... loading ...
حمیداللہ بھٹی
بظاہر ٹی ٹی پی اسلامی تنظیم ہونے کی دعویدار اور پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذچاہتی ہے مگر یہ تنظیم جس میں اب کئی چھوٹے چھوٹے گروپ بھی شامل ہو چکے ہیں، پاکستان جیسی اسلامی نظریاتی مملکت کوجس طرح غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہے،اس سے اِس کے عزم و اِرادے عیاں ہوتے ہیں کہ اِس تنظیم کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ اِس کے ہرکارے ایسی کٹھ پتلیاں ہیں جو اغیار کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں اور پاکستان کو مستحکم ،خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہے۔
اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ ہے مگر تعجب تو اِس بات پر ہے کہ اپنے وطن کے خلاف ہی کچھ لوگ ہتھیاراُٹھاکر لڑرہے ہیں یہ جو بھی ہیں نہ اِن کا اسلام سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی یہ وطن کے خیرخواہ ہیں بلکہ صاف مطلب یہ ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں اور اِن سے وہی سلوک ضروری ہے جووطن دشمن عناصراور دہشت گردوں سے ہوتا ہے۔ اطمنان بخش امر یہ ہے کہ ملک کے اسلام پسند طبقے نے متفقہ طور پر ایسے دہشت گردوں کونہ صرف اسلام سے خارج قراردیا ہے بلکہ ملک کے خلاف ہتھیار اُٹھاناجہاد نہیں بلکہ حرام کا فتویٰ صاد ر کیا ہے پاک فوج کے دہشت گردوں کے خلاف عزم و اِرادے اور اسلام پسند طبقے کے فتوے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردوں کاایسا عبرتناک انجام قریب ہے جس کے بعد کسی شرپسند کو مملکت خدادادکے خلاف صف آراہونے کی جرأت نہیں ہو گی۔
غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغانستان کا اقتدار طالبان کو ملنے سے تو قع تھی کہ نہ صرف افغانستان میں امن قائم ہو گا بلکہ خطے میں جاری دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہو گا اور جنگ سے تباہ حال یہ ملک معاشی و تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا جس کی وجہ دہشت گردوں کا مسکن بنناہے ۔یہی وجہ ہے کہ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو ئیں اورنہ صرف افغانستان میں ابھی تک بدامنی ہے بلکہ ہمسایہ ممالک بھی دہشت گردوں کے نرغے میںہیں جس سے روزگار کے مواقع میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کی بجائے آج افغانستان بھوک و افلاس کا مرکز بنتا جا رہاہے ۔اِس پر ہمسایہ ممالک بھی پریشان ہیں پاکستان خاص طور پر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ صوبہ کے پی کے اور بلوچستان میں آئے روز ایسے حملے ہوتے ہیں جن میں سیکورٹی فورسز کو خاص طورپر نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے پاکستان کی تشویش دوچندہوچکی ہے اوراذہان میں یہ خیال جنم لینے لگا ہے کہ افغان طالبان کی حمایت کرنا کہیں پاکستانیوں کا غلط فیصلہ تو نہیں تھا ؟کیونکہ طالبان نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اقتدار میں آکر یقینی بنائیں گے کہ اُن کی سرزمین دہشت گرداستعمال نہ کر سکیں مگر پاکستان میں پہ درپہ ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں ملوث دہشت گردوں نے افغان سرزمین استعمال کی جس پر پاکستان نے احتجاج بھی کیا مگر ابھی تک طالبان نے رسمی جواب دینے کے علاوہ دہشت گردوں کے خلاف کسی نوعیت کی ٹھوس کاروائی سے اجتناب ہی کیاہے جس سے ایسے خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ عین ممکن ہے دہشت گردوں کو کاروائیوں میں طالبان کی معاونت و سرپرستی حاصل ہو ۔
افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک طالبان کے دوبرس قبل اقتدار میں آنے سے امن کے حوالے سے بڑی پیش رفت کی توقع رکھتے تھے مگراے بسا آرزوکہ خاک شد۔آج ہمسایہ ممالک میں طالبان کے حوالے سے پریشانی پائی جاتی ہے پاکستان مسلسل دہشت گردوں سے برسرِ پیکارہے اور افغان سرزمین خلاف ا ستعمال ہونے پر صدائے احتجاج بلند کر رہا ہے مگرطالبان رویے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اُنھیں حالات سے کوئی پریشانی نہیں شاید وہ حالات کو اپنے نکتہ نظر کے مطابق بہتر تصور کرتے ہیں اسی لیے نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور فیصلہ کُن کاروائی سے گریزاں ہیں بلکہ صدائے احتجاج کو بھی خاطر میں نہیں لاتے حالانکہ حالات یہ ہیں کہ پاکستان جو دہشت گردوں کے خاص طور پر نشانے پر ہے وہ تو دبائو میں ہے ہی ،اب تو چین جو طالبان حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے کے ترجمان نے بھی طالبان کو صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ سیاسی اصلاحات متعارف کرانے کے ساتھ پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنائیں اور سیکورٹی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ایران اور افغانستان کے تعلقات بھی مدوجزر کا شکار ہیں دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی بے اطمنانی ہے طالبان حکومت کوہمسایہ ممالک کی طرف سے تسلیم نہ کرنے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ طالبان کسی کی سننے کے بجائے اپنی منوانے کی پالیسی پر عمل پیراہے۔ اسی بناپر عالمی تنہائی کا شکار ہیں اگر اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور دہشت گردوں کے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں بلکہ اُن کے خلاف کاروائی کریں تو نہ صرف ہمسایہ ممالک کے شوک وشبہات ختم ہو سکتے ہیں اور اُن کا اعتماد حاصل ہو سکتا ہے بلکہ افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری آسکتی ہے جس سے ذرائع آمدن میں اضافہ ہو سکتا ہے، نیز اِس طرح ہمسایہ ممالک کے اشتراک سے خطے کو تجارتی و معاشی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جا سکتا ہے لیکن طالبان کے اطوار سے لگتا ہے کہ انھیں امن اور سیاسی اصلاحات سے نہیں محض اپنے اقتدار سے غرض ہے اوروہ آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں جس سے دہشت گردوں کو کارروائیوں کے لیے سازگار ماحول مل رہا ہے یہ صورتحال کسی طور اچھی نہیں۔ کیونکہ پاکستان کی عسکری قیادت زیادہ دیر دفاعی حکمتِ عملی پر عمل پیرانہیں رہ سکتی اور اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے۔ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا ریاست کااولیں فرض ہے اور ریاستی رٹ کو ریاستی اِدارے ہی یقینی بناتے ہیں۔ اِس لیے جلد بدیرریاستی اِداروں کو سرحدپار بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی طرف آنا پڑے گا ۔
پاکستان کی عسکری قیادت دہشت گردوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرنے کے لیے پُرعزم ہے اِس میں پوری قوم شرپسند عناصر کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے ایک عشرے تک پاکستان کی مسلح افواج نے عالمی ،علاقائی اور اندرونی دہشت گردوں کے خلاف مشکل ترین لڑائی نہ صرف کامیابی سے لڑی بلکہ جدید ترین اسلحے سے لیس دنیا کی طاقتور ترین افواج سے زیادہ بہتر نتائج کم وقت میں حاصل کیے جوپاک فوج کی طاقت، جذبے کے عکاس ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں پاک فوج کے کلیدی کردار سے کوئی صرفِ نظر نہیں کر سکتا ۔اب یہ جو پھر اِکا دُکا واقعات ہونے لگے ہیں اِس کے پسِ پردہ نہ صرف بیرونی ہاتھ ہے بلکہ افغانستان میں دستیاب محفوظ ٹھکانے ہیں، جہاں سے دہشت گردکارروائیاں کرتے ہیں ۔ایسے عناصر کے خلاف نتیجہ خیز اور ٹھوس کارروائی وقت کا تقاضا ہے کیونکہ دہشت گردی کے زیادہ ترواقعات میں ملوث عناصر کا تعلق افغانستان سے نکلتا ہے۔ اِس لیے وقت آگیا ہے کہ پاکستان نہ صرف افغان طالبان سے دوٹوک بات کرے بلکہ دہشت گردوں کو اُن کے ٹھکانوں پر نشانہ بنایا جائے تاکہ شہریوں کے جان و مال سے کھیلنے والوں کا عبرتناک انجام جلد یقینی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔