... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، کچھ باتیں راز کی ہوتی ہیں، جنہیں رازداری سے بیان کیاجاتا ہے تو اس کے سننے کا ”چسکا” ہی الگ ہوتا ہے۔ کچھ باتیں،افواہیں ہوتی ہیں لیکن وہ بھی راز،راز میں کہی جاتی ہیں لیکن بعد میں وہ افواہ ہی نکلتی ہے۔ کچھ لوگوں کا کام افواہیں پھیلانا ہوتا ہے تو کچھ لوگ جو اسے غلط سمجھتے ہیں، وہ بے چارے حقائق کو رازداری میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اب یہ سمجھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس بات کو کتنا سمجھتا ہے اور کتنا ہضم کرپاتا ہے۔ ہمارے آس پاس، اطراف میں ایسے کئی لوگ پائے جاتے ہوں گے جو حقائق پر مبنی باتیں اشاروں، کنایوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہم اسے نظرانداز کردیتے ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔۔
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سیاست سے دور رہیں، سیاست پر لکھنے سے گریز کریں، لیکن کچھ حقائق اور اعدادوشمار اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ اسے بیان کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔۔ ہمارے پیارے دوست نے ہمیں کچھ دلچسپ اعدادوشمار بھیجے ہیں، اگر آپ کو سمجھ لگ گئی تو سمجھیں ہماری محنت وصول ہوگئی۔۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو بھائی، جن کے اسمائے گرامی نواز شریف اور شہباز شریف ہیں ملکی تاریخ میں سب سے طویل اقتدار میں رہنے والی شخصیات ہیں۔ نواز شریف 3469 دن پاکستان کے وزیر اعظم رہے اور 490دن ان کے جوش خطابت سے بھرپور بھائی شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کو انجوائے کیا۔ دونوں بھائی کل 3959 دن یعنی 10 سال اور 10 مہینے وزیر اعظم پاکستان رہے۔نواز شریف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی رہے جس کی کل مدت 1953 دن بنتی ہے جبکہ شہباز شریف 5003 دن پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے یعنی دونوں بھائی مل کر 19 سال اور16 دن پنجاب کے اَن داتا رہے۔ اگر ان کی وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ کی کل مدت دیکھی جائے تو 10915 دن بنتی ہے۔یعنی اگر اس سال ، مہینوں میں تبدیل کیا جائے تو دونوں بھائیوں نے 29 سال 10مہینے 17دن وفاق اور پنجاب پر حکومت کی۔ یہ کیسی ہوس ہے اقتدار کی کہ ختم ہی نہیں ہورہی۔ کبھی کھلے دروازے سے، کبھی چور دروازے سے، کبھی آئین کو پامال اور توڑ مروڑ کر تو کبھی نوٹوں کے بریف کیس تقسیم کر کے۔ بس کسی طور اقتدار چاہئے۔ ان کا قیام بھی ملک میں ہمیشہ تب ہی ہوتا ہے جب اقتدار ملنا یقینی ہو چکا ہو۔ ورنہ قیام و طعام اور کاروبار زندگی سب پاکستان سے باہر۔29سال 10مہینے 17دن حکومت کرکے بھی یہ ملک میں بہتری نہ لاسکے۔ ایک ایسا ہسپتال نہ بنوا سکے جہاں یہ اپنا علاج کروا سکیں۔ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا۔ ہم ایک ہی سوراخ سے چوتھی بار، ڈسے جانے والے ہیں۔ ۔
مورخ لکھے گا کہ جسٹس صفدرشاہ نے جب بھٹوقتل کیس میں بھٹو کو بے گناہ لکھا تو اس وقت کے حاکم کو اچانک انکشاف ہوا ہے کہ جسٹس صفدر شاہ کی میٹرک کی سند جعلی ہے، جس کی بنیاد پر ریفرنس دائر کردیا گیا۔۔ جسٹس صمدانی نے بھٹو کی ضمانت لی تو حاکم وقت کو اچانک پتہ چلا کہ جسٹس صمدانی تو جج بننے کے اہل ہی نہیں تھے۔۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بھی اچانک بیرون ملک پراپرٹی نکل آئی،پھر ریفرنس بھی دائر کردیاگیا۔۔ جسٹس افتخار چودھری نے مشرف کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کیا تو اچانک انکشاف ہوا کہ جسٹس چودھری مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں،پھر حسب روایت ریفرنس۔۔جسٹس کھوسہ نے ایکسٹینشن کو سنجیدگی سے لیا تو ریفرنس تیار ہونے لگا۔۔ جسٹس وقار سیٹھ نے آئین شکن مشرف کوسزاسنائی تو اچانک ہی انکشاف ہوا کہ جسٹس صاحب کا ذہنی توازن ہی درست نہیں ، پھر وہ بے چارے کورونا کے باعث اس دنیا سے ہی چلے گئے۔۔مشرف کے خلاف فیصلہ دینے والی عدالت اچانک ہی ختم کردی گئی۔۔ نیب کورٹ کے جج ارشد ملک کی اچانک ہی قابل اعتراض ویڈیو مل گئی۔۔چیئرمین نیب کی متنازع ویڈیو بھی سامنے آگئی۔۔اگر حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھی جائے تو ایسے کئی ”اچانک” آپ کو مل جائیں گے۔۔ اصل میں اس ملک میں بائیس کروڑ عوام بھیڑ بکریاں ہیں ،جنہیں چند” مسخرے” اچانک جہاں چاہے ہانک دیتے ہیں۔۔
ترکی میں پنشن لینے والے بوڑھوں نے گورنمنٹ کو دھمکی دی تھی کہ ہماری پنشن مہنگائی کے مطابق بڑھائی جائے وگرنہ ہم کسی 20 سالہ لڑکی سے شادی کر لیں گے تاکہ گورنمنٹ ہمارے مرنے کے 40 پچاس سال بعد بھی پنشن دینے پر مجبور ہوجائے گی ۔یہ ترکیب اتنی کارآمدثابت ہوئی کہ ترکی کی گورنمنٹ نے 40 فیصد پیشن میں اضافہ کردیا۔۔شوہر کو اچانک ای میل موصول ہوئی کہ وہ جس ادارے میں کام کرتا ہے،اس کمپنی نے سالانہ انکریمنٹ لگادی، ای میل میں تنخواہ کی تفصیل بھی دی گئی کہ بیسک کتنی بڑھی، باقی الاؤنسز کتنے بڑھائے گئے۔ اتفاق سے موبائل بیگم کے پاس تھا اس نے جی میل کھول لی اور پوچھا یہ کیا ہے؟ شوہر نے بتایا کہ یہ سال بعد انکریمنٹ ہوتی ہے وہ لگی ہے انکریمنٹ اور پروموشن۔۔بیگم نے اداس سے لہجے میں کہا۔۔ میں چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی ہوتی ہوں، کام ختم ہی نہیں ہوتے۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ آپ کی طرح نہ تو کبھی سالانہ انکریمنٹ لگتی ہے اور نہ ہی پروموشن ہوتی ہے۔۔شوہر نے بڑے پیار سے کہا۔۔ میری انکریمنٹ لگے یا پروموشن ہو، ظاہر ہے سب کچھ تمہارا ہی ہے لیکن پھر بھی تمہارے دونوں گِلے دور کر دیتا ہوں۔ہر سال تمہاری پاکٹ منی میں دو ہزار کا اضافہ ہوگا۔۔بیوی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ڈن ہوگیا۔ اب پروموشن کی بات کریں۔۔شوہر نے کہا۔۔ میری کسی بیس بائیس سالہ جوان دو شیزہ سے شادی کرا دو۔ تم سینئر ہوجاؤ گی اور وہ جونیئر۔اب بیگم پروموشن لینے سے انکاری ہے اورشوہر انکریمنٹ دینے سے انکاری۔۔۔بیویاں سب کی ایک ہی ”نیچر” کی ہوتی ہیں،مفکران کرام کا فرمانا ہے کہ نیچر کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔۔ہمارے ایک دوست ہیں، ان کی بیوی ان سے گھر کا سارا کام کراتی ہے۔۔ آخرکار جب وہ بے زار ہوگئے تو اپنی بیوی قابوکرنے کے لئے ایک بنگالی باباکو فون کیا، یہ فون نمبر انہوں نے دیوار پر لکھا دیکھا تھا جس میں عاملوں کی پروموشن ہوتی ہے۔۔ بنگالی بابا کے فون پر بیل گئی۔۔کچھ سیکنڈز بعد آگے سے فون اس کی بیگم نے اٹھایا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ۔۔باباجی ابھی برتن دھورہے ہیں، تھوڑی دیر بعد کال کریں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔لوگوں کو کھونے سے نہ ڈرو، ڈرو اس بات سے کہ کہیں تم لوگوں کو خوش کرتے کرتے خود کو نہ کھودو۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔