کے اندرہی ہوتا ہے اور باہر دئیے ہوئے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔یہاں معاملہ پارلیمنٹ کی سیکورٹی سے جڑا ہوا ہے ، اس لیے اس پر بیان دینے کی سب سے مناسب جگہ پارلیمنٹ ہی تھی۔ 28 جماعتوں پر مشتمل انڈیا اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ اتحادی جماعتیں ممبران پارلیمنٹ کی معطلی کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے کریں گی، جس کا آغازگزشتہ جمعہ کو جنتر منتر سے ہوچکا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر