... loading ...
مشرقی افق
میر افسر امان
محمد بن موسیٰ خوارزمی 780ء میں ازبکستان کے علاقہ خواررزم( موجودہ نام خیوا) میں پیدا ہوئے۔ محمد بن موسیٰ خوارزمی دنیا کا بڑا ریاضی دان،الجبرا کا بانی اور موجد مانا جاتا ہے۔ یہ عباسی خلیفہ مامون الرشید کا دور حکومت تھا۔ وہ علم و حکمت کے دلدادہ تھے۔اُنہوںنے بغداد میں ”بیت الحکمت” علم سائنس کی ترقی کے لیے درسگاہ قائم کی۔ خلیفہ نے یونانی کتب ذخیرہ کرنے اور اُن کے تراجم کروانے کی ذمہ داری خوارزمی کے سپرد کی تھی۔صفر (0)کا موجد خوارزمی ہے۔اُس نے سب سے پہلے ہندسوں میں صفرکا استعمال کیا۔ جس سے عملی حساب کی ابتداء ہوئی۔ خوارزمی نے علم ریاضی پر ”علم ِالحساب” کی کتاب جو دنیا کی اوّلیں کتاب ہے تصنیف کی۔خوارزمی نے علم ریاضی اور الجبرا پر کتب تحریر کیں۔ ان کی دوسری کتاب جو علمِ حساب میں بنیادی کردار کی حامل ہے، اُس کا نام”الجبرا و القابلہ” ہے۔اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے مغربی سائنسدان فلپ کے ہٹی لکھتا ہے۔” کریمونا کے جیراڈر نے بارویں صدی میں خوارزمی کی اسِ کتاب کا ترجمہ کیا۔اس کتاب کو سولہویں صدی تک یورپین یونیورسٹی کے ریاضی کے نصاب میں اہم مقام حاصل رہا۔ یہی وہ کتاب ہے جس نے یورپ کو الجبرا کے علم سے متعارف کرایا۔خوارزمی کی تصانیف نے ہی مغرب کو اعشاریہ سے روشناس کرایا جو اُس کے نام(algorism) سے موسوم ہوا۔ ریاضی کی تصانیف نے عمرخیام، پیکا، لیوانارڈ،فیوباناکی اور فلورنس کے ماسٹر جیکب جیسے مشہور ماہرینِ ریاضی کو متاثر کیا۔جارج سارٹن نے اسے اپنی قوم کا ایک عظیم سائنسدان اور اپنے عہد کا عظیم ترین سائنسدان دان کہہ کر خراج تحسین پیش کیا۔ یونانی اور رومیوں کے دور سے اہلِ یورپ اعداد کو رومن میں لکھتے تھے۔ جو اعداد کی نسبت انتہائی مشکل اور پیچیدہ طریقہ تھا۔ جمع ،تفریق، تقسیم اور ضرب کے معاملات عوام الناس کے بس کی بات نہ تھے۔ ان تمام مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خوارزمی نے عربی زبان” کتاب الجمح و تفریق” لکھی۔ جو حوادث زمانہ کی نظر ہو گئی۔ اس کا ترجمہ” ٹرٹیائی ڈی اور تھمیٹکا”(trattai de arithmetico)کے نام سے ” گمپگنی” نے1157 ء میں لاطینی زبان میںکیا۔اِسی کتاب کا ترجمہ ایڈیلاروڈ(adelard) نے بارہویں صدی عیسوی ڈی نیمر وانڈیکو(de numerd indico)کے نام سے کیا۔ اگر یہ تراجم نہ ہوتے تو علمِ ریاضی ترقی کی طرف گامزن نہ ہو پاتی۔ رومن اور عربی عدد کی سادہ مثال دیکھیں۔رومن طرز میں ایک سو اسی ہندسے کو اس طرح لکھا جاتا تھا۔clxxx۔ جبکہ عربی طرز میں ایک سو اسی ہندسے کو اسطرح١٨٠ لکھاجاتا ہے۔ رومن طرز میں ستائیس ہندسے کو اس طرح لکھتے تھے۔xxv11۔جبکہ عربی میں ستائیس ہندسے کو اس طرح لکھا جاتا ہے۔ ٢٧۔
ایک دلچسپ بات ہے کہ یورپ ایک طویل عرصے تک گنتی کے عربی طریقے کو عربک نبیریل کہتے رہے۔مگر جب صلیبی جنگوں کے دوران جب ان کو اسلام سے نفرت ہوئی تو انہوں نے کوشش کہ ریاضی میں عربوں کے اس احسان سے، جس میں صدیوں سے ان کی گردنیں دبی ہوئیں تھیں، چھٹکارا حاصل کرلیں۔اس مقصد کے لیے انہوں نے یہ فرضی نظریہ وضع کیا کہ گنتی کا یہ مروجہ طریقہ اگرچہ عرب سے یورپ میں آیا، مگر یہ عربوں کا اپنا طریقہ نہیں، بلکہ عربوں نے اہل ہند سے سیکھا تھا۔ اس لیے گنتی کے اس طریقے کے اصل موجد اہل ہند ہیں۔یہ نظریہ صرف اس وجہ سے مشہور ہوا کہ یورپ سے آیا۔ آج کل اسلامی ملکوں میں بھی پھیل گیا ہے۔ لیکن اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو خود یہ طریقہ ہی زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ اس کی اصل عربی ہے۔ ہندی نہیں ہو سکتی۔ دیکھیں کہ ہندی یعنی دیونا گری اور یورپی یعنی رومن طرز تحریر میں ہر لفظ کے حرف بائیں سے دائیں طرف لکھے جاتے ہیں۔ لیکن عربی طرز میں ہر لفظ کے حروف دائیں سے بائیں طرف کو ملا کر رقم کیے جاتے ہیں ۔ یہی صورت حرفی حساب میں بھی برقرار رکھی جاتی ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ یورپ نے عربوں سے ہی صحیح ہندسے لکھنا سیکھے۔ نہ کہ ہندی سنکرت یا روم ہندسوں سے۔
حساب اور الجبرا کے علاوہ خوارزمی نے کئی رسالے لکھے جن میں ایک رسالہ”اصطرلاب” پر ہے جس میں اس مشہور آلے کی ساخت اور طریقہ استعمال کی تفصیلات درج ہے۔ ایک اور رسالہ ”دھوپ گھڑی ”پر ہے جس میں اِس گھڑی کو قائم کرنے کی ترکیب کی تشریح کی گئی ہے ۔ ایک اور رسالہ میں زاویوں کےsines اورجیوپ(tangent) کے نقشے دیے گئے ہیں، جو ٹرگنو میڑی میں اِس کی مہارت کا ثبوت ہیں۔ ایک مکمل کتاب جغرافیہ پر بھی ہے۔ لیکن ” الجبراو المقابلہ” اپنے موضوع پر دنیا کی پہلی تصنیف ہے۔