... loading ...
آدھا چہرہ
۔۔۔۔۔۔۔
اعظم خاکوانی
1787 ء اس لحاظ سے بڑا اہم سال ہے کہ اس عیسوی سال میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا آئین تحریر اور نافذہوا۔امریکہ کی ساری ریاستوں سے نہایت اہم اور قابل لوگ بلائے گئے اور ان لوگوں نے بڑی محنت سے آئین تیار کیا جب یہ سارے وفود واپس اپنے گھروں کی طرف جارہے تھے تو بنجامن فرینکلن کو ایک عورت نے روک کر سوال کیا مسٹر فرینکلن!آپ نے امریکن عوام پر حکومت کرنے کیلئے آئین میں کونسا طریقہ تجویز کیا ہے؟ بادشاہت یاجمہوریت بنجامن نے جواب دیا محترمہ جمہوریت بشرطیکہ آپ اس کی حفاظت کر سکیں ۔دنیا میں جمہوریت کی حفاظت کس طرح کی جاسکتی ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس کی روح کو سمجھے بغیر اس طرز حکومت کو کامیابی سے نہیں چلایا جاسکتا۔ پاکستان جب آزاد ہوا تو آزادی سے پہلے برصغیر ہندوستان میں بادشاہی نظام قائم تھا ۔اسے نو آبادیاتی نظام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
انگریزوں کے آنے سے پہلے یہاں خاندان مغلیہ کی بادشاہت تھی اور مغلوں سے پہلے ہندوستان میں سلاطین کا دور حکومت تھا اور یہ سارا عرصہ حکومت بھی بادشاہت تھی ہم یہ بات بڑے اعتماد کے ساتھ لکھ سکتے ہیں کہ پاکستان سے تقریباً ہزار سال پہلے ہندوستان میں بادشاہت ہی تھی، اور 14اگست 1947تک یہاں بادشاہت ہی رہی اور یہ بادشاہی نظام اتنا مضبوط تھا کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی برصغیر کے ممالک دولت مشترکہ کے ممبر رہے اور پاکستان کے پہلے حکمران بہت عرصہ تک تاج برطانیہ سے وفاداری کا اعلان کرتے رہے۔ یہاں جمہوریت سے عدم دل چسپی کی حالت یہ تھی کہ پاکستان بننے کے نو سال بعد ملک کا آئین بنایا گیا۔ جب ہماری آزاد ریاست نو سال تک بے آئین رہی اور انگریز کی تربیت یافتہ نوکر شاہی ہی اس ملک کو چلاتی رہی اور عملی طور پر آج بھی اس ملک کو بیورو کریسی ہی چلا رہی ہے ۔آج کے پاکستان میں یہ سوال بار بار پوچھا جاتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کامیاب نہیں ہوتی آئیے آج کی پاکستانی جمہوریت کے اندر جھانکتے ہیں مغربی جمہوریت یا وہ جمہوریت جو انقلاب فرانس کے بعد یورپ میں پیدا ہوئی۔ اس طرز حکومت کو ہی آج کی دنیا میں جمہوری نظام کہا جاتا ہے۔ دلچسپ ماجرا یہ ہے کہ انقلاب فرانس کے بعد تمام یورپ میں بادشاہت کے خلاف شدید رد عمل اُبھرا اور جمہوریت کو اس نفرت کی وجہ سے بادشاہی کے مقابلے میں بطور ایک نظام لایا گیا جبکہ پاکستان میں آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ہم تاج برطانیہ کی وفاداری کا دم بھرتے رہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے ناکام ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بادشاہ پرست قوم ہیں جبکہ جمہوریت ایک ایسے طرز حکومت کا نام ہے جو بادشاہت کی نفی کرتا ہے۔ ہم جمہوریت کو بادشاہت کے روپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے یہاں جمہوریت ناکام ہو جاتی ہے۔ یورپ میں انقلاب فرانس سے پہلے مذہبی کلیسا نے بادشاہت کے مقابلے ایک اپنی مذہبی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ کلیسا کی اپنی مذہبی عدالتیں موجود تھیں اور وہ عدالتیں اپنی پسند کے مطابق عوام کو توہین مذہب کا الزام لگا کر موت کی سزا دے دیتی تھیں۔ بادشاہ بذات خود کلیسا اور پادری کی مذہبی طاقت سے خوف زدہ رہتا تھا جبکہ عوام گرجا کی طاقت اور مداخلت سے تنگ تھے ،جب مغربی جمہوریت کی داغ بیل ڈالی گئی تو کلیسا اور مذہب کا کردار جمہوریت سے نکال دیا گیا کوئی پادری انگلستان کا وزیر اعظم نہیں بنتا اور نہ ہی وہ امریکہ کا صدر بنتا ہے جبکہ سیاسی جماعتیں مذہب کے نام پر ووٹ نہیں مانگتیں لیکن ہم مولانا،پیر،گدی،خانقاہ،دربار اور مقدس خاندانوں کے ناموں پر سیاست کرتے ہیں اور مذہب کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں اور یہ چلن مغربی جمہوریت کو ہضم نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہم یہاں مذہبی جمہوریت چلانا چاہتے ہیں لیکن ناکام ہو جاتے ہیں اور اس طرح مستقبل میں بھی ناکام ہوتے رہیں گے کیونکہ مغربی جمہوریت مذہبی جمہوریت کبھی نہیں بن سکتی۔ ہمارے ہاں جمہوریت کی ناکامی کی تیسری وجہ شخصیت پرستی ہے کیونکہ ہماری قوم بنیادی طور پر غلام مزاج ہے اور اپنے من کے مندر میں کسی بادشاہ کی پتلی تراش کر اُسے پوجنا پسند کرتی ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتیں یہاں کسی نہ کسی شخصیت کے نام کے ساتھ ہی زندہ رہتی ہیں یعنی سیاسی جماعتوں کا وجود اُس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اُن کا ہیرو اور عوام کا بادشاہ زندہ رہتا ہے، جب بادشاہ کو پھانسی ہوئی تو سیاسی جماعت کو بھی پھانسی ہو گئی۔ اس شخصیت پرستی کی وجہ سے پاکستان میں شاید بادشاہت تو کامیاب ہو جائے لیکن جمہوریت نہیں چل سکتی۔ پاکستان کا معاشرہ ایک بیروز گار اور ناانصافی کا شکار معاشرہ ہے۔ آپ اُس ووٹر سے ووٹ کے صحیح استعمال کی کیسے اُمید رکھ سکتے ہیں جو بھوک سے بیتاب ہو کر صرف ایک وقت کے کھانے کے بدلے اپنا ووٹ ڈالنے کو تیار ہو جائے ۔ لیکن ان معاشی مجبوریوں کے علاوہ اور بھی بہت سارے کردار ہیں جو جمہوریت کو پاکستان میں کامیاب نہیں ہونے دیتے خود اس ملک کی سیاسی جماعتیں پاکستان میں جمہوریت کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے بڑے منتری کسی بھی ایسے قابل شخص کو آگے نہیں آنے دیتے جو مستقبل میں خود اُن کیلئے خطرہ بن جائے لہٰذا بڑے سیاسی منتری صرف جھولی چک،خوشامدی،جاہل اور شاگرد پیشہ لوگوں کو آگے لاتے ہیں اور بہت بڑی رقم کے بدلے اپنی ٹکٹیں فروخت کر کے عوام کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ بڑی یاچھوٹی برائی کو ووٹ دیں۔ اس طرز عمل سے پاکستان میں اچھی سیاسی قیادت نہیں اُبھر سکتی۔ پاکستان میں ناجائز کمائی ہوئی دولت اور نوکر شاہی بادشاہت کو قائم رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ اس لئے اس ملک میں جمہوریت کا کوئی بھی مستقبل واضح نہیں ہے اور شاید اس ملک کا مستقبل بھی اسکی جمہوریت جیسا ہے۔