... loading ...
مشرقی اُفق
۔۔۔۔۔۔۔۔
میر افسر امان
جابر بن حیان 722ء تا815ء مایہ ناز مسلم سائنسدان،جغرافیہ دان، ماہر فلکیات، تاریخ عالم کے باقاعدہ پہلے کیمیا گر کا پورا نام ابو موسیٰ جابر بن حیان بن عبداللہ بن الکوفی تھا۔ یورپ انھیں جبیر کے نام سے یاد کرتا ہے۔ خراسان کے شہر طوس میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کوفہ میں دوا سازی کا کام کرتے تھے۔جابر بن حیان نے خالد بن معاویہ سے علم و دانائی حاصل کی۔ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق سے بھی علم حاصل کیا۔ اس کے علاوہ ان کے اساتذہ میں حربی الحمیاری، یخیٰ برمکی اور جعفربرمکی بھی شامل ہیں۔ جابر بن حیان کے شاگردوں میں الخرقی، ابن العیاض المعری اور الاحمیی شامل ہیں۔علم کیمیا(کیمسٹری) میں مسلمانوں کا بڑا حصہ ہے۔ مسلمان جدیدعلم ِکیمیا کے موجد کہلاتے ہیں۔سترھویں صدی تک مسلمانوں کو ہی ماہر کیمیا دان تصورکیا جاتا تھا۔کیمیا لفظ عبرانی زبان کے لفظ ”کیم یا”سے عربی زبان میں آیا۔ جابر بن حیان کیمیا کے بارے میں فرماتے ہیںکہ:” کیمیا میں سب سے زیادہ ضروری شے تجربہ ہے۔جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیںرکھتا وہ ہمیشہ غلطی کرتا ہے۔ پس اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کتنا چاہتے ہو تو تجربوں پر انحصار کرو اورصرف اسی علم کو صحیح جانوں جو تجربے سے صحیح ثابت ہو جائے۔ ایک کیمیا دان کی عظمت اس بات میں نہیں کہ اس نے کیا کچھ پڑھا، بلکہ اس بات میں ہے اس نے کیا کچھ تجربے کے ذریعے ثابت کیا ہے” ۔جابر حیان کانظریہ یہ تھا کہ تمام دھاتیں گندھک اور پارے سے بنتی ہیں۔جب دونوں اشیاء بالکل خالص حالت میں ایک دوسرے کے ساتھ کیمیائی ملاپ کرتی ہیں تو سونا پیدا ہوتا ہے۔ جب نا خالص حالت میںکیمیائی طور پرملتی ہیں تو دیگر کثافتوں کی موجودگی اور ان کی مقدار کی کمی بیشی سے دوسری دھاتیں مثلاً چاندی، سیسہ، تانبا لوہا وغیرہ ظہور میں آتی ہیں۔ اس نظریے کے مطابق چونکہ دیگر دھاتوں اور سونے کی کیمیائی ترکیب میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے اس لیے کم قیمت دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر لینا عین ممکن ہے۔ دھاتوں کے متعلق جابر بن حیان کا یہ نظریہ کم بیش اٹھارویں صدی تک قائم رہا۔ چناچہ آنے والی صدیوں میں ہزاروں انسان اپنی ساری عمر” گوگردِ احمر” یعنی سرخ گندھک کی تلاش میں صرف کرتے رہے۔جابر بن حیان عملِ تکلیس یعنی دھات کا کشتہ بنانا کے ماہر تھے۔ اس عمل میں ایک دھات کو گرمی پہنچا کر اُس کا اوکسائیڈ تیار کیا جاتا ہے۔ جابر بن حیان نے اس خاص عمل پر ایک جامع کتاب تصنیف کی ہے، جس میں اُس نے دھاتوں کے مرکبات، یعنی کشتے بنانے کے طریقے وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔
جابر بن حیان نے اپنے کتابوں میں فولادبنانے،چمڑے رنگنے،دھاتوں کو مصفی کرنے، موم جامہ بنانے، بالوں کو سیاہ کرنے کے لیے خضاب تیار کرنے ، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لیے اِس پر وارنش کرنے اور اس قسم کی بیسیوں مفید اشیاء بنانے کے طریقے بیان کیے ہیں۔ اِ ن اشیاء کی تیاری موجودہ زمانے میں بھی کافی مشکل سمجھتی جاتی ہے اور اس کی ترسیل میں بہت زیادہ فنی قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسے زمانے میں ، جب کیمیا کا علم موجودہ زمانے کی نسبت بے حد محدود تھا، جابر بن حیان کے کلیے سے ان کار آمد اشیاء کا تیار کر لینا صنعتی کیمیا میں اس کے اعلیٰ علم اور بے مثل فنی مہارت کی دلیل ہے۔علاوہ ازیں جابر بن حیان نے اپنی کتابوں میں سفیدہ،یعنی لیڈکاربونیٹ، سنکھیا یعنی آرسینک اور کحل یعنی انٹیمونی کو ان کے سلفائیڈ سے حاصل کرنے کے طریقے بھی پوری وضاحت کے ساتھ قلم بند کیے ہیں۔وہ سڑک ایسیڈ یعنی لیموں،ایسٹک ایسیڈ یعنی سرکا اور ٹارٹارک ایسیڈ یعنی ست لیموں جیسے نباتاتی تیزابوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ ان کا سب سے اہم کام تین معدنی تیزابوں کی دریافت ہے جن کو دنیا پہلی بار اُس نے قرع انبیق ی مدد سے تیار کیا تھا۔آلاتِ کیمیا میں قرع انبیق جابر بن حیان کی خاص اور قابلِ قدر ایجاد ہے۔ جس سے کشید کرنے، عرق کھینچنے اور ست یا جوہر نکالنے کا کام لیا جاتا ہے۔جابر بن حیان کلمی شورے کے تیزاب کو اسی طریقے سے پہلی بار دریافت کیا۔جابر حیان نے ثابت کیا کہ یہ کلمی تیزاب سے تانبے،چاندی، چمڑے اور دیگر اشیا میں سوارخ ڈال دیتاہے، مگر سونے اور شیشہ میں نہیں۔ایک اور تجربے سے جابر بن حیان نے ایک اور تیزاب حاصل کیا، جسے موجودہ زمانے میں گندھک کا تیزاب کہتے ہیں۔یہ تیزاب سونے کو بھی گلا دیتا تھا۔اس کا نام ماء الملوک رکھا، یعنی بادشاہوں کا پانی کے ہیں۔لاطینی زبان میں اسے aquq regia کہتے ہیں انگریزی میں بھی یہی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ایم برتھ کا قول” جابر بن حیان کا کیمیا میں وہی مقام ہے جو ارسطو کامنطق میں ہے۔ ایس۔ لی بون کا کہا ہے کہ جابر بن حیان کی کتب کو ایک ساتھ ملا کر ہم اُن علوم پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا تیارکر سکتے ہیں۔ ابنِ ندیم نے جابر بن حیان کی تین سو تالیفات کا ذکر کیا ہے۔جابر بن حیان اپنے شاگردوں کو قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے یوں خطاب کرتے ہیں”علم کوسمجھنے کے لیے صبر سے کام لینا پڑتا ہے۔یہ استقامت طلب چیز ہے۔ یاس اور نا اُمیدی کو پاس نہیں پھٹکنے دیں۔ جابر حیان اپنے شاگردوں سے فرماتے ہیں”دیکھو میرے بھائی مایوسی سے دامن بچائو۔ مایوسی تمھاری عمر اور مال دونوںکو ختم کر دے گا۔اللہ کی قسم! میں نے اِن کتابوں میں صرف تالیف کی ہے اور باقی جو ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہے۔جابر بن حیان کا انتقال 815 ء میں طوس میں ہوا اور وہ وہیں دفن ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔