... loading ...
رفیق پٹیل
تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلاّ واپس لے کر پی ٹی آئی کو انتخابی سیاست سے باہر کردیا گیا ہے۔ پاکستان کے انتخابی عمل میں انتخابی نشان کے بغیر سیاسی جماعت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے ذریعے تحریک انصاف کے عہدیداروں کو بھی فارغ کر دیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے اپنے اندرونی انتخابات ضابطے کے مطابق نہیں تھے۔ اس سے قبل جو پارٹی کے سابقہ انتخابات ہوئے تھے اسے بھی کالعدم قراردیا گیا تھا اور اس کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو 70 دن تک محفوظ رکھنے کے بعد انتخابات کی تاریخ کے قریب آنے پر فیصلہ دیا گیا اورساتھ ہی پابند کیا گیا کہ وہ 20روز میں دوبارہ انتخابات کر ا ئیں۔ یہ وہ موقع تھا جب پی ٹی آئی کو خطرہ ہوگیا کہ اگر انہوں نے عمران خان کو چیئرمین منتخب کیا تو ان کو نااہل قرار دے کر ان کو انتخابی عمل سے باہر کردیاجائے گا ۔اس لیے عمران خان کی منظوری سے بیرسٹر علی گوہر کو پارٹی چیئر مین منتخب کیا گیا، ساتھ ہی دیگر عہدیدار بھی منتخب کیے گئے۔ اس کے بعد بھی الیکشن کمیشن ان کا جائزہ لیتی رہی اور عین انتخابات سے قبل جب پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پابند کیا تو اس کا اعلا ن بھی رات کو ایسے موقع پر کیاگیا، جس کے بعد تین روز کی تعطیلات تھی تاکہ اسے فوری طور پر چیلنج نہ کیا جاسکے۔ روایتی طور پر الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت کے اندر ونی انتخابات کا اس طرح جائزہ نہیں لیتا۔ نہ ہی بعض معمولی خامیوں کو اس سے نشان واپس لینے کی وجہ قرار دیتا ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق یہ اس کا دائرہ کار بھی نہیں جس طرح اس کا جائزہ لیا گیا اور اسے طوالت دی گئی یہ حیران کن تھا۔ اس طرح سرکاری سطح پر تحریک انصاف کے عہدیداروں کو بھی فارغ کردیا گیا ہے۔ اب ان کے امیدواروں کے کاغذات جمع نہیں ہونے دیے جارہے ہیں جو جمع بھی ہوجائیں گے، انہیں مسترد کردیا جائے گا۔ اس وقت پی ٹی آئی کے امیدوار وں کے علاوہ تائید کنندگان اور تجویزکنندگان بھی گرفتار ہورہے ہیں۔ بھرپور قوت سے تحریک انصاف کو کچلا جارہا ہے ۔اس طرح الیکشن کمیشن کے اثر ورسوخ کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ کسی بھی مقبول سیاسی جماعت کا نشان واپس لے کر اسے میدان سے باہر کر سکتا ہے۔ 1992میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن ہواتھا، اس وقت بھی ان سے ان کا نشان پتنگ واپس نہیں لیا گیا تھا ۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ تحریک انصاف اب بلّے کا نشان واپس لے سکے،اگر انہیں عدالتوں سے بلّا ملا اسی صورت میں مزید تبدیلی آسکتی ہے ۔دوسری طرف جو حالات امیدوارں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے موقع پرپیش آئے اس میں سیالکوٹ میں عثمان ڈار کی 70سالہ والدہ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اور انہوں نے ویڈیو بیان میں الزام لگایا کہ ان کاگریبان پھاڑا گیا ۔دوسری ایک اور ویڈیو میں ایک اور امیدوار کی بیوی نے بتایا کہ ان سے ریٹرننگ افسر کے دفتر میں کاغذات نہیں جمع کرانے دیے گئے۔ ان سے کاغذات ،نقدی اور موبائل فون چھین لیے گئے۔ ان سے بدسلوکی کی گئی انہیں تھانے لے جایا گیا جوکچھ انہوں نے بتایا اسے تحریر میں لانا مناسب نہیں۔ کئی جگہ سے تشدّد کے واقعات سامنے آئی جس کی تشہیر دنیا بھر میں ہوئی جس کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر موجودہ حالات میں پاکستان کے انتخابات متنازع بن چکے ہیں۔ ان حالات میں آنے والی حکومت کے عہدیدار الیکشن چوری ، جعلسازی، ظلم ،جبر اور دھونس دھاندلی کے الزامات کا طوق گلے میں ڈال کر کیسے دنیا کا سامنا کریں گے جبکہ مسلم لیگ ن نے یہ تاثر دیا تھا کہ نواز شریف کے لندن سے آنے کے بعد تمام معاملات ٹھیک ہوجائیں گے ۔اسی وجہ سے اکتوبر میں لندن سے نواز شریف کی واپسی ڈیفیکٹو وزیر اعظم کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ سرکاری سطح پر ان کی پزیرائی سے پس پردہ سمجھوتے کے الزامات کو تقویت ملتی تھی ۔خود مسلم لیگ ن کے رہنما یہ اعلان کر رہے تھے کہ ان کی بات ہوگئی ہے۔ ان کی جماعت سادہ اکثریت یا دوتہائی اکثریت حاصل کرے گی ۔شریف خاندان کے پس پردہ ممکنہ سمجھوتے کے تاثّر کے عام ہوجانے اور مستقبل میں ان کے خاندان کی طویل حکمرانی کے اندیشے کو سامنے رکھتے ہوئے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے سابق صدر پاکستان آصف زرداری میدان میں آگئے۔ ظاہر ہے شریف خاندان کا مکمل غلبہ پیپلز پارٹی کی مستقبل کی سیاست کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔ ان کی سیاسی ملاقاتوں سے ظاہر ہورہاتھا کہ وہ نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے۔ پہلے ایک انٹرویو میں انہوں نے خود کو متبادل وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا ۔ساتھ ہی میڈیا میں بھی نواز شریف کے اس کھیل کے خلاف گفتگو شروع کرا دی۔ آصف زرداری نے ممکنہ طور پر اندرون خانہ بعض اہم حلقوں کوپیغام بھیجا کہ وہ تحریک انصاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے نواز شریف کے اس منصوبے کو خاک میں ملادیں گے۔ اس طرح آصف زرداری نے ان حلقوں میں اپنی اہمیت کومنوالیا جس کے بعداچانک بلوچستان کے اہم سیاستدانوں کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کاآغاز ہوگیا ۔سرفراز بگٹی اور قدّوس بزنجو پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ خود نواز شریف کے بعض انتقام پسند بیانات سے بھی آصف زرداری کاکام آسان ہوگیا۔ اس بات کے آثار سامنے آرہے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان اب آصف زرداری کے زیر اثر ہونگے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کی حکومت ہوگی اس کھیل میں شامل ایک اہم ترین سیاسی گروپ جہانگیر ترین کا بھی ہے جس نے پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی 70سے 110 نشستوں کی فرمائش کردی ہے اور وہ نوازشریف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے یہ نسشتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی نامی اس نو وارد سیاسی جماعت میں ہمایوں اختر بھی شامل ہوگئے ہیں۔ انہیں پاکستان کے امیر خاندانوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ اس بات کا مکان ہے کہ اگر استحکام پاکستان پارٹی 70 نشستیں حاصل کرلیتی ہے تو وہ ملک بھر سے کامیاب ہونے والے تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے اور ایسی صورت میں خود ہمایوں اختر بھی وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کو پریشانی ہے کہ اگر انہوں نے استحکام پاکستان پارٹی کی بات مان لی تو کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ فی الحال استحکام پاکستان پارٹی ان سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مطالبہ کررہی ہے اگر یہ مطالبہ تسلیم کرلیا گیا تو علیم خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا جائے گا۔ منظر نامہ یہ ہے کہ حالات مزید عدم استحکام اور لا قانونیت کی جانب جارہے ہیں۔ ترقّی اورخوشحالی کے لیے قانون کی حکمرانی ، امن وامان، انصاف اورمیرٹ کے نظام،اور تمام طبقات کی شراکت داری ضروری ہے۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔