وجود

... loading ...

وجود

وطن عزیز میں صاف شفاف انتخابات، ممکن ہیں؟

جمعه 22 دسمبر 2023 وطن عزیز میں صاف شفاف انتخابات، ممکن ہیں؟

ریاض احمدچودھری

جہاں تک وطن عزیز میں صاف شفا ف انتخابات کی بات ہے تو میں عرض کرتا چلوں کہ مجھے تحریک پاکستان کے کارکن کی حیثیت سے 1945-46میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے دوران کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے تحریک پاکستان میں اپنے چندمرحوم ساتھیوں کے ساتھ امرتسر شہر اور تحصیل کے کئی پولنگ اسٹیشنوں پر کام کرنے کی سعادت حاصل کی۔ میں ان انتخابات سے لے کر پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات کے بارے میں جانتا ہوں اور اللہ کو حاضر ناظرمان کے یہ کہہ رہا ہوں کہ وطن عزیز میں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات صاف ،شفاف اور آزادانہ کبھی نہیں ہوئے۔
انیس سو چھپن میں انتخابی اصلاحات کی تجاویز دینے والے سرکاری کمیشن نے اعتراف کیا کہ پاکستان بننے کے بعد سات برس کے عرصے میں جتنے بھی صوبائی انتخابات ہوئے وہ جعل سازی، فراڈ اور مذاق سے زیادہ نہیں تھے۔اور پھر انہی منتخب صوبائی اسمبلیوں نے انیس سو چون میں پاکستان کی دوسری مجلسِ قانون ساز تشکیل دی جس نے ون یونٹ نظام کے تحت انیس سو چھپن کا پہلا آئین بنایا۔ یہ اسمبلی اسی ارکان پر مشتمل تھی یعنی ملک کے دونوں حصوں سے چالیس چالیس ارکان لیے گئے تھے۔23 مارچ 1956ء کو ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔سکندر مرزا پہلے صدر مقرر ہوئے۔ آئین کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ ایک تین رکنی الیکشن کمیشن تشکیل دیا۔لیکن اس سے پہلے کہ یہ الیکشن کمیشن انتخابات کرا پاتا۔ صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کی شہ پر 1956ء کے آئین کو منسوخ کردیا۔
1970 ء کے انتخابات بھی شفاف اور آزادانہ ہرگز نہ تھے۔ ان انتخابات کے دوران مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں دھونس ، دھاندلی کی بنا پر بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگائے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب مرحوم نے مشرقی پاکستان میں کوئی امیدوار کھڑا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے مسلح کارکنوںاور بھارتی ایجنٹوں نے پولنگ ا سٹیشنوںپر کھلم کھلاقبضہ کر رکھا تھا۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات بڑے شفاف تھے لیکن انہیں ان انتخابات کے بارے میں کوئی علم نہیں اور وہ سنی سنائی باتوں پر یقین کرتے ہوئے ان انتخابات کے آزادانہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
وطن عزیز کی بڑی بدقسمتی ہے کہ جب جنرل یحییٰ نے 3 مارچ کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تو اسے بھٹو صاحب کے مطالبے پر منسوخ کر دیا گیا۔ 3 مارچ 1971ء تک مشرقی پاکستان میں حالات پرامن تھے اور مشرقی پاکستان کے عوامی لیگ کا کوئی رکن اسمبلی چھ نکات یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں بالکل نابلد تھا اس وقت کسی کے ذہن میں علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں تھی۔ شیخ مجیب الرحمن مغربی پاکستان کی جیل میں تھے اور وہ اکثریتی پارٹی کے لیڈر تھے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ دوبارہ اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے خواہش مند تھے اور ان کے ذہن میں علیحدگی کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا لیکن ہمارے فوجی حکمران اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ڈھاکہ میںدوبارہ اجلاس بلانے کی مخالفت کی اور انہوں نے لاہور میں یہاں تک کہا کہ پیپلز پارٹی کے جو لوگ ڈھاکہ جائیں گے ان کی ہڈیاں توڑ دی جائیں گی۔
ان دنوں وطن عزیز جن بحرانوںسے گزر رہاہے۔ہمارے نگران وزیر اعظم کواس کا کوئی ادراک نہیں۔ نگران حکومت کے دور میں افغانستان سے حالات سدھارنے کیلئے کوئی صحیح اقدام نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس کے برعکس افغانوں کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان نے گزشتہ 48 سال سے افغان مہاجرین کیلئے خوشدلانہ اقدامات کئے لیکن افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد طالبان کے نام پر جو لوگ وہاں برسر اقتدار آئے ہمارے حکمرانوں نے افغانستان کے بارے میں کوئی صحیح مؤقف نہ اپنایا اورامریکہ اور اس کے زیر اثر ہنود و یہود اور نصاریٰ پر مشتمل انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر افغان حکومت کو جان بوجھ کرتسلیم نہ کیا ۔
امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کا کہنا ہے کہ ہنود و یہود اور نصاریٰ کی پاکستان بارے سوچ کچھ اچھی نہیںہے۔ ملک میںموجود تحریک پاکستان کے کارکن ، محب وطن، باشعور ، دردمند پاکستانی نگرانوں کی پالیسیوں سے سخت مایوس ہیں۔ اس وقت قوم بلا شبہ ملکی حالات کے بارے میںمایوسی کا شکار ہے۔ نگران حکومت نے علامہ اقبال ، حضرت قائد اعظم اور مفکر اسلام مولانا مودودی کے فلسطین کے بارے میں واضح مؤقف سے انحراف کی راہ اختیار کی ہے۔ دفاعی اعتبار سے پاکستان ایک بڑی ریاست تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے کبھی جرات مندانہ اقدام یا بیان اسرائیل اور امریکہ کو بے یارو مددگار فلسطینیوں پر اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں کو روک سکتا تھا لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی نگران حکومت نے اس بارے میں کوئی مؤثر اور مضبوط مؤقف اختیار نہیں کیا بلکہ نگران وزیر اعظم نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور فلسطینیوں کی آواز پر لبیک نہیں کہا۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں کو پاکستان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن سولہ ماہ کی پی ڈی ایم کی حکومت اور اس کے بعد نگران حکومت پاکستانی قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتری۔
پاکستانی حکام تدبر، فراست اور حکمت اور دانائی سے غور فکر کرتے اور کشمیریوں و فلسطینیوں کی مؤثر امداد کیلئے کوئی صحیح راستہ اور مضبوط مؤقف اختیار کرتے تو شاید فلسطین میں بیس ہزار سے زائدشہادتیں نہ ہوتیں۔ ہمارے نگرانوں نے نہ صرف امت مسلمہ کے تصور کو نظر انداز کیا بلکہ مسلمان ملکوں کے مشترکہ اجلاس میں کوئی ٹھوس آواز نہیں اٹھائی۔ ہنود و یہود و نصاریٰ کے پاکستان بارے عزائم ناپاک ہی نہیں بہت خطرناک بھی ہیں مگرنگران ان حالات کا صحیح ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ اے کاش کہ ہمارے حکمران تمام مسلم ممالک اور امت مسلمہ کو متحد کرتے اور قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے کوئی مضبوط مستحکم اور مؤثر طرز عمل اختیار کرتے۔
ہمیں آزادانہ ، صاف اور شفاف انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ ایک طرف نالائق اور نا اہل شخص کو ہرطریقے سے برسر اقتدار لانے کی کوشش ہو رہی ہے تو دوسری طرف ایک پارٹی کے سربراہ اور اس کے قریبی ساتھیوں کو بے شمار مقدمات میں گرفتار کر کے جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک شخص کو لانے کیلئے ہر حربہ اورہر ادارہ کا م کر رہا ہے اور دوسری طرف دوسری بڑی پارٹی اور اس کے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے ۔ ان انتخابات کو کون تسلیم کرے گا۔ مختلف ذرائع سے ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اگر تحریک انصاف کو انتخابی آزادی مل جائے اور وہ کامیاب بھی ہو جائے تو اسے بہر صورت اقتدار میں نہ رکھا جائے گا۔ ہمارے ادارے کیا سوچ رہے ہیں۔ کیا انہیں ملک کے موجودہ حالات کا ادراک نہیں۔اسکی بربادیوں کے مشورے ہو رہے ہیں لندن، واشنگٹن ، تل ابیب اور دہلی میں لیکن ہمارے صاحب اقتدار اور ادارے نا معلوم کیاسوچ رہے ہیں۔ تحریک پاکستان کے کارکن اور محب وطن لوگ صرف بارگاہ الہٰی میں دعا ہی کر سکتے ہیں کہ یا اللہ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے فکر و عمل کے نتیجے میں ستائیس رمضان المبارک ، نزول قرآن کی شب پاکستان عطا کیا تو اس کی قرآن کی طرح حفاظت فرمائیے اور قیامت تک قائم دائم اور پائیدار رکھیئے۔ آمین


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر