... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں ہم جب حب الوطنی ،ایمانداری ،فرض شناسی اور پاکستانیت کے اوراق اُٹھا کر دیکھتے ہیں تو ان اوراق میں ہمیں ایک انتہائی روشن نام ایئر مارشل اصغر خان کا نظر آتا ہے۔ اصغر خان ہماری سیاسی اور عسکری تاریخ کا ایک انتہائی معتبر نام ہے۔ میں نے پاکستان کے ان محب ِ وطن حلقوں اور بزرگوں کی انکھوں میں اصغر خان کے ذکر پر آنسوئوں کی جھڑی دیکھی۔ پاکستان بنتے وقت جن کے بچے نیزوں کی انیوں میں پرو دیئے گئے ،جن کی بیٹیوں نے اپنی عزت بچانے کی خاطر کنوئوں میںچھلانگیں لگا کر اپنے آپ کو امر کر لیا، جنہوں نے آزادی کی بہت بڑی قیمت چکائی ۔اصغر خان کا ذکر جب چھڑا تو وہ زاروقطار روئے پاکستان کی تاریخ میں اگر کوئی سیاسی قیادت تھی تو وہ اصغر خان تھے ۔یہ حقیقت ہے کہ ایک آمر جنرل ضیا اگر 90روز میں الیکشن کرانے کا وعدہ پورا کردیتا تو تحریک استقلال کو اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ جنرل ضیا کے کھاتے میں اگر بھٹو کی پھانسی کا جرم نہ بھی ڈالا جائے تو پھر بھی یہ تسلیم کیے بنا چارہ نہیں کہ وہ ایک وطن دشمن حکمران تھا۔ اس لیے کہ اس نے اصغر خان جیسی محبِ وطن قیادت کا رستہ روکااور گیارہ سال تک بلا شرکت غیرے اقتدار پر مسلط ہو کر محض اصغر خان کے اقتدار میں آنے کے خوف میں مبتلا ہو کر وطن عزیز کا مستقبل تاریک کردیا۔
77ء کی تحریک چلی تو اس تحریک کے اختتام پر وطن عزیز کی عوامی قوت کا سارا وزن تحریک ِاستقلال کے پلڑے میں جا گرا۔ تحریک استقلال کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ1کچہری روڈ ایبٹ آباد میںاصغر خان کی رہائش گاہ کے سامنے مقبول عام سیاسی شخصیات کی ٹکٹ کے حصول کی خاطر لائنیں لگ گئیں ۔مگر تحریک استقلال کی قیادت کو داد دیجیے کہ اس کی نظریں اُن سیاسی شعبدہ بازوں، وفاداریاں تبدیل کرنے والے لوٹوں کے بجائے اپنے ان نظریاتی ورکروں پر جاٹھہریں جنہوں نے کارزار ِسیاست کے آبلہ پا سفر میں اصغر خان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کیا۔ شیخوپورہ کا اکرام ناگرہ ،لیہ کا ذوالفقار نیازی، محمد حسین باجوہ آج بھی محفلوں میں اصغر خان جیسی بے داغ قیادت کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے مہر فضل حسین سمرا جو اس وقت تحریک استقلال میں پارلیمانی بورڈ کے ممبر تھے کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی 200نشستوں میں سے 195نشستوں پر ہماری کامیابی یقینی تھی۔ شجاع آباد کی نشست پر عبدالرزاق ایڈووکیٹ کو پارٹی ٹکٹ دیا جا چکا تھا مگر وہاں سے دیوان غلام عباس بخاری نے ٹکٹ کیلئے رجوع کیا اور تین لاکھ روپے تحریک کو فنڈ دینے کا بھی کہا ۔عبدالرزاق چونکہ تحریک استقلال کے دیرینہ ورکر تھے اور دیوان غلام عباس بخاری ایک جاگیر دار تھے۔ پارلیمانی بورڈ نے جب اصغر خان کے سامنے دیوان غلام عباس کانام رکھا تو ایئر مارشل اصغر خان کا جواب تھا کہ عبدالرزاق ایک ورکر ہے اس کا ٹکٹ منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ورکروں کی پزیرائی تھی۔ آج آپ ن لیگ کو دیکھ لیں جس نے مشرف اقتدار کے خاتمہ کے بعد دھڑا دھڑ اُن جاگیرداروں ،لوٹوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا جنہوں نے ایک آمر کے ساتھ کھڑے ہو کر ن لیگ کے نظریاتی ورکروں پر ناجائز پرچوں کا اندراج کرایا اور نظریاتی ورکروں نے آٹھ سال تک ان کی انتقامی کارروائیوں کو جھیلا۔ آج زرداری کے دائیں بائیں بھی وہی ٹولہ ہے جس نے اقتدار کی خاطر وفاداریاں تبدیل کرکے ہر متوقع حکمران کے ہاتھ پر بیعت کی۔
جنرل ضیاء کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد جنرل سوار خان ایئر مارشل اصغر خان کے پاس پہنچا اور کہا کہ 90دن میں الیکشن تو ہو جائیں گے مگر آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد ہمارا کردار کیا ہوگا۔ اصغر خان نے کہا کہ وہی کردار جو ایک سپاہی کا ہوتا ہے آج جب تحریک انصاف کی تنظیم سازی کا عمل جاری و ساری ہے اور پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے والے پارلیمنٹیرین کے ہر شاخ پہ بیٹھنے والے حواری بغیر کسی قربانی کے تنظیمی عہدوں پر فائز ہورہے ہیں تو بے اختیار اصغر خان کا وہ کردار یاد آیا جس پرنظریاتی ورکر اور ہر محبِ وطن پاکستانی فخر کرتا ہے۔ اُ ن کی نجی زندگی کے کئی واقعات انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا اصغر خان اس دھرتی کا باسی ہے جس کا انگ انگ کرپشن کی غلاظت میں لتھڑا ہوا ہے۔ عمر اصغر خان پائلٹ بننا چاہتے تھے۔ بچپن سے ہی عینک لگاتے تھے اس لیے کہ نظر ویک تھی۔ ریکروٹمنٹ کمیٹی نے نظر کو ویک قرار دے دیا مگر یہ بھی کہا کہ اگر آپ کے والد صرف ایک بار آپ کی سفارش کر دیں، آپ بغیر کسی تردد کے پائلٹ بھرتی ہو جائیں گے۔ عمر والد کے پاس پہنچے مدعا بیان کیا۔ اصغر خان نے بیٹے پر واضح کردیا کہ سفارش میرٹ کا قتل کرتی ہے اور میں تمہاری سفارش کرکے کسی حق دار کا حق نہیں مار سکتا ،انصاف کا قتل نہیں کر سکتا۔
عمر اصغر خان پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرار بنے ۔ضیا کے خلاف جب اصغر خان نے آواز بلند کی تو انہیں اور16دیگر لیکچرارز کوسروس سے نکال دیا گیا۔ضیا آمریت کے بادل چھٹے تو محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں۔ انہوں نے باقی لیکچرارزکو سروس پر بحال کردیا مگر عمر اصغر خان کو بحال نہیں کیا کسی نے عمر سے کہا کہ اگر اصغر خان محتر مہ بے نظیر بھٹو سے کہہ دیں تو وہ آپ کو بحال کر دے گی عمر پھر والد کے پاس پہنچے مگر اصغر خان کا جواب تھا کہ محترمہ کو نہیں پتا کہ تم کو ایک آمر نے غلط فیصلے کے تحت سروس سے نکالا میں تمہاری سفارش نہیں کروں گا ۔راجن پور سے نصراللہ دریشک تحریک استقلال میں شامل تھے اصغر خان جنوبی پنجاب کے اضلاع کے دورہ پر تھے تاکہ ورکروں کو ٹکٹ الاٹ کیے جا سکیں۔ اصغر خان ہمیشہ وقت اور اصولوں پرکاربند رہنے والے سیاست دان رہے۔ چہرے نہیں نظام کو بدلو، لوٹ کھسوٹ کے راج کو بدلو، کا نعرہ ان کی تحریک کا منشور بنا۔ نصراللہ دریشک سے انہوں نے کہا کہ میں ٹھیک ایک بجے آپ کے ہاں پہنچوں گا اور دو بجے وہاں سے روانہ ہو جائوں گا۔ نصراللہ دریشک چونکہ جاگیردارانہ سوچ رکھتے تھے اس لیے انہوں نے سوچا کہ اصغر خان کو مزید وقت ٹھہرا لیا جائے گا۔ اصغر خان مقررہ وقت پر راجن پور پہنچ گئے اور ان کے ہمراہ ملک وزیر علی اعوان بھی تھے جو پارٹی منشور کے بانیوں میں سے تھے۔ ایک بجے جب نصراللہ دریشک کے ہاں پہنچے تو جلسہ کا نام ونشاں تک نہ تھا۔ دو بجے کا وقت ہوا تو اصغر خان روانہ ہو گئے۔ نصراللہ دریشک روکتے رہ گئے۔ اصغر خان نہ رکے نصراللہ نے گاڑی بھگاتے ہوئے برابر لاکر کہا کہ خان صاحب آپ نے اچھا نہیں کیا۔ اصغر خان نے کہا کہ میں نے آپ کو ایک بجے کا وقت دیا تھا اور دوبجے میری روانگی تھی جو قومیں وقت کی پابندی نہیں کرتیں ،وہ برباد ہو جاتی ہیں۔ نصراللہ دریشک نے کہا کہ میں وہاں کا ایک سر دار ہوں۔ اس سے عوام میںمیری سبکی ہو گی۔ اصغر خان نے اپنے ساتھ بیٹھے ملک وزیر علی سے کہا کہ جس شخص کی سوچ جاگیر دارانہ ہے اس کا ٹکٹ کینسل کر دو ۔ ایئر مارشل اصغر خان کو حب الوطنی کی بڑی قیمت چکانی پڑی ایک آمر نے ان سے اُن کی زندگی کے پانچ قیمتی سال اور قوم کا مستقبل چھیناتو دوسرے آمر کے دور میں ان کی قیمتی متاع حیات ان کا بیٹا اُن چھین لیا ۔