... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جس طرح چاہے چھینے جائیں ،نام نہاد اور قانون سے بالا تر اشرافیہ کو بالآخر اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہے ،ن لیگ کی کرپشن سے گدلے پانی کے تالاب میں گرنے والے پتھر وں سے پانی کناروں سے باہر آگیا ہے۔ لوٹ مار کو اخلاقی سند قرار دینے والے اپنے لے پالک میڈیا کو اپنے پارسا ہونے کے جتنے سرٹیفیکیٹ جاری کر دیںکل کے نیب کو پگڑی اُچھال ادارہ قرار دیکر نئے مداریوں کی ڈگڈگی پر ناچنے والے ادارے کی حقیقت سے بھلا کون واقف نہیں ۔کھوکھلی نعرے بازی ہے کہ جس سے کسی قسم کے افاقے کی توقع نہیں ،کرپشن کی جونکوں کو خراج تحسین پیش کرنے والے تنخواہ دار دانش ور نہیں جانتے کہ مرض لاعلاج سطح پر پہنچ گیا اور سب تدبیریں اُلٹی ہونے والی ہیں۔
کرپشن زدہ اشرافیہ کی مسکراہٹیں ہیں کہ خود اپنا مذاق اُڑا رہی ہیں ،150میگا اسکینڈلز میں کون سا شریف اور معزز ہے جو سر بازار ننگا نہیں ہوا مگر بے لباسی کو شاہی لباس سمجھ کر اِترایا جارہا ہے ،جن کے خلاف انقلاب آنا ہے وہ انقلاب کا مذاق اُڑا کر خود فریبی کی دلدل میں غرق ہو رہے ہیں ۔ان کے سارے جرائم گیلے کاغذ کی طرح ہیں جس پر نہ کچھ لکھا جا سکتا ہے اور نہ مٹایا جاسکتا مگر عمران آج بھی منافقت کے ایوانوں میں بغاوت کی للکار ہے کی، لوٹ مار کرنے والے کتنے ہی بڑے کیو ں نہ ہوں پابند ِ سلاسل ہوں گے ۔یہ اور بات کہ ماڈل ٹائون میں گرنے والی 14لاشوں کا جے آئی ٹی نے جنہیں مجرم ٹھہرایا وہ بدستور اپنی نشستوں پر قائم و دائم اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ،قانون اور انصاف کی ہوا اُنہیں چھو کر بھی نہیں گزری ۔اورنگزیب عالمگیر نے اپنی رہائش گاہ کے قریب ایک قبر کھدوائی مؤ ذن روزانہ کھودی گئی قبر میں کھڑا ہوکر اذان دیتا، شہشاہ وقت کا کہنا تھا کہ مؤذن جب اللہ اکبر کہے تو مجھے باور ہو کہ لافانی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے میں فانی ہوں جاہ و حشمت ، عزو جلال چار روزہ ہے ،ڈھلتی چھائوں !
قبر کامقصد یہ ہے کہ مجھے آخر مرنا ہے خاک نشیں ہونا ہے
شہنشاہ جہانگیر کی بیوی اپنے وقت کی طاقت ور ترین عورت تھی جہانگیر دربار لگاتا تو اُس کے بالوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتا آج شاہدرہ کے قریب نورجہان کی قبر کے صرف آثار باقی ہیں۔ موت کے بے رحم ہاتھ سب کچھ فنا کر گئے ۔ایک مغل حکمران پر جب عتاب ٹوٹا ،اقتدار کی نیا ڈوبی قابض فوج محلات پر آچڑھی تو وہ صرف اپنی جان بچا کر بھاگا۔ بھاگتے ہوئے رات کے سناٹے میں اُس نے دور تک اپنی بیٹیوں اور بیوی کی درد ناک چیخیں سنیں ان چیخوں کی باز گشت بھاگتے ہوئے میلوں اُس کا پیچھا کرتی رہیں۔ بہادر شاہ ظفر کو لال قلعہ میں قید کردیا گیا اُس کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو خونی گیٹ پر ہاتھ پائوں باندھ کر قتل کردیا گیا۔ شہزادوں کے سر طشت میںرکھ کر ابو ظفر بہادر شاہ کی مہمان نوازی کیلئے بھیجے گئے۔ چشم ِ فلک نے وہ المناک منظر بھی دیکھا جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا آخری تاجدار مغرب کی ایک غاصب ، ڈاکو اور احسان فراموش قوم کی عدالت میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ وقت نے یہ بھی دیکھا کہ 21دن مقدمہ کی سماعت کے بعد شہنشاہ ہند مجرم قرار پایا ۔خود ساختہ عدالت کے فیصلے کے مطابق لوہے کی سلائیاں آگ میں تاپ کر شہنشاہ ہند کو دونوں آنکھوں سے محروم کر کے رنگون بھیج دیا گیا ۔فطرت کے قوانین کو جب انسان توڑنا چاہتاہے تو فطرت کبھی اُسے معاف نہیں کرتی۔
راجہ داہر کو درباری نجومیوں نے باور کرایا کہ اگر تم اپنے اقتدار کو دوام بخشنا چاہتے ہو تو اپنی خوبصورت اکلوتی بہن کی شادی کسی اور سے نہ کرنا۔ انہی نجومیوں میں سے ایک نجومی نے یہ پیشگوئی بھی کر دی کہ تم خود اپنی بہن سے شادی کر لو۔ راجہ داہر نے اپنی بہن سے شادی کر لی۔ قانون فطرت کے خلاف یہ اُس کا جرم عظیم تھا بس یہیں سے اُس کے اقتدار کی طنابیں کٹنے لگیں ، رب کائنات کا کوڑا حرکت میںآیا۔ سینکڑوں کوس دور سے محمد بن قاسم اُس کی سرکوبی کیلئے روانہ ہوا۔
راجہ داہر کی فوج اُس کے اپنے ہاتھیوں کے پائوں تلے کچلی گئی اور وہ خود عبرت ناک موت سے دوچار ہوا محمد بن قاسم جب فاتح کی حیثیت سے راجہ داہر کے محل میں داخل ہوا تو احاطے میں اُس کی بہن کی لاش جل رہی تھی۔ بر صغیر کی دھرتی پر قدم قدم پر بکھرے یہ تاریخی واقعات ایک تازیانہ ایک سبق کی شکل میں موجود ہیں ۔وقت کے اُن حکمرانوں کیلئے جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ رضا شاہ پہلوی شہنشاہ ایران جب جلاوطنی کے دوران موت کے آہنی پنجے کا شکار ہوا تو وطن میں چند گز زمین کا ٹکڑا نصیب نہ ہو سکا ۔
جب احتساب محض کمزور لوگوں کیلئے قانون بن جائے اور طاقت ور اِس کی لاش کو گھسیٹتے پھریں تو قدرت کا کوڑا حرکت میں آتا ہے کیونکہ سب سے بڑا محتسب وہی ہے۔ عمران خان نے احتساب کی روایت ڈال کر مخالفین کو انتہائی مشکل میں ڈال دیا ہے ،بے لاگ احتساب کسی تفریق کے بغیر جاری و ساری رہتا ہے۔غرناطہ کے موسیٰ اور دلی کے بخت خان کی طرح جنوبی ہند کے ملک جہان خان نے بھی نامساعد حالات کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔ اُس نے غیرت و حمیت کا وہ راستہ اختیار کیا جو کٹھن ہے مگر بالآخر عزت کے معبد کی طرف جاتا ہے عمران خان نے یہی کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔